’’ایک رکنی‘‘ سلیکشن کمیٹی کے فیصلے

ڈومیسٹک کرکٹ کا بھی تیاپانچہ کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود حکومت نے ان سب کو کھلی چھوٹ دی رکھی


سلیم خالق June 15, 2020

جس طرح کسی نئی حکومت کے کامیاب نہ ہونے پر لوگوں کوسابقہ حکمرانوں کی یاد آنے لگتی ہے ویسا ہی کچھ کرکٹ بورڈ کے حوالے سے بھی ہے، وہ لوگ جو سابق چیئرمینز کو برا بھلا کہتے تھے آج ان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ ''موجودہ پی سی بی حکام سے اچھے تو وہ تھے''، کیا واقعی ایسا ہی ہے اگر ہم حقیقت پسندانہ سوچ رکھیں تو اندازہ ہوگا کہ نجم سیٹھی کے دور میں دودھ کی نہریں نہیں بہتی تھیں نہ ہی ہماری ٹیم ورلڈ چیمپئن بن گئی تھی، مگر احسان مانی سے جو توقعات وابستہ کی گئیں بدقسمتی سے وہ بھی اب تک ان پر پورا نہیں اتر پائے، قومی ٹیم کی پرفارمنس کا گراف نیچے آیا، تقریباً تمام تقرریاں متنازع ثابت ہوئیں، پی ایس ایل کے معاملات بھی مثالی انداز میں نہیں چلائے جا رہے۔

ڈومیسٹک کرکٹ کا بھی تیاپانچہ کر دیا گیا، مگر اس کے باوجود حکومت نے ان سب کو کھلی چھوٹ دی رکھی، البتہ معاملات لائیو اسٹریمنگ کیس سے خراب ہونا شروع ہوئے، قومی اسمبلی کے ممبر اقبال محمد علی نے وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ بتا دیا کہ پاکستان سپر لیگ کے میچز جوئے کی غیرملکی ویب سائٹ پر لائیو دکھائے گئے، پھر جب کورونا کے دنوں میں 55 غریب ملازمین کو نکالا گیا تو بورڈ حکام کیلیے مزید مشکل وقت شروع ہوگیا، کرکٹ بورڈ کے ایوانوں میں یہ بات زیرگردش ہے کہ حکومت کی جانب سے کچھ نہ کچھ تو کہا گیا، اقبال محمد علی کو سی او او سلمان نصیر نے خط لکھ کر لائیو اسٹریمنگ کیس پر وضاحت دی اور اس کی ایک کاپی وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں بھی بھیجی گئی۔

اس سے بھی لگتا ہے کہ شاید اعلیٰ حکام نے معاملات کا نوٹس لے لیا،اسی لیے وضاحتیں دی جا رہی ہیں، پھر بورڈ نے برطرف شدہ ملازمین کو واپس لے لیا اورسی ای او وسیم خان نے 15لاکھ روپے ریلیف فنڈ میں جمع کرانے کا اعلان کیا تو اس سے واضح ہوگیا کہ تیزی سے خراب ہوتے بورڈ کے امیج کو ٹھیک کرنے کی کوشش شروع ہو چکی ہے، اس کے بعد اچانک یہ باتیں سامنے لائی گئیں کہ احسان مانی کو آئی سی سی کا چیئرمین بننے کی پیشکش ہو گئی، پھر جب یونس خان کو بیٹنگ کوچ بنایا گیا تو یہ ثابت ہوگیا کہ اب ''اچھا بچہ'' بننے کی کوشش ہورہی ہے، ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں جن سے عوام میں امیج بہتر ہو، یہ بہت اچھی بات ہے چاہے ارباب اختیار کے ہوش دلانے پر ہی پی سی بی کو عقل آئی مگر ایسے فیصلے جو کرکٹ کیلیے اچھے ہوں ان کی کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔

یونس خان کا تقرر موجودہ انتظامیہ کا واحد ایسا فیصلہ ہے جس کی سب نے تعریفیں کیں، البتہ صرف ایک سیریز کیلیے تقرری سمجھ نہیں آتی جب سب کو3 سال کیلیے ذمہ داری سونپی تو یونس کے ساتھ بھی ایسا کرنا چاہیے تھا،یہ درست ہے کہ ماضی میں ان کی بورڈ حکمرانوں سے نہیں بنی مگر اب وہ خود کہتے ہیں کہ شخصیت میں بہت تبدیلی آ چکی، وہ پاکستان کے عظیم بیٹسمینوں میں شامل ہیں اور ان کی موجودگی سے یقیناً ٹیم میں بہتری آئے گی، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مصباح الحق اور وقار یونس ان کے آنے سے کتنے خوش ہیں، بورڈ نے مشتاق احمد کو بولنگ کوچ بنایا ہے حالانکہ اس پوسٹ پر ثقلین مشتاق زیادہ موزوں ثابت ہوتے، وہ موجودہ انگلش ٹیم کے ساتھ وابستہ رہ چکے اور کھلاڑیوں کی خوبیوں اور خامیوں سے بخوبی آگاہ ہیں،دورۂ انگلینڈ کیلیے پی سی بی نے 14 رکنی بھاری بھرکم ٹیم مینجمنٹ کا اعلان کیا ہے، ماضی میں کھلاڑیوں کی تعداد اتنی ہوتی تھی، اب 43رکنی دستہ چارٹرڈ فلائٹ میں جائے گا۔

یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ آپس میں ہی ٹرائنگولر سیریز بھی کھیل سکتے ہیں،سمجھ سے باہر ہے کہ اتنے زیادہ آفیشلز کی کیا ضرورت پڑ گئی، مگر دوستیاں بھی تو نبھانا پڑتی ہیں، جیسے منصور رانا ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ ذاکرخان کے قریبی دوست ہیں وہ انھیں نوازنے کیلیے کوئی نہ کوئی ذمہ داری سونپ ہی دیتے ہیں،ایک کوالیفائیڈ کوچ کو منیجر بنانا عجیب سا لگتا ہے، اسی اقربا پروری نے پاکستان کرکٹ کو ہمیشہ نقصان پہنچایا، اس دورے کیلیے ٹیم سلیکشن سب سے آسان کام تھا،29 کھلاڑیوں کا انتخاب تو کوئی عام کرکٹ شائق بھی کر سکتا ہے مگر یہاں بھی سلیکشن کمیٹی نے حق داروں کو نظر انداز کیا۔

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ نام نہاد سلیکٹرز ڈومیسٹک ٹیموں کے کوچز ہیں مگر انھوں نے بھی اپنے کھلاڑیوں کیلیے آواز نہ اٹھائی، میں اسی لیے کہتا ہوں کہ سلیکشن کمیٹی میں ایک ہی لیول کے سابق کرکٹرز ہونے چاہئیں، چیف بڑا نام اور باقی اوسط درجے کے پلیئرز ہوں تو بیچارے کچھ بول نہیں پاتے،انضمام الحق کے دور میں بھی یہی ہوا اور اب مصباح الحق بھی یہی کر رہے ہیں،موسیٰ خان کو آپ ملک کا مستقبل قرار دیتے تھے اب وہ بہترین 29 پلیئرز میں بھی شامل نہیں ہو سکے، اس سے لگتا ہے کہ آپ کی نظریں جوہر شناس نہیں اور قبل از وقت انھیں منتخب کر لیا تھا، یا پھر اب سلیکٹ نہ کر کے غلطی کی، عثمان قادر کہاں گئے؟

قائد اعظم ٹرافی کے ٹاپ تھری بولرز نعمان علی، بلال آصف اور ظفر گوہر کہاں ہیں؟934 رنز بنانے کے باوجود عمران بٹ اگر 29 کرکٹرز میں بھی شامل نہیں ہو سکتے تو ایسی ڈومیسٹک کرکٹ کو ختم کر دینا چاہیے، ریزرو میں رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا محنت کا صلہ دینا چاہیے، فہیم اشرف کو کس کارکردگی پر واپس لایا گیا؟ افتخار احمد کو کیوں ہر دورے کیلیے منتخب کر لیا جاتا ہے، اس کی واحد وجہ تو مصباح الحق سے قربت لگتی ہے،البتہ سلیکٹرز نے حیدرعلی کو منتخب کر کے اچھا فیصلہ کیا، وہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہیں، دورۂ انگلینڈ سے انھیں تجربہ حاصل ہوگا۔ اگر15 کرکٹرز ہوتے تو بات سمجھ آتی 29 میں تو کم از کم ڈومیسٹک پرفارمرز کو ہونا چاہیے تھا،خیر ہر دور میں ایسا ہوتا ہے اب بھی یہی ہوا تو حیران نہیں ہونا چاہیے، اب امید ہی کرنی چاہیے کہ دورۂ انگلینڈ میں قومی ٹیم بہتر پرفارم کرے گی، ورنہ ''ایک رکنی'' سلیکشن کمیٹی اور بھاری بھرکم مینجمنٹ کی افادیت پر سوال اٹھنے لگیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں