بجٹ اور پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں

حالیہ بجٹ میں حکومت نے چند اہم ملکی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا بہترین فیصلہ کیا ہے


بجٹ میں بہت سی خرابیاں بھی موجود ہیں۔ (فوٹو: فائل)

KARACHI: وہ پرانا دور تھا جب جنگیں اسلحہ کے زور پر لڑی جاتی تھیں۔ اب زمانہ بدل گیا ہے اور اس زمانے کے رجحانات بھی بدل گئے ہیں۔ اب صرف طاقتور ممالک کمزور ممالک کو ہی اسلحہ کے زور پر دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیوں کہ وہ بھی خوب جانتے ہیں کہ اس دور میں جس قسم کا اسلحہ موجود ہے اس کے استعمال سے دونوں طرف وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے اس دور میں اسلحے کے جنگ کے بجائے معاشی جنگ لڑی جارہی ہے۔

تمام ترقی یافتہ ممالک ایک دوسرے کے خلاف معاشی محاذ کھولے ہوئے ہیں اور اس میدان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے درپے ہیں۔ اس معاشی ترقی کے دور میں دنیا کے تمام ممالک اپنی ترقی کےلیے معیشت کے شعبے میں نت نئے طریقے وضع کررہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ برآمدات سے زرمبادلہ کما کر دنیا میں اپنا مقام بنارہے ہیں۔ آج جو ملک معاشی لحاظ سے جتنا مضبوط ہوگا، دنیا میں اس کی اتنی ہی قدر کی جائے گی اور معاشی لحاظ سے کمزور ممالک کی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

وطن عزیز پاکستان معاشی لحاظ سے نہایت کمزور ملک ہے جس میں معاشی صورتحال دن بدن بگڑتی جارہی ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہوچکا ہے، جس نے غریب طبقے کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی چیخیں نکال دی ہیں۔ پاکستانی معیشت کی کمزوری کی بڑی وجہ تو ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافہ اور بے یقینی کی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری سے گھبراتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی مصنوعات پر غیر ملکی مصنوعات کو ترجیح دینا بھی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عوام غیر ملکی مصنوعات کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔

غیر ملکی مصنوعات استعمال کرنے والوں کے دو طبقات ہیں۔ ایک امیر افراد کا طبقہ جو غیر ملکی مصنوعات تفاخر کے طور پر استعمال کرتا ہے، یعنی غیرملکی مصنوعات کے بڑے بڑے برانڈز استعمال کرکے فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ غریب اور متوسط افراد کا ہے جو ایسی غیر ملکی مصنوعات استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے جو سستے داموں ملتی ہوں، مثلاً چائنہ کی اشیا جو ملکی مصنوعات کے مقابلے میں کافی کم قیمت پر وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔

وہ طبقہ جو صرف تفاخر کے طور پر غیر ملکی مصنوعات استعمال کرتا ہے اس کا تو حکومت کے پاس کوئی خاطر خواہ علاج نہیں ہے، لیکن دوسرا طبقہ جو آمدن میں کمی کی وجہ سے کم قیمت غیر ملکی مصنوعات خریدنے پر مجبور ہے، اس کےلیے حکومت نے اس بجٹ میں کسی حد تک علاج فراہم کردیا ہے کہ چند ملکی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی ہے، جن میں آٹو رکشہ، موٹرسائیکل رکشہ، دو سو سی سی تک موٹرسائیکلیں اور پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل فون شامل ہیں۔ یہ اشیا بہت زیادہ استعمال ہونے والی ہیں، خاص طور پر موٹرسائیکل اور موبائل فون تو تقریباً ہر فرد کی ضرورت ہے اور متوسط اور غریب طبقہ کے افراد زیادہ تر چائنہ کے سستے موبائل فون اور موٹرسائیکلوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے ان اشیا کی قیمتوں میں کمی کا ملکی معیشت کو بہت فائدہ ہوگا۔

