فردِ واحد کی موت قوم کی حیات
ایسے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کو فوجی کارروائی یاد آئی۔
ایک سیاہ فام پادری مارٹن لوتھرکنگ جونیئر 1968 میں کسی نامعلوم سفید فام کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ مارٹن لوتھرکوئی عام سیاہ فام نہ تھے بلکہ یہ چرچ کے منسٹر ہونے کے علاوہ امریکی افریقی قوم کے رہنما بھی تھے جنھوں نے اپنی تحریک سے سیاہ فام امریکیوں کے حقوق دلوانے میں بڑی جدوجہد کی ہے۔
اس جدوجہد کا عکس سن اڑسٹھ میں تو نمایاں نہ ہوا لیکن موٹر مکینک کی موت کے بعد عالم میں کوچہ بہ کوچہ، شہر بہ شہر، ملک بہ ملک نمایاں ہوا، ہیجانی اجتماعات منعقد ہوئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکا کی چالیس ریاستوں میں انقلاب کے منظر نمایاں ہو رہے تھے۔ عوامی دباؤ کے تحت پولیس کے بڑے بڑے افسران عوام کے روبرو جارج کلائیڈ کا نام لے کر نیل ڈاؤن ہوئے۔ افسران بالا کے یہ گھٹنے اگر زمین بوس نہ ہوتے تو امریکی عوام یہ کہتے ہیں کہ دوسرا خونیں انقلاب دروازے پر کھڑا تھا۔ ریاست وسکونسن میں اور اس کے علاوہ دوسری ریاستوں میں ہتھوڑے اور درانتی کے مناظر دیکھے گئے۔
ایسے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کو فوجی کارروائی یاد آئی۔ جس پر وہاں کے اکثر فوجی ریٹائرڈ افسران بالا نے یہ کہا کہ یہ کوئی تھرڈ ورلڈ کنٹری نہیں کہ یہاں عوام کے خلاف فوج استعمال کی جائے۔ بہرصورت حزب مخالف کے لیڈران جن میں جوبائیڈن اور دیگر لیڈر شامل تھے انھوں نے گرم معاملات کو سرد کرنے میں حکومت وقت کا ہاتھ بٹایا کہ کہیں جمہوریت کے ڈبے پٹڑی سے نہ اتر جائیں۔
پندرہ دن گزر جانے کے بعد بھی فرانس کے شہر پیرس میں مظاہرین اس واقعے کی مذمت در مذمت کر رہے ہیں۔ تو اس میں کیا بعید تھا کہ اگر انقلاب بردار لوگوں کو ذرا بھی شئے مل جاتی تو امریکی ریاستیں ماضی کی سوویت یونین کا منظر نہ پیش کرتیں، لیکن امریکی دانشوروں نے سہل پسندی سے اور نرم مزاجی سے اس کڑے وقت کوگزرجانے دیا، کیونکہ امریکی عوام کو ماضی کی سوویت ریاستوں کے طرز پر بہت سے فوائد تو مل ہی رہے ہیں، تو پھر وہ ایسے انقلاب کو کیسے گلے لگائیں جس میں یہ نہیں معلوم کہ انجام کار کیا ہوگا۔
اگر فوجی بیانات کے علاوہ عملی طور پر مداخلت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، تو جوکچھ انھیں حاصل ہے دانشوروں نے یہ سوچا کہ کہیں اس سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ لہٰذا انقلاب بس ایک جھٹکے کی کسر تھی کہ شروع ہوتے ہوتے رہ گیا۔
اس میں امریکی انقلابیوں کی کمزوری کو مورد الزام ٹھرایا جائے یا ان کی دور اندیشی کی داد دی جائے۔ بہرصورت قوموں کی زندگی میں ایسے لمحے شاذ ونادر ہی آتے ہیں، پر وہاں انقلاب اس لیے بھی نہ آیا۔ کیونکہ وہاں کوئی مضبوط انقلابی پارٹی نہ تھی جس کی جڑیں ہر شہر اور ہر ریاست میں ہوتیں، کیونکہ انقلاب اچانک نہیں آتے۔ اس کی تربیت دی جاتی ہے۔ پارٹی بنائی جاتی ہے اور ذہن تیار کیے جاتے ہیں، مگر جو واقعات امریکا میں گزر گئے وہ کسی آنے والی تباہی سے کم نہ تھے۔
