میرے پاس بجٹ ہے

بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا گیا ہے اور عوام کو ہی معلوم نہیں؟


بجٹ کا ریلیف عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک دوست نے سوال کیا کہ ہماری بھی کیا قسمت ہے۔ پیدا ہوئے تو گھر میں بھوک دیکھی، کچھ بڑے ہوئے تو نیلے پیلے اسکول دیکھے" جہاں تعلیم کے نام پر تماشا ہوتا ہے۔ کچھ اور بڑے ہوئے تو روزگار کے چکر میں لگ گئے۔ اور اسی پریشانی، غربت اور تنگی میں شادی ہوگئی۔ آج بچے ہوگئے ہیں مگر حالات ہیں کہ سنورنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ بیمار ہوجائیں تو پیناڈول ہی تمام بیماریوں کا ایک واحد علاج رہ جاتا ہے۔ سرکاری اسپتال میں دوائیں نہیں ملتیں، سرکاری اسکولز میں تعلیم نہیں ملتی، سرکاری اداروں سے ریلیف نہیں ملتا۔ کاش ہماری قسمت میں بھی کوئی سرکاری نوکری ہی ہوتی تو کم از کم گھر میں دو وقت کی روٹی تو سکون سے ملتی۔ لاک ڈاؤن نے روزگار تو چھین ہی لیا، اب مالک مکان چھت چھیننے کی باتیں کررہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ دل چاہتا ہے خودکشی کرلوں یا بیوی بچوں کو لے کر کسی ٹرین کے نیچے لیٹ جاؤں۔ اب بچوں کی خواہشوں کا مزید گلا نہیں گھونٹ سکتا۔

اس کی باتیں سن کر میں بہت پریشان ہوگیا اور دلاسے کے سوا میرے پاس کچھ بھی تو نہیں تھا جو میں اسے دیتا۔ باتیں اس کی سو فیصد درست ہیں۔ ہمیں تعلیم میسر ہے اور نہ ہی علاج معالجے کی کوئی سہولت سرکار نے دی ہے۔ روزگار کے نام پر بھی ملک میں عرصے سے تماشا لگا ہوا ہے۔ تعلیم کا معیار گرانے کے بعد اسے مہنگا تو کرہی دیا ہے، مگر اس تعلیم کے حصول کےلیے بھی کئی نوجوانوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑتا ہے، تب کہیں جاکر ان کے چھوٹے بہن بھائی اس قابل بن سکتے ہیں کہ معاشرے میں دو وقت کی روٹی عزت سے کما سکیں۔

گزشتہ دنوں بجٹ پیش کیا گیا۔ تعلیم کی مد میں جو بجٹ رکھا گیا وہ واقعی قوم سے بہت بڑا مذاق ہے، جب کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔ نہیں معلوم کہ دفاع ضروری ہے کہ رزق؟ مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ دفاع کا بجٹ اس لیے بھی بڑھایا گیا کہ ملک میں پھیلی انارکی کو روکنے کےلیے ان ہی لوگوں نے آگے آنا ہے اور جمہوری بچوں کو محفوظ کرنا ہے۔

سرکاری اسپتال میں جب کبھی بھی جانا ہوا تو وہاں ایک ہی چیز دیکھنے میں آئی کہ دوا ہمیشہ باہر اسٹور سے خریدنی پڑی۔ معمولی سے معمولی انجکشن کےلیے بھی مریض کے ساتھ آنے والے بار بار میڈیکل اسٹور کے چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ اسپتال کے قریب موجود میڈیکل اسٹورز دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ ایک، ایک اسٹور کا کرایہ لاکھوں روپے ہے اور وہ اسے باآسانی ادا کررہے ہیں، تو مطلب ان کا کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ ورنہ چالیس گز کی دکان کا کرایہ کوئی پچاس ہزار، ایک لاکھ روپے کس طرح ادا کرسکتا ہے؟ یہ باتیں حکومتوں کے سمجھنے کی نہیں، اور نہ ہی کسی متعلقہ اداروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح اتنا کرایہ ادا کررہا ہے۔ سرکاری اسپتال جانے سے پہلے ہر شخص اپنے حلقے میں ایسا فرد تلاش کرتا ہے جس کی تھوڑی بہت بھی پہچان ان اسپتالوں میں ہو۔ جس کی کوئی جان پہچان نہیں وہ بے چارہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے ادویہ کی مد میں دیا جانے والا بجٹ دو ماہ میں ختم ہوجاتا ہے اور یہ بجٹ کہاں کہاں اور کس کس کی جیب میں جاتا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں۔ لیکن یہاں ان اداروں کے لب بھی خاموش ہیں، جو افسوس ناک ہے۔

