قدیم سندھ کے عوام کی کہانی
یقینا لوگوں میں تصادم ہوئے ہوں گے، کبھی کبھی لوگ نتیجتاً مرے بھی ہوں گے۔
KARACHI:
تقریباً دو ہزار سال تک قیادت کی کارستانی اور بڑی جنگوں کے بغیر موئن جو دڑو کی تہذیب قائم رہی۔ یقینا لوگوں میں تصادم ہوئے ہوں گے، کبھی کبھی لوگ نتیجتاً مرے بھی ہوں گے۔ قبروں سے جو سر کی کھوپڑیاں ملی ہیں ان میں کچھ کے سر پر مکوں کے چوٹ کے نشانات پائے گئے ہیں۔ مگر اس کی کوئی نشانی نہیں ملی کہ موئن جو داڑو کے شہر میں کبھی آگ لگی ہو اور اس کے نتیجے میں شہر جل گیا ہو یا پڑوس کے کسی ملک نے حملہ کیا ہو اور نہ راکھ کی کوئی تہیں۔ یہاں جنگی معرکے کے کوئی ثبوت بھی نہیں ملے ہیں۔
موئن جو دڑو کی انتظامیہ باہر سے خام مال درآمد کرتی تھی اور مصنوعات برآ مد کرتی تھی۔ موئن جو دڑو کے اردگرد کے علاقوں میں اس کی تہذیب پھیل گئی تھی۔ جب دنیا پتھر کے دور سے گذر رہی تھی تو موئن جو دڑو کانسی ، تانبے، اور پیتل کے دور میں داخل ہو گیا تھا۔ اس کے قریبی علاقے روپڑ، کالی، بنگاں، چن ہو دڑو ، سوکا جین دور اور لوحال وغیرہ تھے ،ان میں آج کل کے شمالی بلوچستان ، مغرب میں اترپردیش کا میرٹھ ضلع، شمال میں روپڑ اور جنوب میں گجرات۔ موئن جو دڑو کی تجارت مصر کے دریائے نیل کی وادی اور چین کی دریائے زرد کی وادی تک پھیلی ہوئی تھی۔
یہاں کپڑے بنانے کے اسپینڈل ہولس اور رنگنے کے ورک شاپ بھی موجود تھے۔ دو ہزار چھ سو تا ایک ہزار نو سو قبل از مسیح یعنی سات سو سال تک موئن جو دڑو دور قدیم کا جدید دور سات صدیوں تک برابری اور جنگ سے پاک سماج پر محیط تھا۔ یہاں کی چار ہزار سالہ تاریخی تہذیب میں فاتح یا مفتوح ، مداخلت یا غلامی کی کوئی نشانی نہیں ملی۔ یہ خطہ چار ہزار سال قبل از مسیح میں دو لاکھ پچاس ہزار اسکوائر کلو میٹر پر محیط تھا۔ یعنی آج کا پاکستان ، شمالی مغربی ہندوستان اور افغانستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس تہذیب کی لہریں ممبئی ، دلی، افغانستان اور ایران تک جاتی ہیں ۔ رگ وید میں سرسوتی سندھو تہذیب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ دریائے سندھ کا پرانا نام سندھو ہوا کرتا تھا۔ نیو ورلڈ انسائیکلو پیڈیا نے یہ مشاہدہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب جنوب بعید میں ممبئی، مشرق بعید میں دہلی، مغرب بعید میں ایران کی سرحدیں اور شمال بعید میں ہمالیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس دور میں دنیا کی کسی بھی تہذیب میں شفاف پانی کا انتظام اور نکاسی آب کا صحت مند طریقہ کار نہیں تھا۔ جب کہ موئن جو دڑو کے بیشتر مکانوں میں نجی کنوئیں تھے ، سیلاب کا پانی نکل جانے کا بہترین نظام تھا۔
اس کے علاوہ وہاں کی آبادی زراعت کے لیے کھاد (دیسی) استعمال کرتی تھی۔ اینٹ کے استعمال کے ذریعے نالیاں بناتے تھے اور زیر زمین نکاسی آب کا انتظام تھا۔ بازار میں بڑے کنوئیں تھے۔ آگ جلانے کی مخصوص جگہ پائی گئی ، شاید پانی گرم کرنے کے لیے ہو۔ نالیاں ڈھکی ہوئی ہوتی تھیں ، فلیش ٹوائلٹ اور دھوبی گھاٹ وجود رکھتا تھا ، کوڑا کرکٹ زمین میں دفنایا جاتا تھا۔ سڑکوں کے ساتھ ساتھ حمام اور بیت الخلاء بھی ہوا کرتے تھے۔
کانسی کے دور میں اتنی اعلیٰ درجے کے ہنر و فن کا استعمال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتا۔ جب کہ یہاں کوئی سلطنت کی نشانی بھی نہیں تھی، صرف اخلاقیات کی بنیاد پر انتظامی امور کو چلایا جاتا تھا۔ جان مارشل بڑے سادے انداز میں بنے ہوئے مکانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مکان کے چہار گرد برامدا اور چبوترا بنا ہوا ہوتا تھا اور عقب میں تین چبوترے جس کے ساتھ گیلریز اور کمرے بھی ہوتے تھے۔ جنوب میں لمبی گیلیری ، ایک ہال کے ساتھ ہوتی تھی۔ مشرق میں ہر کونے پر ایک چیمبر یعنی بڑے کمرے ہوتے تھے۔ جب کہ ایک جانب ایک ہی چیمبر کنوئیں کے ساتھ ہوتا تھا۔
اجتماعی غسل خانہ انتیس فٹ لمبا، تیس فٹ چوڑا اور آٹھ فٹ گہرا ہوتا تھا۔ جس میں غسل کرنے والوں کا آپس میں فاصلہ موجود ہو۔ وہ اس وقت شاید عشاریہ کے نظام کی تقلید کرتے تھے۔ اس کے ہندسے کچھ یوں ہوا کرتے تھے، کہیں ایک، تین، چھ، نو، بارہ اور کہیں ایک، دو، چار، آٹھ ،سولہ سے بارہ ہزار آٹھ سو ہندسے ( یونٹس ) تک ہوتے تھے۔ کم سے کم وزن کا پیمانہ تقریبا صفر عشاریہ آٹھ پانچ گرام یونٹ ہوتا تھا۔ جب کہ زیورات کا وزن کرنے کے لیے اس سے بھی کم وزن کا پیمانہ ہوتا تھا۔
وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں '' سندھ کی عوامی کہانی '' میں یوسف شاہین بتاتے ہیں کہ قبل از ہڑپہ کا دور پانچ ہزار پانچ سو تا تین ہزار تین سو قبل از مسیح قائم تھا۔ اور یہی دور غذا کی پیداوار کرنے اور محفوظ کرنے کا بھی دور تھا۔ یہ دور یہ بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ہڑپہ ، مہر گڑھ ، کوٹ ڈیجی اور نوشہرو کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نیو لیتھیک (کانسی کا دور) وادی سندھ کے مغرب میں نزد ضلع کچی کے دارالخلافہ جو کچھی ، سطح ہموار بلوچستان کے بولان پاس کے نزدیک ہوا کرتا تھا۔
قائد اعظم یونیورسٹی ، اسلام آباد کے پروفیسر احمد حسن دانی کے مطابق مہر گڑھ کے دریافت نے وادی سندھ کا تمام تر تصور بدل دیا جہاں ہزاروں سال قبل وزن کا پیمانہ دریافت کر لیا گیا تھا۔ یہ کچھ یوں تھا صفر، عشاریہ صفر پانچ، صفر ایک، صفر عشاریہ دو، صفر عشاریہ پانچ، ایک، دو، پانچ، دس، بیس، پچاس، سو، دو سو اور پانچ سو اور کم از کم یونٹس صفر عشاریہ آٹھ سات ایک ہوا کرتا تھا۔ مہر گڑھ جہاں سب سے پہلے کاشت کاری شروع ہوئی اسلحہ سے پاک سماج تھا۔ تشدد کے ذریعے کوئی اموات ہونے کی نشانی نہیں ملی۔