یہ اچھا ہی ہوا کہ بے ترتیب انقلاب آنے سے رہ گیا ورنہ اس کا انجام خود امریکا اور دیگر ممالک پر کیسے اثر انداز ہوتا۔ یہاں اس بات کے بھی امکانات تھے کہ انقلاب کے بدلے ہولناکی جنم لیتی اور انسانی زندگی برباد ہوتی۔ تو پھر مجبوراً امریکی فوج کو اپنا روایتی کردار ادا کرنا پڑتا۔ بات تو بظاہر بہت چھوٹی سی تھی کہ ایک کانسٹیبل نے ایک مزدورکی گردن پہ گھٹنا رکھ کے مار ڈالا، لیکن سماجی اعتبار سے دنیا جس قدر آگے بڑھ گئی ہے اور امریکی عوام کا شعور جتنا بلند ہو گیا ہے۔
اس کا انجام خونریز تصادم ہی ہوتا اور امریکی ریاست جو معاشی اور سماجی طور پر دنیا میں جو بلند رتبہ رکھتی ہے اس سے محروم ہونے کے امکانات بہت وسیع نظر آتے تھے۔ اس واقعے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ تعلیم تربیت اور معاشی خوشحالی انسان میں صبر، ضبط اور غور و فکر کے معاملات کو جنم دیتی ہے۔ ورنہ پولیس کانسٹیبلوں کی غلطیوں، کوتاہیوں کے نتائج تیسری دنیا کے ملکوں میں ایسے ہوجاتے ہیں جس سے بڑا ہیجان برپا ہوجاتا ہے۔
امریکا کا حالیہ ہیجان بھی پولیس کے ایک معمولی ملازم کی بے ضابطگی نے 1968 کے ان نعروں کو دوبارہ زندہ کردیا۔ جو مارٹن لوتھرکنگ جونیئر کام کر رہے تھے کہ گورے اور کالوں کی چپقلش کا خاتمہ ہوجائے ورنہ کسی بھی وقت امریکی ریاست کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ دنیا میں ڈالر مستحکم ہے پھر باہمی چپقلش کی وجہ سے کمزوری کا نشانہ بن سکتا ہے۔
ایک اور بات جو زیر غور ہے اور امریکی قیادت کے بلند و بالا ایوانوں سے یہ آوازیں آ رہی ہیں کہ انھیں امریکا کی اعلیٰ ترین قیادت پر مکمل اعتماد نہیں جس کا اظہار امریکی میرین جنرل جیمز مٹس نے حالیہ دنوں کے واقعات سے تنگ آکر صدر ٹرمپ پر یہ واضح کردیا کہ وہ متضاد سیاسی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر امریکی قوم کی خدمت نہیں کرسکتے۔ حالیہ مکینک کی موت جو ایک پولیس افسرکے گھٹنے کے دباؤ سے ہوئی اور اس مستری نے موت سے چند لمحے پہلے کانسٹیبل سے کہا کہ ''مجھے سانس نہیں آرہی ہے'' مگر پولیس مین نے ایک نہ سنی، اور قانون کی دھجی اپنے جوتوں سے اڑا ڈالی۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست ہائے متحدہ کے صدر مملکت کو بھی دباؤ میں آنا پڑا۔ اور پورا امریکا کارکنوں سمیت دانشور اور سفید و سیاہ یکجا ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جو ایک نئے انقلاب آفرین راہوں سے گزرنے لگا۔ بعض لوگوں کو یہ ڈر تھا کہ کہیں کوئی ایسا انقلاب سامنے نہ آجائے کہ جس کا کوئی تدارک نہ ہوسکے۔ بہرحال دانشوروں اور افسران بالا سمیت چھوٹی قیادت سب نے مل کر اس انقلاب کا راستہ روکا اور نئی راہوں کو مشعل راہ بنایا جس سے عوام کے جذبات بھی ٹھنڈے ہوں اور بظاہر انقلاب کا راستہ بھی مسدود ہوا۔ پورے امریکا میں توڑپھوڑ تو شروع ہوگئی مگر وہ توڑ پھوڑ ان بتوں کی تھی جو پورے امریکا میں نامی گرامی بندوں کے نصب تھے۔ تمام وہ بت گرائے جانے لگے جو کبھی بلندی کا نشان تھے۔
جن لوگوں نے سیاہ فاموں کی تجارت کی تھی یا ان کے ناموں کو کم ظرف کے طور پر پیش کیا تھا ان تمام بلند مراتب لوگوں کے مراتب گرائے جانے لگے۔ صرف یہی نہیں ہوا کہ جارج کلائیڈ کا نام امریکی سرزمین پر جگہ جگہ بلند ہوا بلکہ ان کا نام ریاست ہائے متحدہ کے علاوہ یورپی سرزمین فرانس، برطانیہ میں بھی اتنا بلند ہوا کہ وہاں کے باشندے بھی یہ سمجھے کہ یوکے میں بھی کوئی انقلاب آنے کو ہے۔
یہاں بھی اہل دانش نے ہوش مندی سے کام لیا اور تصادم سے گریزکیا۔ اس میں سب سے قیمتی آرا اور راستہ لندن کے میئر صادق نے اختیارکیا کہ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کسی ہیجان میں مبتلا ہوکر قدیم مشہور لوگوں کے مجسموں کو پاش پاش نہ کریں بلکہ یہ کام حکومت خود اپنے ہاتھوں سے کرے گی،تاکہ ملک میں کوئی خلفشار نہ پیدا ہو۔ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں معلوم ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی آرا تیزی سے بدل چکی ہے۔ انھیں یہ معلوم ہے کہ دور جدید میں اقوام کی آزادی کا کیا مفہوم ہے۔
مسٹر صادق نے مزید کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ سیاہ فام اقوام اور دیگر قوموں کے ساتھ فتح مند لوگوں نے کیا سلوک کیا۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ فتح مندوں کے چہرے جابجا نمایاں نہ کیے جائیں۔ مسٹر صادق نے مزید کہا کہ امریکا میں اس وقت جو مہم چل رہی ہے رفتہ رفتہ اس کی حدت میں کمی آگئی ہے۔ مگر اس کمی کو لانے میں امریکی سیاہ فام اور سفید فام دانشوروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ مگر ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صورتحال بالکل قابو میں ہے۔ سیلاب تو گزر گیا مگر اس کے چھوڑے ہوئے تباہ کاریوں کے آثار جگہ جگہ موجود ہیں۔
امریکا میں تباہ کاریوں کے درمیان ایک اور نعرہ لگایا جا رہا تھا کہ پولیس کا نظام ختم کرو۔ یہ ایک بے راہ رو آزادی کا نشان تھا جو اب رفتہ رفتہ سکون کی سانس میں ڈوب گیا۔ اگر اہل دانش نے امریکا میں ہوش مندی سے کام نہ لیا ہوتا تو پھر ریاست ہائے متحدہ میں ہر طرف ہائے، ہائے کے نعرے بلند ہو رہے ہوتے اور دانشوروں کی رکاوٹ کے باوجود امریکا سکون کی دنیا میں اپنا وقار بچا نہ سکتا۔
اس قسم کے واقعات تھرڈ ورلڈ میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں مگر لوگوں کو انسانی جان کی اس قدر پروا نہیں ہے اور نہ لوگ ہتک عزت سے طیش میں آتے ہیں۔ دسمبر کے شروع میں کراچی پولیس نے بیچ شہر میں بیسیوں لوگوں کو ایک ساتھ مرغا بناکر چلایا، مگر دوسرے روز شہر پرسکون تھا۔ انسانی حقوق کے علم بردار ایسا لگتا ہے کہ وہ اس محاورے سے بڑے متاثر تھے کہ رات گئی بات گئی۔
ابھی تھرڈ ورلڈ میں انسانی حقوق اور عزت نفس کا وہ تصور بیدار نہیں ہوا جوکہ مغربی دنیا میں ہو چکا ہے اور یہاں کی انجمنیں انسانی حقوق کا صرف پرچار کر رہی ہیں۔ اگر امریکا میں سفید فام دانشوروں نے وقت کی نزاکت کو نہ سمجھا ہوتا تو آج امریکا سفید فام اور سیاہ فام کی کشمکش سے گزر رہا ہوتا کیونکہ امریکی حکمرانوں کو نسلی امتیاز کی گہرائیوں سے واسطہ نہیں پڑا۔