سرکاری اسپتالوں کی طرح سرکاری اسکولوں کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ ساڑھے چار ارب کے لگ بھگ بجٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کےلیے رکھا گیا ہے۔ اس قلیل بجٹ سے ان ملازمین کو سالہا سال تنخواہ ادا کی جاتی رہے گی اور یہ مفت میں عوام کے پیسوں سے اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے۔ حکومت اگر تعلیم سے مخلص ہے اور حکمران چاہتے ہیں کہ ملک کا بچہ بچہ تعلیم حاصل کرے تو انہیں یہ ڈھونگ ختم کرکے تمام سرکاری اسکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنا ہوگا۔ اس سے کئی فائدے حاصل ہوں گے۔ سب سے پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ پرائیوٹ اسکول میں پڑھنے والا بچہ بھی اس اسکول کا رخ کرے گا تو دوسری طرف سرکاری ملازمین کو مفت کی بھاری سیلری کا بھی خاتمہ ہوگا۔ اس پیسے بے روزگار نوجوانوں کے لیے چھوٹے چھوٹے پیمانے پر ملیں، کارخانے تعمیر کیے جاسکتے ہیں، جہاں سے وہ باآسانی روزگارحاصل کرکے اپنے کنبے کا پیٹ پال سکتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کا خاتمہ کرکے ایک وزیر اور ڈھیروں مشیروں کی تنخواہیں بھی بچائی جاسکتی ہیں۔ اسکولوں کی عمارت بھی کام میں آجائے گی اور سرکاری دفاتر کرائے پر دے کر ان سے ماہانہ کرایہ بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اس ملک میں کسی کو تعلیم کی ضرورت نہیں، اس لیے بجٹ میں عوام کی جیب کاٹ کر پیسہ مختص کرنا سراسر زیادتی ہے۔

ایک وزیر کی باتیں سنیں، جو کہہ رہے تھے کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔ سن کر حیرت ہوئی کہ عوام کو ریلیف دیا گیا ہے اور عوام کو ہی معلوم نہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر کوئی مجھے ایک روپیہ دے اور مجھے معلوم ہی نہ ہو کہ اس نے مجھے ایک روپیہ دیا ہے؟ ان کے پاس بجٹ ہے، یہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ عوام کو ریلیف کے نام پر جو کچھ دیا جاتا ہے وہ بھی دیکھ لیجیے۔ آٹا بجٹ سے پہلے مہنگا ہوگیا۔ اب واپس دس روپے کمی کرکے عوام کو بیچا جائے گا۔ یہ ریلیف ملا ہے۔ چینی مہنگی کردی گئی۔ اب پانچ روپے کمی کرکے ہمیں واپس دے دی جائے گی۔ یہ ریلیف ملا ہے۔ اسی طرح اشیائے خورونوش پر پہلے ہی مہنگائی کا بم گرایا جاتا ہے اور بجٹ کے بعد اسے واپس دو روپے کمی کے ساتھ عوام کو تھما کر کہتے ہیں ریلیف دیا ہے۔ یہ ریلیف نہیں دھوکا ہے جو ہم برسوں سے کھاتے آرہے ہیں اور نہ جانے کب تک یہ دھوکا کھانا ہمارے مقدر میں لکھا ہے۔

اس ملک کا قانون بھی عجیب ہے۔ حکومت بنانے کےلیے ووٹنگ سسٹم تو رائج ہے، مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر کوئی حکمران عوام کی امید پر پورا نہیں اترتا تو اسے واپس اس کی اوقات کیسے دکھائی جائے۔ دراصل اسے ہی جمہوریت کہتے ہیں جس میں ہر چیز بکاؤ ہوجائے، ہر چیز بکتی ہو، جہاں نہ ایمان کی کوئی قدروقیمت ہو اور ایمانداری کی کوئی لاج رکھی جاتی ہو۔ جمہوریت اصل میں بے ایمانوں کی جماعت ہے جس میں ہر سیاستدان ایک دوسرے کے سامنے ننگا ہے اور اس حمام میں کوئی کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیوں کہ اگر کسی ایک نے کسی دوسرے کے راز افشا کیے تو پھر اس کے رازوں سے بھی پردہ اٹھنے کا ڈر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس جمہوری حمام میں چپ چاپ ننگے ہوکر نہاتے جاؤ اور اپنا اپنا حصہ کما کر سائیڈ پکڑتے جاؤ۔ اسی کو جمہوریت کہتے ہیں، جہاں غریب کےلیے کوئی پلان نہیں، جہاں غریب کے روزگار پر کوئی دھیان نہیں۔ تمام سرکاری مشینری امرا کےلیے رکھی گئی ہے۔ یہاں اگر غریب کے گھر کوئی چوری ہوجائے تو اول پولیس مقدمہ ہی درج نہیں کرتی اور یہ کہہ کر غریب کو بھگا دیا جاتا ہے کہ یار 500 روپے کےلیے کیوں کاغذ ضائع کرتے ہو۔ اور اگر امیر کے گھر سے کوئی کتا بھی غائب ہوجائے تو پوری سرکاری مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ جمہوریت کے نام پر بنایا گیا قانون صرف غریب کےلیے نافذالعمل ہے، اشرفیہ اس سے آزاد ہیں۔

جب سے ہوش سنبھالا تب سے سرکاری ملازمین کو ہی پرسکون زندگی جیتے دیکھتے آیا ہوں۔ ہر سال تنخواہ میں اضافہ انہیں کی قسمت میں اور ریٹائرمنٹ پر لاکھوں روپے بھی انہیں کےلیے۔ اس کے بعد زندگی بھر کےلیے پنشن۔ خود مرگیا تو بیوی، بیوی مرگئی تو بچے اس کی پنشن پر مزے کرتے رہیں گے۔ دوسری طرف ان سرکاری اداروں اور سرکاری ملازمین کی قابلیت دیکھ کر بھی حیرت ہوتی ہے کہ ایک پڑھا لکھا نوجوان تو دردر کی ٹھوکریں کھاتا ہے مگر یہ اَن پڑھ یا کم تعلیم ہونے کے باوجود باپ کی سفارش اور کوٹے پر سرکاری ملازمت اختیار کرلیتے ہیں۔ کام کرو یا نہ کرو، مہینے کے شروع میں تنخواہ خود دروازے پر چل کر آتی ہے۔ یہ تنخواہ انہیں کتنے غریبوں کی خودکشیوں کے بعد ملتی ہے انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں، بس اپنے گھر کا چولہا جلنا چاہیے۔

آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اگر تمہارے پاس بجٹ ہے اور سرکاری نوکری ہے تو کیا ہوا، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جو کسی کو پڑتی ہے تو وہ آواز تک نہیں نکالتا۔ ہمارے نام پر اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ بند ہوا تو وہ وقت اب دور نہیں جب یہ لوگ آپ کے گریبانوں تک پہنچیں گے۔ غریب کو روزگار کی ضرورت ہے اور اگر اس کے بچے بھوک سے مر رہے ہوں گے تو وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گا۔ پھر کہیں ایسا نہ ہو اس کے اس اقدام کا شکار آپ ہوجائیں۔ لہٰذا جتنے بھی جمہوریت پسند لوگ ہیں ان سے گزارش ہے کہ عوام کے ساتھ اپنی یہ ڈرامے بازیاں بند کریں اور انہیں مکمل ریلیف دیں۔ اور ریلیف دینے کے بعد چیک اینڈ بیلنس بھی رکھیں تاکہ آپ کی چھتری میں بیٹھا کوئی شخص غریب کے حق پر ڈاکا نہ ڈال سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