سائیلینڈ مہریں ، ملوہان جسے ملوہا کا بیٹا بھی کہا جاتا تھا ، اس مہر کی لکھائی کا 'شو الیشو ' نے ترجمہ کیا ہے جس میں غیر مصدقہ طور پر وادی سندھ کے متعدد الفاظ ، حروف تہجی اور جملے پائے گئے ہیں۔ اس سے اس بات کی امیدیں وابستہ ہو گئیں ہیں کہ ملوہا تہذیب کا واسطہ وادی سندھ کی تہذیب سے رہا ہو اور موئن جو دڑو کا کوئی بھٹکا ہوا حصہ میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق ) کی اکادی علاقے میں ملوہان گائوں میں بس کر بعد میں مستقل شہری بن گئے ہوں۔ ان تمام شواہد اور ثبوتوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہزاروں سال قبل اگر موئن جو دڑو ریاست ، حکومت، بادشاہت، مذہب اور فوج سے بالاتر یعنی کسی مطلق حکام کے ماتحت ہونے کے بجائے اخلاقیات ، خود انحصاریت ، خود مختاری اور ایک آزاد امداد باہمی ترقی یافتہ سماج قائم تھا تو پھر آج کیوں نہیں؟
اسلحہ سے پاک معاشرہ ، تہذیب و اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے انسان کو انسان ہونے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ اسلحہ فاتحین پیدا کرتے ہیں اور فاتحین قتل، اغوا، ریپ اور نسل کشی کرتے ہیں۔ آج کورونا وائرس نے علاج، احتیاط اور ٹیسٹ میں دنیا کو ایک کر دیا ہے تو پھر غذا، روزگار، تعلیم ، صحت اور رہائش میں دنیا بھر کے عوام کو یکساں کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے ؟ یہی کمیونزم ہے۔ جہاں ریاست ، طبقات، ملکیت، فوج، اسمبلی اور خاندان کا خاتمہ ہوکر دنیا ایک ہو جائے گی۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ جیساکہ موئن جو دڑو میں کیا جاتا تھا۔ پھر ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا ، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔
تقریباً دو ہزار سال تک قیادت کی کارستانی اور بڑی جنگوں کے بغیر موئن جو دڑو کی تہذیب قائم رہی۔ یقینا لوگوں میں تصادم ہوئے ہوں گے، کبھی کبھی لوگ نتیجتاً مرے بھی ہوں گے۔ قبروں سے جو سر کی کھوپڑیاں ملی ہیں ان میں کچھ کے سر پر مکوں کے چوٹ کے نشانات پائے گئے ہیں۔ مگر اس کی کوئی نشانی نہیں ملی کہ موئن جو داڑو کے شہر میں کبھی آگ لگی ہو اور اس کے نتیجے میں شہر جل گیا ہو یا پڑوس کے کسی ملک نے حملہ کیا ہو اور نہ راکھ کی کوئی تہیں۔ یہاں جنگی معرکے کے کوئی ثبوت بھی نہیں ملے ہیں۔
موئن جو دڑو کی انتظامیہ باہر سے خام مال درآمد کرتی تھی اور مصنوعات برآ مد کرتی تھی۔ موئن جو دڑو کے اردگرد کے علاقوں میں اس کی تہذیب پھیل گئی تھی۔ جب دنیا پتھر کے دور سے گذر رہی تھی تو موئن جو دڑو کانسی ، تانبے، اور پیتل کے دور میں داخل ہو گیا تھا۔ اس کے قریبی علاقے روپڑ، کالی، بنگاں، چن ہو دڑو ، سوکا جین دور اور لوحال وغیرہ تھے ،ان میں آج کل کے شمالی بلوچستان ، مغرب میں اترپردیش کا میرٹھ ضلع، شمال میں روپڑ اور جنوب میں گجرات۔ موئن جو دڑو کی تجارت مصر کے دریائے نیل کی وادی اور چین کی دریائے زرد کی وادی تک پھیلی ہوئی تھی۔
