برُی عادت
ہمیں شک ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو ’’دہراتی‘‘ نہیں رہی بلکہ لیڈر اپنے آپ کو دہراتے رہے ہیں
یہ تو ہم نہیں جانتے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یانہیں لیکن اتنا جاتے ہیں کہ''تاریخیں'' دو اقسام کی ہوتی ہیں، ایک وہ جس کے بارے میں ویول نے کہاہے کہ یہ تاریخ تو ہر مہینے اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ 29فروی کے علاوہ جو چار سال بعد خود کو دہراتی ہے، اس تاریخ کی ایک الگ ہی بلیک اینڈ وائٹ دنیاہے جس میں بلیک کو وائٹ اور وائٹ کو بلیک کرنے کا کام وسیع پیمانے پر ہوتاہے۔
اس دنیا میں تاریخ خود کو دہراتی ہی نہیں بلکہ خود کو ہرکسی کے سر پر یا جیب پر مارتی بھی رہتی ہے، اس دنیا میں تاریخ ہی کا دیا کھایا جاتاہے، پیا جاتاہے، اوڑھا پہنا جاتاہے اور دھویا نچوڑا بھی جاتاہے کہ بلیک کو وائٹ اور وائٹ کو بلیک کرنے کے لیے دھونا اور نچوڑنا ضروری ہوتا ہے۔لیکن وہ دوسری جو ''تاریخ''ہے جو پاکستان میں ستر سال سے شروع ہے اور ابھی تک شروع ہے اور انشا اللہ ''شروع''ہی رہے گی۔
اس تاریخ کو پہلے تاریخ یا ہسٹری کہاجاتاتھا، پھر ''تاریخ جغرافیہ''کر دی گئی، اس کے بعد جنرل نالج ہوگئی، پھر معاشرتی علوم اور آج کل اس کا تخلص مطالعہ پاکستان ہے۔اس تاریخ میں بھی جو پاکستان میں ابھی شروع ہوئی ہے کہاجاتاہے کہ اپنے آپ کو دہراتی ہے حالانکہ اس کے بارے میں بھی ہمیں شک ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو''دہرا''نہیں رہی ہے بلکہ لیڈر اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں اور ایک سالک نے تویہاں تک کہاہے ع
جھوٹ ہے سب کچھ کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا تو میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
لیکن کہانیوں کے بارے میں ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں اور تمام گیتاوں، سیتاوں، کریناوں، کتریناوں اور چوپڑاوں، دیپکاوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاسکتے ہیں کہ کہانیاں خود کو دہراتی رہتی ہیں، مطلب کہ صرف اداکار بدل جاتے ہیں، نام ومقام بھی بدل جاتے ہیں لیکن مرکزی خیال یا تھیم یا پلاٹ وہی ہوتاہے جو کہیں بہت پرانے زمانوں میں لکھا گیاہے۔مثال کے طور پر آج جو کہانی آپ کو سنانا چاہتے ہیں، یہ اتنی پرانی ہے اور ہر ہر مقام پر اتنی بار دیرائی گئی ہے کہ کہانیوں کی نانی بھی اسے نانی کہتی ہے۔
اس کہانی کا مین کیرکٹر ایک ایسا شخص ہے یا ملک ہے یا کچھ اور ہے۔جوہر ہر لحاظ سے''نکھٹو''ہی نہیں نکھٹو کا پٹھا بھی ہے۔جب سارے دوست اور عزیز اس سے تنگ آگئے تو سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مفت خورے نکھٹو کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ اس کی شادی کردی جائے، جب اپنے گھر بار کا ہوجائے گا تو ہمارا پیچھا چھوٹ جائے گا۔ بیچاروں کو رحمان بابا کے اس قول کا پتہ نہیں تھا کہ علت چھوٹ جاتی ہے لیکن عادت کبھی نہیں چھوٹتی۔ افیم، چرس، شراب بھنگ یہاں تک کہ ہیروئن کا نشہ چھوٹ جائے گا لیکن مفت خوری کی عادت بہت برُی بلا ہے''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی''۔