بجٹ میں ویسے تو بہت سی خرابیاں بھی موجود تھیں، بالخصوص ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا قابل ذکر ہے۔ اس طبقے کی تنخواہوں میں اضافہ بہت ضروری ہوتا ہے، چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ یہ براہ راست حکومت کے ملازم ہوتے ہیں اور عام طور پر ان کا کوئی دوسرا ذریعہ آمدن نہیں ہوتا اور ان کی تنخواہیں بھی مقرر ہوتی ہیں، چاہے چوبیس گھنٹے بھی محنت کرلیں تب بھی وہی تنخواہ ملے گی جو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔ اس لیے ان کی تنخواہوں میں زیادہ نہیں تو معمولی اضافہ ہی کردیا جاتا تاکہ وہ خوش ہوجاتے اور بخوشی سرکاری کام سرانجام دیتے رہتے۔

بہرحال ہم ملکی مصنوعات کے بارے میں گفتگو کررہے تھے، تو حالیہ بجٹ میں چند اہم ملکی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا حکومت نے ایک بہترین فیصلہ کیا ہے۔ مگر حکومت کے علاوہ عوام پر بھی کچھ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ ملکی مصنوعات کو ترجیح دیں اور بے مقصد تفاخر کے بجائے اپنے ملک کی ترقی کا خیال رکھیں۔ جہاں تک ہوسکے ہم ملکی مصنوعات کے استعمال کی عادت اپنائیں اور غیر ملکی مصنوعات کا استعمال ترک کردیں۔ اس سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا اور مقامی طور پر صنعتیں بحال ہوں گی۔ جس سے درآمدات میں کمی واقع ہوگی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اس سے معیشت کی بحالی میں بہت مدد ملے گی۔

جب مقامی لوگ ملکی مصنوعات کا استعمال ترک کردیتے ہیں اور ان کے مقابلے میں غیر ملکی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں تو ملکی صنعتیں بند ہوجاتی ہیں، جو درآمدات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ہم غیر ملکی اشیا بڑے فخر سے استعمال کرتے ہیں لیکن نتیجتاً جب ملکی معاشی صورتحال خراب ہوجاتی ہے تو ہم حکومت کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ ہمیں ملکی مصنوعات کے استعمال پر فخر کرنا چاہیے اور جہاں تک ہوسکے ملکی مصنوعات ہی استعمال کرنی چاہئیں۔

اس کے علاوہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ملکی مصنوعات کا معیار بہتر بنانے کےلیے قانون مرتب کرے اور عوام میں شعور اجاگر کرے کہ ملکی مصنوعات کے استعمال کے کیا فوائد اور غیر ملکی مصنوعات کے استعمال کے کیا نقصانات ہیں؟ حکومت کبھی کبھار زبانی بیان بازی کی حد تک تو ملکی مصنوعات کے استعمال کا ذکر کرتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ حکومت غیر قانونی طور پر ملکی اشیا کی برآمد اور غیر ملکی اشیا کی درآمد پر بھی کڑی نظر رکھے۔ ہمارے ہاں اسمگلنگ بہت زیادہ ہورہی ہے جس سے ہمارے ملک کی مصنوعات گمنام ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی مصنوعات کی غیر قانونی درآمد سے وہ اشیا سستے داموں مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں جبکہ ملکی مصنوعات ٹیکسز کی ادائیگی کی بنا پر مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔ لہٰذا عوام قیمت میں کمی کی وجہ سے غیر ملکی اشیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس سے ملکی صنعت کا پہیہ جام ہوجاتا ہے۔

لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ملکی مصنوعات کا معیار بہتر بنانے کے علاوہ عوام تک ان کی رسائی کو آسان بنائے اور ملکی صنعت کاروں اور کارخانہ داروں پر کم سے کم ٹیکس لگائے تاکہ وہ باآسانی سستی اور معیاری مصنوعات تیار کرسکیں۔ عوام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے وطن کی ترقی کی خاطر غیر ملکی اشیا کی خریداری ترک کرکے ملکی مصنوعات، اگرچہ ان کا معیار کچھ کم ہی ہو، خریدیں تاکہ ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہو اور ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں