چین بھارت سرحدی تنازعہ اور امریکا

بعض تجزیہ کار موجودہ پیش رفت کو پاک بھارت کشیدگی اور پاک چین دوستی کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں

چین بھارت کشیدگی میں امریکی صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ (فوٹو: فائل)

QUETTA:
ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کووڈ 19 کو قابو کرنے میں مصروف ہے، دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے اور ایٹمی مسلح ممالک، بھارت اور چین کے درمیان طویل عرصے سے چل رہے سرحدی تنازعے میں شدت آگئی ہے۔ متنازعہ ہمالیائی سرحدی علاقے میں گزشتہ دنوں بھارتی اور چینی فوج کے مابین نوک جھونک ہوئی، جس میں مکوں کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ اس نے امریکا کی بے چینی میں بھی اضافہ کردیا، تاہم صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو دونوں ممالک نے ایک طرف رکھ دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ اس وقت جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑی محاذ آرائی کے امکانات بہت کم ہیں، تاہم اس طرح کے واقعات دونوں ممالک کے درمیان خلیج کو مزید وسیع اور گہرا کرسکتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات عمومی طور پر مستحکم رہے ہیں، تاہم وقت کے ساتھ کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ کیونکہ ایک طرف چین بھارت کے اعلیٰ تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے امریکا کی حیثیت کو چیلنج کررہا ہے تو دوسری طرف بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کو خطے میں چین کی عسکری اور معاشی ترقی کھٹک رہی ہے اور اس نتکے پر امریکی حکومت بھی بھارتی حکومت کی ہمنوا ہے۔

ایک زمانے تک چین اور بھارت معاشی اعتبار سے ہم پلہ تھے۔ تاہم گزشتہ چالیس سال کے دوران حاصل کی گئی ہمہ گیر ترقی بھارت کو ہضم نہیں ہورہی۔ یاد رہے اس وقت چین کا جی ڈی پی بھارت کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔

حالیہ سرحدی تنازعہ اسی مقام پر پیدا ہوا جہاں 1962 میں بھارت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا اور چین کے تعلقات انتہائی نچلے درجے پر ہیں، ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو چینی ماہرین شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ چین کے عروج سے خائف واشنگٹن کوشش کررہا ہے کہ بھارت کو چین کے ہمسایہ ممالک کے اتحاد کی طرف کھینچ کر اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرلے۔

چین کے معروف اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ واشنگٹن چین بھارت تنارعہ سے فائدہ اٹھانے کا منتظر ہے اور جب بھی بھارت اور چین کے درمیان تنازعہ پیدا ہوتا ہے امریکا اس کو ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکا کی یہ کوشش رہتی ہے کہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کردے۔ تاہم امریکی خواہش کے برعکس بھارت اور چین نے سفارتی اور عسکری چینلز کے ذریعے درجہ حرارت کم کرنے کوشش کی ہے۔

بھارت کی وزارت خارجہ کے مطابق فریقین نے سرحدی علاقوں کی صورتحال کو پرامن طور پر حل کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اس کی بنیاد دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان وہ معاہدہ ہے، جس کے تحت دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں باہمی تعلقات کی مجموعی ترقی کےلیے امن و استحکام ضروری ہے۔


تاہم تند و تیز سوشل میڈیا کی موجودگی اور بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت کے اقتدار کے ہوتے ہوئے سرحدی تنازعہ کشیدگی اختیار کرسکتا ہے۔ آخری مرتبہ دونوں ممالک کے درمیان 2017 میں سرحدی تناؤ میں اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت کووڈ 19 کی وجہ سے بھی دونوں ممالک کے درمیان تناؤ موجود ہے، کیونکہ بھارت بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہے جو کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی ذمے داری چین پر ڈال رہے ہیں۔

اس وقت ہزاروں چینی اور ہندوستانی فوجیوں کی ایک دوسرے سے محض چند سو گز کے فاصلے پر ڈیرے ڈالنے کی اطلاع ہے اور دونوں کے درمیان گرماگرمی کی اطلاعات بھی آچکی ہیں۔ اس حوالے سے امریکی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس وقت چین جارحانہ موڈ میں ہے، جو 1962 کی یاد دلاتا ہے۔ اس وقت ماؤزے تنگ بھارت سے خوش نہیں تھا اور پیغام دینا چاہتا تھا کہ چین ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال بھی کرسکتا ہے۔

امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کے عمل میں بھارت کے ساتھ دوسروں کےلیے یکساں پیغام ہے کہ چین اپنی سلامتی سے متعلق متعدد امور سے بیک وقت نمٹنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق چین نے کووڈ 19 سے متعلق خود پر ہونے والی تنقید کے تناظر میں حالیہ مہینوں میں جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کی ہے۔ اس کی دوسری وجہ امریکا کے ساتھ خراب تعلقات بھی ہیں۔ بھارت کی سرحد پر حفظ ماتقدم کا اقدام چینی خارجہ پالیسی کے موجودہ رجحان کے مطابق ہے اور گزشتہ کچھ عرصے کے دوران امریکا اور ہندوستان کی بڑھتی ہوئی شراکت داری اور چین مخالف مشترکہ محاذ کےلیے ایک واضح پیغام ہے۔

تاہم امریکی صد ٹرمپ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن مدد کرنے میں خوش ہوگا۔ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے ہم نے ہندوستان اور چین دونوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکا، ان کے بڑھتے ہوئے سرحدی تنازعہ میں ثالثی کےلیے تیار ہے۔ تاہم نہ تو بھارت اور نہ چین نے اس پیشکش کو قبول کیا۔ حالانکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کے ساتھ ایک فون کال میں اس معاملے پر تبادلہ خیال بھی کیا اور بھارتی میڈیا رپورٹس میں نئی دہلی کے عہدیداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ واشنگٹن اس موقع پر موجود رہے۔ دوسری طرف چینی وزارت خارجہ نے واضح کردیا ہے کہ کسی بھی تیسرے فریق کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق چین اور ہندوستان کے مابین رابطے کے ٹھوس طریقہ کار اور ذرائع موجود ہیں اور دونوں فریق باہمی بات چیت اور مشاورت کے ذریعے متعلقہ امور کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

بعض تجزیہ کار موجودہ پیش رفت کو پاک بھارت کشیدگی اور پاک چین دوستی کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں اور چین کے عمل کو پاک بھارت سرحدی تناؤ کے پس منظر میں چین کی طرف سے پاکستان کی حمایت کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

یاد رہے بھارت مذکورہ علاقے کو ایک فضائی پٹی سے منسلک کرنے کے مقصد کے تحت وادی گالان میں اپنی اسٹرٹیجک سڑک بنا رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کےلیے گزشتہ سال اگست میں بھارت نے لداخ کو مقبوضہ کشمیر سے یکطرفہ طور پر علیحدہ کرکے وفاقی علاقہ قرار دیا تھا۔ چین نے اس اقدام کی شدید مذمت کی تھی اور اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story