چنانچہ اس نکھٹو اور مفت خورہ اعظم پر بھی یہ نسخہ کارگر ثابت نہیں ہوا، یہاں پر ہمیں اچانک خیال آیاہے کہ آپ کو کہانیاں کسی نہ کسی پر چسپاں کرنے کی عادت پڑی ہے لیکن پلیز اس کہانی کو ''کسی''پر چپکانے کی کوشش مت کیجیے گا، چاہے کتنی ہی مماثلت کیوں نظر نہ آئے۔چنانچہ اس شخص کی عادت بھی بدستور برقراررہی ۔آخرکار ایک دن بیوی نے تنگ آکر کہا کہ اب تو کوئی ایسا عزیز رشتہ دار بھی نہیں بچاہے جس سے ہم نے بار بار کچھ مانگا نہ ہو ،آخر اس کشکول کو ہم کب تک یہاں وہاں پھرائیں گے ، شرم بھی کوئی چیز ہے حیا بھی کچھ چیز ہے ،کچھ سوچو کچھ فکر کرو کوئی تدبیر یااپائے ڈھونڈو۔بیوی تو یہ کہہ کر چلی گئی اور یہ جناب اپنی ڈھیلی چار پائی میں غروب ہوگیا جو اس کے غور کا حوض بھی تھا۔پھر تھوڑی دیر بعد نعرہ لگایا، سوچ لیا، سوچ لیا، آئی گاٹ اٹ ،آئی گاٹ اٹ۔ بیوی خوش ہوکر قریب بولی،کیا؟ بولا ، میں نے سوچ لیاہے کہ فلاں گاؤں میں تمہاری ایک خالہ رہتی ہے اور فلاں محلے میں تمہاری ایک پھوپی بھی ہے۔
بیوی نے کہا، ہاں ہیں تو۔ اس پر شوہر نے کہا کہ کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ ہمیں کچھ دیں اور کیا ہمارا یہ حق نہیں ہے کہ ان سے کچھ مانگیں۔ابھی برقعہ اٹھاؤ اور کام پہ لگ جاؤ۔ یہ تو پتہ نہیں کہ بیوی نے اپنا سر پیٹنا شروع کیا یا اس ذہین وفطین مفت خورے شوہر کا یا دونوں سر ایک ساتھ پیٹنے لگی۔لیکن کہانی کو آپ غور سے پڑھیں اور سمجھیں۔ کہ یہ کہانی کتنی بار کہاں کہاں اور کیسے کیسے دہرائی گئی ہوگی، دہرائی جاتی ہے اور دہرائی جائے گی۔بس اب کہانیاں ختم اور خبریں شروع۔ وزیراعظم آف ریاست مدینہ نے ایک مرتبہ پھر اپنا یہ قول زریں دہرایاہے کہ مالدار ملکوں کو ''ترقی پزیر'' ممالک کی مدد کرنی چاہیے۔
لیکن اس مرتبہ اس میں تھوڑی سی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ بلکہ اضافہ کہیے کہ ان کے اس زریں خیال کی تائید ایتھوپیا اور کسی دوسرے ملک نے بھی کی ہے۔ویسے ہمیں اچانک ایک خیال آیا ہے کہ اگر کوئی آپ کے دروازے پر دستک دے اور آپ باہر نکل کر دیکھیں کہ ایک بھکاری ہاتھ میں کشکول لیے کھڑا ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں کلاشن کوف ہے، کمر کے ساتھ پستول بھی ہے اور پیٹی میں دو چار ایٹم بم بھی لٹکائے ہوئے ہیں تو آپ کو کیسا لگے گا ، جب وہ بھکاری مونچھوں کو تاؤ دے دے کر کہہ رہاہو، اﷲ کے نام پر بابا۔تیرے بچے جئیں، بیوی کی عمر دراز ہو۔
اس دنیا میں تاریخ خود کو دہراتی ہی نہیں بلکہ خود کو ہرکسی کے سر پر یا جیب پر مارتی بھی رہتی ہے، اس دنیا میں تاریخ ہی کا دیا کھایا جاتاہے، پیا جاتاہے، اوڑھا پہنا جاتاہے اور دھویا نچوڑا بھی جاتاہے کہ بلیک کو وائٹ اور وائٹ کو بلیک کرنے کے لیے دھونا اور نچوڑنا ضروری ہوتا ہے۔لیکن وہ دوسری جو ''تاریخ''ہے جو پاکستان میں ستر سال سے شروع ہے اور ابھی تک شروع ہے اور انشا اللہ ''شروع''ہی رہے گی۔
اس تاریخ کو پہلے تاریخ یا ہسٹری کہاجاتاتھا، پھر ''تاریخ جغرافیہ''کر دی گئی، اس کے بعد جنرل نالج ہوگئی، پھر معاشرتی علوم اور آج کل اس کا تخلص مطالعہ پاکستان ہے۔اس تاریخ میں بھی جو پاکستان میں ابھی شروع ہوئی ہے کہاجاتاہے کہ اپنے آپ کو دہراتی ہے حالانکہ اس کے بارے میں بھی ہمیں شک ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو''دہرا''نہیں رہی ہے بلکہ لیڈر اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں اور ایک سالک نے تویہاں تک کہاہے ع
جھوٹ ہے سب کچھ کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا تو میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
