سندھ کووڈ 19 ایمرجنسی ریلیف آرڈیننس مذاق بن کر رہ گیا
حکومتی دعوؤں کے باوجود اس آرڈیننس کو من و عن نافذ نہ کیا جاسکا اور یہ صرف دستاویزات تک ہی محدود نظر آتا ہے
کورونا وبا کے بعد صوبائی حکومتوں کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود کے بلند بانگ دعوے کیے گئے اور اسی شور و غوغا میں سندھ حکومت نے سندھ کووڈ 19 ایمرجنسی ریلیف آرڈیننس 2020 کا اجرا کیا تاکہ وبا کے دنوں میں عوام الناس کو ریلیف دیا جاسکے تاہم صوبائی حکومتوں کے تمام دعوؤں کے باوجود اس آرڈیننس کو من و عن نافذ نہیں کیا جاسکا ہے اور یہ صرف دستاویزات تک ہی محدود نظر آتا ہے۔
اس آرڈیننس کو سندھ کابینہ سے منظوری کے بعد گورنر عمران اسماعیل کے دستخط سے جاری کیا گیا تھا تاہم اس کی کئی شقوں پر اعتراضات بھی کیے گئے تھے۔ آرڈیننس کے مطابق صوبے میں زمین مالکان کے لیے ضروری قرار دیا گیا تھا کہ وہ معاشی صورت حال کے پیش نظر اپنے کرایہ داروں سے کرایہ وصولی کو موخر کردیں۔اسی آرڈیننس کے مطابق 800 اسکوائر یارڈ کے اپارٹمنٹس کے رہائشی افراد کو پانی کے بل سے استثنا دیا گیا تھا جبکہ تمام تعلیمی اداروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ماہانہ فیس کا 80 فیس سے زائد وصول نہیں کرسکتے، جبکہ تمام مالکان سے کہا گیا تھا کہ وہ کسی ملازم کو برطرف نہیں کریں گے ۔ اس آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ خلاف ورزی کی صورت میں دس لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے ایکسپریس نے شہر کے مختلف علاقوں میں سروے کیا تاکہ اس آرڈیننس کی عمل داری کا جائزہ لیا جاسکے تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ جن علاقوں میں سروے کیا گیا ان میں گلشن اقبال، پی ای سی ایچ ایس، کلفٹن، ڈیفنس، اختر کالونی اور صدر شامل ہیں۔ایکسپریس سے بات چیت میں کلفٹن کے رہائشی احسن زیدی نے بتایا کہ گزشتہ روز انھیں ان کے بچے کے اسکول کی جانب سے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں فیس جمع کرانے اور نئے تعلیمی سال کا نصاب خریدنے کا کہا گیا تھا، اور جب وہ اسکول پہنچے تو اسکول انتظامیہ نے ان سے پوری فیس وصول کی بالکل اسی طرح جیسا انھوں نے گزشتہ ماہ وصول کی تھی۔
اس قانون کا نفاذ کہیں نظر نہیں آتا اور عوام اسے ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس طرح اختر کالونی کے رہائشی علی عظمت جو رکشتہ چلا کر اپنا گھر چلاتے ہیں انہوں نے بتایا کہ اپریل اور مئی میں لاک ڈاؤن کے دوران میں گھر سے باہر نہیں جاسکا اور کچھ کما نہیں سکا اور جب میں نے مالک مکان سے کرایہ موخر کرنے کا کہا تو اس نے مجھے بے دخل کرنے کی دھمکی دی۔ میں 12 ہزار کرایہ ادا کرتا ہوں تو میں نے مالک مکان سے اسے قسط وار دینے کی درخوست کی لیکن اس نے یہ بات بھی نہیں سنی۔
مجھے کرایہ دینے کے لیے قرض لینا پڑا کیونکہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔علی عظمت کی طرح ایک اور خاتون نے بتایا کہ وہ گارمنٹ فیکٹری میں ملازمت کرتی ہیں مگر لاک ڈآؤن کے فیکٹری بند ہے تاہم انھیں اب تک حکومت یا مالکان کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں ملا جبکہ وہ مکان کا کرایہ دینے پر مجبور ہے حالانکہ اب وہ کام پر بھی نہیں جارہی۔کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی کارکن زہرا خان کا دعوی ہے کہ کورونا کے بعد سے اب تک صوبے میں ساٹھ لاکھ کے قریب افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔جب اس حوالے سے سندھ کے چیف سیکریٹری ممتاز علی شاہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری مالکان اور دیگر کمپنیوں کے مالکان نے حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی کو ملازمت سے فارغ نہیں کریں گے اور ملازمین کی تنخواہیں وقت پر ادا کریں گے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ لیبر دپارٹمنٹ نے حال ہی میں تمام فیکٹری اور کمپنی مالکان کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے یقین دہانیوں پر عمل درآمد کرائیں بصورت دیگر ان پر دس دس لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔
اس آرڈیننس کو سندھ کابینہ سے منظوری کے بعد گورنر عمران اسماعیل کے دستخط سے جاری کیا گیا تھا تاہم اس کی کئی شقوں پر اعتراضات بھی کیے گئے تھے۔ آرڈیننس کے مطابق صوبے میں زمین مالکان کے لیے ضروری قرار دیا گیا تھا کہ وہ معاشی صورت حال کے پیش نظر اپنے کرایہ داروں سے کرایہ وصولی کو موخر کردیں۔اسی آرڈیننس کے مطابق 800 اسکوائر یارڈ کے اپارٹمنٹس کے رہائشی افراد کو پانی کے بل سے استثنا دیا گیا تھا جبکہ تمام تعلیمی اداروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ماہانہ فیس کا 80 فیس سے زائد وصول نہیں کرسکتے، جبکہ تمام مالکان سے کہا گیا تھا کہ وہ کسی ملازم کو برطرف نہیں کریں گے ۔ اس آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ خلاف ورزی کی صورت میں دس لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے ایکسپریس نے شہر کے مختلف علاقوں میں سروے کیا تاکہ اس آرڈیننس کی عمل داری کا جائزہ لیا جاسکے تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ جن علاقوں میں سروے کیا گیا ان میں گلشن اقبال، پی ای سی ایچ ایس، کلفٹن، ڈیفنس، اختر کالونی اور صدر شامل ہیں۔ایکسپریس سے بات چیت میں کلفٹن کے رہائشی احسن زیدی نے بتایا کہ گزشتہ روز انھیں ان کے بچے کے اسکول کی جانب سے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں فیس جمع کرانے اور نئے تعلیمی سال کا نصاب خریدنے کا کہا گیا تھا، اور جب وہ اسکول پہنچے تو اسکول انتظامیہ نے ان سے پوری فیس وصول کی بالکل اسی طرح جیسا انھوں نے گزشتہ ماہ وصول کی تھی۔
اس قانون کا نفاذ کہیں نظر نہیں آتا اور عوام اسے ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس طرح اختر کالونی کے رہائشی علی عظمت جو رکشتہ چلا کر اپنا گھر چلاتے ہیں انہوں نے بتایا کہ اپریل اور مئی میں لاک ڈاؤن کے دوران میں گھر سے باہر نہیں جاسکا اور کچھ کما نہیں سکا اور جب میں نے مالک مکان سے کرایہ موخر کرنے کا کہا تو اس نے مجھے بے دخل کرنے کی دھمکی دی۔ میں 12 ہزار کرایہ ادا کرتا ہوں تو میں نے مالک مکان سے اسے قسط وار دینے کی درخوست کی لیکن اس نے یہ بات بھی نہیں سنی۔
مجھے کرایہ دینے کے لیے قرض لینا پڑا کیونکہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔علی عظمت کی طرح ایک اور خاتون نے بتایا کہ وہ گارمنٹ فیکٹری میں ملازمت کرتی ہیں مگر لاک ڈآؤن کے فیکٹری بند ہے تاہم انھیں اب تک حکومت یا مالکان کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں ملا جبکہ وہ مکان کا کرایہ دینے پر مجبور ہے حالانکہ اب وہ کام پر بھی نہیں جارہی۔کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی کارکن زہرا خان کا دعوی ہے کہ کورونا کے بعد سے اب تک صوبے میں ساٹھ لاکھ کے قریب افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔جب اس حوالے سے سندھ کے چیف سیکریٹری ممتاز علی شاہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری مالکان اور دیگر کمپنیوں کے مالکان نے حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی کو ملازمت سے فارغ نہیں کریں گے اور ملازمین کی تنخواہیں وقت پر ادا کریں گے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ لیبر دپارٹمنٹ نے حال ہی میں تمام فیکٹری اور کمپنی مالکان کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے یقین دہانیوں پر عمل درآمد کرائیں بصورت دیگر ان پر دس دس لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