حکومت کی ناقص پالیسی
کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں پاکستان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔
پاکستان کو ایک نیا اعزاز حاصل ہوا۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں پاکستان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ پاکستان اس مرض کے پھیلاؤ کی فہرست میں پہلے تین ممالک میںشامل نہ ہوجائے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے حکومت پنجاب کو ایک ایڈوائزری بھیجی ہے۔
اس ایڈوائزری میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں روزانہ کورونا وائرس کا پتہ چلانے کے لیے کم از کم 50 ہزار افراد کے ٹیسٹ ہونے چاہئیں۔ عالمی ادرہ صحت نے چاروں صوبوں کی حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ پورے ملک میں مہینہ میں دو ہفتہ مکمل لاک ڈاؤن ہونا چاہیے۔ ڈبلیو ایچ اوکا کہنا ہے کہ ملک کا کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کا تناسب 24 فیصد سے زیادہ ہوگیا ہے۔
ڈبلیو ایچ اوکے معیار کے مطابق یہ تناسب 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ڈبلیو ایچ اوکے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے لاک ڈاؤن ختم کرنے کے فیصلے کی بنیاد پرکورونا وائرس پھیل گیا۔ ان ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ حکومت دوبارہ مہینے میں دو دفعہ لاک ڈاؤن اور Social Distancing کے فارمولے کو سختی سے نافذکرے۔
کورونا وائرس پاکستان پہنچنے پرکچھ عجیب سی تاریخ رونما ہوئی۔ اس سال کے شروع میں کورونا نے چین کے شہر ووہان پر حملہ کیا۔ Infection Disease کے ماہرین نے مشورہ دیا کہ ووہان کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔ چین کے حکام نے ووہان میں لاک ڈاؤن کیا۔اس شہر میں سیکڑوں پاکستانی طلبہ مقیم ہیں، یہ طلبہ اپنے ہاسٹل میں محصور ہوگئے۔ ان طلبہ کی مخدوش صورتحال کی وڈیوسوشل میڈیا پرگردش کرنے لگی۔
ان طلبہ کے والدین نے مطالبہ کیا کہ طلبہ کو واپس لانے کے لیے خصوصی پروازیں چلائی جائیں۔ وزیر اعظم نے صحت کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا نے مؤقف اختیارکیا کہ طلبہ چین میں زیادہ محفوظ ہیں۔ والدین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے حکومت کے مؤقف سے اتفاق کیا مگر جب ایران کے شہر مشہد میں کورونا حملہ آور ہوا تو یہ فروری کا مہینہ تھا۔ ہزاروں پاکستانی زائرین مقدس مقامات کی زیارت پر گئے تھے۔
حکومت نے ان زائرین پر توجہ نہیں دی، کئی ہزار افراد کو تفتان میں ایک عمارت میں نظربند کر دیا گیا، یوں جو لوگ ایران میں وائرس سے متاثر نہیں ہوئے تھے وہ بھی ہوگئے، پھر انھیں اپنے گھروں کو جانے کی اجازت مل گئی۔ صرف سندھ کی حکومت نے ان زائرین کے مختلف شہروں میں قرنطینہ سینٹر بنائے، باقی صوبوں نے توجہ نہیں دی۔ پنجاب کی حکومت نے لاہور میں ہونے والے تبلیغی اجتماع پر پابندی نہیں لگائی۔ اس تبلیغی اجتماع میں چھوٹی جماعتیں منظم ہوئیں جو ملک کے مختلف علاقوں میں گئیں۔
وفاقی حکومت نے ہوائی اڈوں پر باہر سے آنے والے مسافروں کو قرنطینہ سینٹروں میں منتقل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ مارچ کے آخری ہفتہ میں کورونا پاکستان سمیت دنیا بھر میں تباہی کا آغاز کرچکا تھا۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے یہ ہدایات جار ی کی تھیں کہ وائرس کی ویکسین تک ایجاد نہیں ہوئی ہے، اس بناء پرلاک ڈاؤن سماجی فاصلہ ، ماسک ، دستانے اور ہاتھوں کو مسلسل جراثیم سے پاک کرنے کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔ سندھ کی حکومت نے فوری طور پر لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا۔
وفاقی حکومت اور باقی صوبوں نے فیصلہ میں دیرکردی مگر جب پنجاب، خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں وائرس سے متاثرہ افرادکی تعداد بڑھنے لگی تو پھر وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن کی حمایت کی تو اسلام آباد میں کنٹرول کمانڈ سینٹر قائم ہوا۔ وزیر اعظم کی صدارت میں روز اجلاس ہونے لگا اور مشترکہ فیصلے ہونے لگے۔