یہاں کپڑے بنانے کے اسپینڈل ہولس اور رنگنے کے ورک شاپ بھی موجود تھے۔ دو ہزار چھ سو تا ایک ہزار نو سو قبل از مسیح یعنی سات سو سال تک موئن جو دڑو دور قدیم کا جدید دور سات صدیوں تک برابری اور جنگ سے پاک سماج پر محیط تھا۔ یہاں کی چار ہزار سالہ تاریخی تہذیب میں فاتح یا مفتوح ، مداخلت یا غلامی کی کوئی نشانی نہیں ملی۔ یہ خطہ چار ہزار سال قبل از مسیح میں دو لاکھ پچاس ہزار اسکوائر کلو میٹر پر محیط تھا۔ یعنی آج کا پاکستان ، شمالی مغربی ہندوستان اور افغانستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس تہذیب کی لہریں ممبئی ، دلی، افغانستان اور ایران تک جاتی ہیں ۔ رگ وید میں سرسوتی سندھو تہذیب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ دریائے سندھ کا پرانا نام سندھو ہوا کرتا تھا۔ نیو ورلڈ انسائیکلو پیڈیا نے یہ مشاہدہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب جنوب بعید میں ممبئی، مشرق بعید میں دہلی، مغرب بعید میں ایران کی سرحدیں اور شمال بعید میں ہمالیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس دور میں دنیا کی کسی بھی تہذیب میں شفاف پانی کا انتظام اور نکاسی آب کا صحت مند طریقہ کار نہیں تھا۔ جب کہ موئن جو دڑو کے بیشتر مکانوں میں نجی کنوئیں تھے ، سیلاب کا پانی نکل جانے کا بہترین نظام تھا۔
اس کے علاوہ وہاں کی آبادی زراعت کے لیے کھاد (دیسی) استعمال کرتی تھی۔ اینٹ کے استعمال کے ذریعے نالیاں بناتے تھے اور زیر زمین نکاسی آب کا انتظام تھا۔ بازار میں بڑے کنوئیں تھے۔ آگ جلانے کی مخصوص جگہ پائی گئی ، شاید پانی گرم کرنے کے لیے ہو۔ نالیاں ڈھکی ہوئی ہوتی تھیں ، فلیش ٹوائلٹ اور دھوبی گھاٹ وجود رکھتا تھا ، کوڑا کرکٹ زمین میں دفنایا جاتا تھا۔ سڑکوں کے ساتھ ساتھ حمام اور بیت الخلاء بھی ہوا کرتے تھے۔
کانسی کے دور میں اتنی اعلیٰ درجے کے ہنر و فن کا استعمال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتا۔ جب کہ یہاں کوئی سلطنت کی نشانی بھی نہیں تھی، صرف اخلاقیات کی بنیاد پر انتظامی امور کو چلایا جاتا تھا۔ جان مارشل بڑے سادے انداز میں بنے ہوئے مکانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مکان کے چہار گرد برامدا اور چبوترا بنا ہوا ہوتا تھا اور عقب میں تین چبوترے جس کے ساتھ گیلریز اور کمرے بھی ہوتے تھے۔ جنوب میں لمبی گیلیری ، ایک ہال کے ساتھ ہوتی تھی۔ مشرق میں ہر کونے پر ایک چیمبر یعنی بڑے کمرے ہوتے تھے۔ جب کہ ایک جانب ایک ہی چیمبر کنوئیں کے ساتھ ہوتا تھا۔
اجتماعی غسل خانہ انتیس فٹ لمبا، تیس فٹ چوڑا اور آٹھ فٹ گہرا ہوتا تھا۔ جس میں غسل کرنے والوں کا آپس میں فاصلہ موجود ہو۔ وہ اس وقت شاید عشاریہ کے نظام کی تقلید کرتے تھے۔ اس کے ہندسے کچھ یوں ہوا کرتے تھے، کہیں ایک، تین، چھ، نو، بارہ اور کہیں ایک، دو، چار، آٹھ ،سولہ سے بارہ ہزار آٹھ سو ہندسے ( یونٹس ) تک ہوتے تھے۔ کم سے کم وزن کا پیمانہ تقریبا صفر عشاریہ آٹھ پانچ گرام یونٹ ہوتا تھا۔ جب کہ زیورات کا وزن کرنے کے لیے اس سے بھی کم وزن کا پیمانہ ہوتا تھا۔
وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں '' سندھ کی عوامی کہانی '' میں یوسف شاہین بتاتے ہیں کہ قبل از ہڑپہ کا دور پانچ ہزار پانچ سو تا تین ہزار تین سو قبل از مسیح قائم تھا۔ اور یہی دور غذا کی پیداوار کرنے اور محفوظ کرنے کا بھی دور تھا۔ یہ دور یہ بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ہڑپہ ، مہر گڑھ ، کوٹ ڈیجی اور نوشہرو کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نیو لیتھیک (کانسی کا دور) وادی سندھ کے مغرب میں نزد ضلع کچی کے دارالخلافہ جو کچھی ، سطح ہموار بلوچستان کے بولان پاس کے نزدیک ہوا کرتا تھا۔
قائد اعظم یونیورسٹی ، اسلام آباد کے پروفیسر احمد حسن دانی کے مطابق مہر گڑھ کے دریافت نے وادی سندھ کا تمام تر تصور بدل دیا جہاں ہزاروں سال قبل وزن کا پیمانہ دریافت کر لیا گیا تھا۔ یہ کچھ یوں تھا صفر، عشاریہ صفر پانچ، صفر ایک، صفر عشاریہ دو، صفر عشاریہ پانچ، ایک، دو، پانچ، دس، بیس، پچاس، سو، دو سو اور پانچ سو اور کم از کم یونٹس صفر عشاریہ آٹھ سات ایک ہوا کرتا تھا۔ مہر گڑھ جہاں سب سے پہلے کاشت کاری شروع ہوئی اسلحہ سے پاک سماج تھا۔ تشدد کے ذریعے کوئی اموات ہونے کی نشانی نہیں ملی۔
سائیلینڈ مہریں ، ملوہان جسے ملوہا کا بیٹا بھی کہا جاتا تھا ، اس مہر کی لکھائی کا 'شو الیشو ' نے ترجمہ کیا ہے جس میں غیر مصدقہ طور پر وادی سندھ کے متعدد الفاظ ، حروف تہجی اور جملے پائے گئے ہیں۔ اس سے اس بات کی امیدیں وابستہ ہو گئیں ہیں کہ ملوہا تہذیب کا واسطہ وادی سندھ کی تہذیب سے رہا ہو اور موئن جو دڑو کا کوئی بھٹکا ہوا حصہ میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق ) کی اکادی علاقے میں ملوہان گائوں میں بس کر بعد میں مستقل شہری بن گئے ہوں۔ ان تمام شواہد اور ثبوتوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہزاروں سال قبل اگر موئن جو دڑو ریاست ، حکومت، بادشاہت، مذہب اور فوج سے بالاتر یعنی کسی مطلق حکام کے ماتحت ہونے کے بجائے اخلاقیات ، خود انحصاریت ، خود مختاری اور ایک آزاد امداد باہمی ترقی یافتہ سماج قائم تھا تو پھر آج کیوں نہیں؟
اسلحہ سے پاک معاشرہ ، تہذیب و اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے انسان کو انسان ہونے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ اسلحہ فاتحین پیدا کرتے ہیں اور فاتحین قتل، اغوا، ریپ اور نسل کشی کرتے ہیں۔ آج کورونا وائرس نے علاج، احتیاط اور ٹیسٹ میں دنیا کو ایک کر دیا ہے تو پھر غذا، روزگار، تعلیم ، صحت اور رہائش میں دنیا بھر کے عوام کو یکساں کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے ؟ یہی کمیونزم ہے۔ جہاں ریاست ، طبقات، ملکیت، فوج، اسمبلی اور خاندان کا خاتمہ ہوکر دنیا ایک ہو جائے گی۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ جیساکہ موئن جو دڑو میں کیا جاتا تھا۔ پھر ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا ، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