لیکن کہانیوں کے بارے میں ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں اور تمام گیتاوں، سیتاوں، کریناوں، کتریناوں اور چوپڑاوں، دیپکاوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاسکتے ہیں کہ کہانیاں خود کو دہراتی رہتی ہیں، مطلب کہ صرف اداکار بدل جاتے ہیں، نام ومقام بھی بدل جاتے ہیں لیکن مرکزی خیال یا تھیم یا پلاٹ وہی ہوتاہے جو کہیں بہت پرانے زمانوں میں لکھا گیاہے۔مثال کے طور پر آج جو کہانی آپ کو سنانا چاہتے ہیں، یہ اتنی پرانی ہے اور ہر ہر مقام پر اتنی بار دیرائی گئی ہے کہ کہانیوں کی نانی بھی اسے نانی کہتی ہے۔
اس کہانی کا مین کیرکٹر ایک ایسا شخص ہے یا ملک ہے یا کچھ اور ہے۔جوہر ہر لحاظ سے''نکھٹو''ہی نہیں نکھٹو کا پٹھا بھی ہے۔جب سارے دوست اور عزیز اس سے تنگ آگئے تو سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مفت خورے نکھٹو کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ اس کی شادی کردی جائے، جب اپنے گھر بار کا ہوجائے گا تو ہمارا پیچھا چھوٹ جائے گا۔ بیچاروں کو رحمان بابا کے اس قول کا پتہ نہیں تھا کہ علت چھوٹ جاتی ہے لیکن عادت کبھی نہیں چھوٹتی۔ افیم، چرس، شراب بھنگ یہاں تک کہ ہیروئن کا نشہ چھوٹ جائے گا لیکن مفت خوری کی عادت بہت برُی بلا ہے''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی''۔
چنانچہ اس نکھٹو اور مفت خورہ اعظم پر بھی یہ نسخہ کارگر ثابت نہیں ہوا، یہاں پر ہمیں اچانک خیال آیاہے کہ آپ کو کہانیاں کسی نہ کسی پر چسپاں کرنے کی عادت پڑی ہے لیکن پلیز اس کہانی کو ''کسی''پر چپکانے کی کوشش مت کیجیے گا، چاہے کتنی ہی مماثلت کیوں نظر نہ آئے۔چنانچہ اس شخص کی عادت بھی بدستور برقراررہی ۔آخرکار ایک دن بیوی نے تنگ آکر کہا کہ اب تو کوئی ایسا عزیز رشتہ دار بھی نہیں بچاہے جس سے ہم نے بار بار کچھ مانگا نہ ہو ،آخر اس کشکول کو ہم کب تک یہاں وہاں پھرائیں گے ، شرم بھی کوئی چیز ہے حیا بھی کچھ چیز ہے ،کچھ سوچو کچھ فکر کرو کوئی تدبیر یااپائے ڈھونڈو۔بیوی تو یہ کہہ کر چلی گئی اور یہ جناب اپنی ڈھیلی چار پائی میں غروب ہوگیا جو اس کے غور کا حوض بھی تھا۔پھر تھوڑی دیر بعد نعرہ لگایا، سوچ لیا، سوچ لیا، آئی گاٹ اٹ ،آئی گاٹ اٹ۔ بیوی خوش ہوکر قریب بولی،کیا؟ بولا ، میں نے سوچ لیاہے کہ فلاں گاؤں میں تمہاری ایک خالہ رہتی ہے اور فلاں محلے میں تمہاری ایک پھوپی بھی ہے۔
بیوی نے کہا، ہاں ہیں تو۔ اس پر شوہر نے کہا کہ کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ ہمیں کچھ دیں اور کیا ہمارا یہ حق نہیں ہے کہ ان سے کچھ مانگیں۔ابھی برقعہ اٹھاؤ اور کام پہ لگ جاؤ۔ یہ تو پتہ نہیں کہ بیوی نے اپنا سر پیٹنا شروع کیا یا اس ذہین وفطین مفت خورے شوہر کا یا دونوں سر ایک ساتھ پیٹنے لگی۔لیکن کہانی کو آپ غور سے پڑھیں اور سمجھیں۔ کہ یہ کہانی کتنی بار کہاں کہاں اور کیسے کیسے دہرائی گئی ہوگی، دہرائی جاتی ہے اور دہرائی جائے گی۔بس اب کہانیاں ختم اور خبریں شروع۔ وزیراعظم آف ریاست مدینہ نے ایک مرتبہ پھر اپنا یہ قول زریں دہرایاہے کہ مالدار ملکوں کو ''ترقی پزیر'' ممالک کی مدد کرنی چاہیے۔
لیکن اس مرتبہ اس میں تھوڑی سی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ بلکہ اضافہ کہیے کہ ان کے اس زریں خیال کی تائید ایتھوپیا اور کسی دوسرے ملک نے بھی کی ہے۔ویسے ہمیں اچانک ایک خیال آیا ہے کہ اگر کوئی آپ کے دروازے پر دستک دے اور آپ باہر نکل کر دیکھیں کہ ایک بھکاری ہاتھ میں کشکول لیے کھڑا ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں کلاشن کوف ہے، کمر کے ساتھ پستول بھی ہے اور پیٹی میں دو چار ایٹم بم بھی لٹکائے ہوئے ہیں تو آپ کو کیسا لگے گا ، جب وہ بھکاری مونچھوں کو تاؤ دے دے کر کہہ رہاہو، اﷲ کے نام پر بابا۔تیرے بچے جئیں، بیوی کی عمر دراز ہو۔