اچانک وزیر اعظم عمران خان کی ڈاکٹرائن سامنے آئی۔ انھوں نے اپنی تقاریر میں لاک ڈاؤن کی مخالفت کرنا شروع کردی۔ انھوں نے یہ تاریخی بیان دیا کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ کے مفادات کے لیے ہے۔ غریب لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے وزیر اعظم کا بیان کورس میں گانا شروع کیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ کورونا وائرس ایک فلو ہے جو وقت پر ختم ہو جاتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا کے فنڈ ریزنگ کے ایک پروگرام میں شرکت کی جس میں ایک عالم دین نے فرمایا کہ فحاشی، عریانی اور خواتین کی بے پردگی کی بناء پر یہ عذا ب آیا ہے۔ جب سندھ حکومت نے مساجد میں نماز کے اجتماعات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا تو سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کراچی کے گورنر ہاؤس میں یہ کہہ دیا کہ وہ سندھ حکومت کے اس فیصلہ کو غلط سمجھتے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں وائرس کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کر رہی تھیں اور حکومت کے سربراہ لاک ڈاؤن کو اشرافیہ کی سازش قرار دیتے رہے۔ اس تضاد نے رجعت پسندوں کو موقع دیا کہ وہ سوشل میڈیا پر ایسا مواد نشرکریں جس میں کورونا کو امریکا اور یورپ کی سازش قرار دیا جائے۔
اسی طرح کا بیانیہ عام ہوا کہ حکومت کورونا وائرس کے مریض ظاہرکرکے عالمی اداروں سے امداد وصول کر رہی ہے۔ ڈاکٹر زبردستی مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کوکورونا کا مریض ظاہر کرکے آئسولیشن وارڈ میں منتقل کرتے ہیں اور پھر وینٹی لیٹر پر لے جاتے ہیں اوریہ مریض واپس نہیں آتے۔
حکومت نے سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے اس مواد کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ پاکستان میں اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے والے ماہر ڈاکٹروں نے جوغیر سرکاری اسپتالوں میں خدمات انجام دیتے ہیں ایک پریس کانفرنس میں ڈاکٹروں کے اس مرض کا شکار ہونے پر خدشہ ظاہرکیا کہ اگرلاک ڈاؤن نہ ہوا تو ڈاکٹروں کی تعداد کم ہو جائے گی تو وزیر اعظم کے ایک مشیر شہبازگل نے ٹی وی شو میں کہا کہ یہ ڈاکٹر ترقی کے لیے یہ مؤقف پیش کررہے ہیں۔
میڈیا میں Herd Immunity کے نظریہ کی بازگشت سنائی دی گئی اور کچھ صحافیوں نے لکھا کہ حکومت Herd Immunity کے قرون وسطیٰ کے نظریہ پر عمل پیرا ہے۔ اس نظریہ کے تحت وائرس آبادی کے بیشتر حصہ کو متاثرکرتا ہے اور جب 70 فیصد آبادی وائرس سے متاثر ہوتی ہے تو وائرس کمزور ہوجاتا ہے، یوں اس نظریہ کے تحت 15 کروڑ لوگ وائرس سے متاثر ہونگے۔ ان میں سے جوکمزور بیمار ہونگے یا بوڑھے ہونگے وہ ہلاک ہو جائیں گے، یوں باقی آبادی بچ جائے گی۔
عدلیہ نے بھی ڈاکٹروں کے مشورہ کو نظرانداز کیا اور رمضان کے آخری عشرہ میں بازار کھل گئے۔ ایک بڑے تاجر نے ملک کی صورتحال کا یوں تجزیہ کیا کہ غریبوں نے خوب جی بھر کر خریداری کی کہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، یوں بھوک سے توکوئی نہیں مرا مگر کورونا سے مرنے والوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی۔
سائنسی انداز میں سوچنے والے باشعور لوگوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے کورونا کے مسئلہ کو سائنسی طور پر حل کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقاء نے کبھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ کورونا انسان کے ارتقاء کے نظریہ کے تحت چمگادڑ سے منتقل ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات کے کٹاؤ اور گلوبل وارمنگ کی بناء پر یہ وائرس بے قابو ہوا ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری واحد وزیر ہیں جنہوں نے بار بارکہا کہ کورونا خدا کا عذاب نہیں ہے۔ اس کا حل لاک ڈاؤن اور سماجی دوری میں ہے۔ جب وفاقی حکومت کے اکابرین نے یہ بیانیہ اپنایا تو سرکاری ذرائع ابلاغ نے بھی عوام کو سائنسی انداز میں سوچنے کے لیے بیانیہ مرتب نہیں کیا، یوں عوام ابھی تک اس بیماری کو سنجیدہ طور پر محسوس نہیں کرسکے۔ ایک ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ اگر مارچ کے تیسرے ہفتہ میں لاک ڈاؤن پر عمل شروع ہوجاتا تو اب تک یہ وائرس کنٹرول ہوچکا ہوتا۔ مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ کورونا نے جی ڈی پی کا 3 کھرب روپے کا نقصان کیا، اب تک پاکستان میں 37 کے قریب ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ کے اراکین اس لڑائی میں شہید ہوچکے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے ذمے داری عوام پر ڈال دی مگر وہ ڈبلیو ایچ اوکے مشورہ پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ جولائی کے اختتام تک 10 لاکھ افراد وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ وائرس اب ملک بھر میں پھیل چکا ہے۔ اگست تک کتنے لوگ اس کا شکار ہونگے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر مؤرخ یہ ضرور لکھے گا کہ یہ تباہی حکومت کی ناقص پالیسی کی بناء پر ہوئی۔