کورونا وبا 80 ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتی ہے مقررین
جب تک وباختم نہیں ہوتی،علما مساجد میںایس او پیز پرعمل کرائیں،سعید قریشی ،مفتی منیب الرحمن کا ’’ویبینار‘‘سے خطاب
ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق پاکستان میں کورونا کی وباکا (عروج،انتہائی وقت) 13 تا 16 اگست کو قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وبا اس عرصے کے دوران 80ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتی ہے۔
پروفیسر سعید قریشی نے اسلامک میڈیکل لرنرز ایسوسی ایشن (املا) کے زیر اہتمام ''کوروناکی موجودہ صورتحال اورہماری ذمے داری'' کے عنوان سے منعقدہ آن لائن ''وے بینار''سے خطاب کیا، پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین نے پاکستان میں کورونا کی بگڑتی صورتحال پرتشویش کااظہارکیا ہے،ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں وبا 40 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہے،ملک کی مجموعی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کوروناکوبہت سنجیدگی سے لینا ہوگا،عوام کو ہی نہیں بلکہ ڈاکٹرزاور طبی عملے کو ان سے زیادہ محتاط ہونا پڑے گا،کورونا وارڈ میں فرائض انجام دیتے ہوئے کسی وقفے کے بغیرحفاظتی لباس اور ماسک نہیں اتارنا اور ڈیوٹی کے بعد گھر میں بھی حفاظتی اقدامات کرنے ضروری ہیں،یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ہمیں کرنا ہے۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ ہماری مساجد میں ایس او پیز اختیار کی گئیں،اللہ کا شکر ہے،انھیں ایس او پیز کی بنیاد پر مسجد نبوی اور عالمِ اسلام کی دیگر مساجد کو کھولا گیا اور عمل درآمد کروایا جا رہا ہے،جب تک حکومت کی جانب سے یہ اعلان نہ کر دیا جائے کہ اس وبا کا خطرہ ٹل گیا ہے،اس وقت تک علما مساجد میں ایس او پیز پر عمل کرائیں،عوام کواحتیاطی تدابیر پرعمل کرنے کی ہدایت کرتے رہیں، اب کوئی ایک فریق اس سے تنہا نہیں نمٹ سکتا،حکومت اور قوم کو مل کر مقابلہ کرناہوگا۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ احتیاطی تدابیر میں سختی ضروری ہے، ان کی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں، مگر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے جو سازشی نظریوں پر بات کی گئی ہے اس سے عوام میں کنفیوژن پھیل گیا، کورونا حقیقت ہے ، علما اور ڈاکٹرزکی ذمے داری ہے کہ لوگوںکواس حقیقت سے آگاہ کریں ۔
پروفیسر سعید قریشی نے اسلامک میڈیکل لرنرز ایسوسی ایشن (املا) کے زیر اہتمام ''کوروناکی موجودہ صورتحال اورہماری ذمے داری'' کے عنوان سے منعقدہ آن لائن ''وے بینار''سے خطاب کیا، پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین نے پاکستان میں کورونا کی بگڑتی صورتحال پرتشویش کااظہارکیا ہے،ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں وبا 40 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہے،ملک کی مجموعی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کوروناکوبہت سنجیدگی سے لینا ہوگا،عوام کو ہی نہیں بلکہ ڈاکٹرزاور طبی عملے کو ان سے زیادہ محتاط ہونا پڑے گا،کورونا وارڈ میں فرائض انجام دیتے ہوئے کسی وقفے کے بغیرحفاظتی لباس اور ماسک نہیں اتارنا اور ڈیوٹی کے بعد گھر میں بھی حفاظتی اقدامات کرنے ضروری ہیں،یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ہمیں کرنا ہے۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ ہماری مساجد میں ایس او پیز اختیار کی گئیں،اللہ کا شکر ہے،انھیں ایس او پیز کی بنیاد پر مسجد نبوی اور عالمِ اسلام کی دیگر مساجد کو کھولا گیا اور عمل درآمد کروایا جا رہا ہے،جب تک حکومت کی جانب سے یہ اعلان نہ کر دیا جائے کہ اس وبا کا خطرہ ٹل گیا ہے،اس وقت تک علما مساجد میں ایس او پیز پر عمل کرائیں،عوام کواحتیاطی تدابیر پرعمل کرنے کی ہدایت کرتے رہیں، اب کوئی ایک فریق اس سے تنہا نہیں نمٹ سکتا،حکومت اور قوم کو مل کر مقابلہ کرناہوگا۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ احتیاطی تدابیر میں سختی ضروری ہے، ان کی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں، مگر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے جو سازشی نظریوں پر بات کی گئی ہے اس سے عوام میں کنفیوژن پھیل گیا، کورونا حقیقت ہے ، علما اور ڈاکٹرزکی ذمے داری ہے کہ لوگوںکواس حقیقت سے آگاہ کریں ۔