’ایکوا فائی‘ زیرِ آب انٹرنیٹ کا پہلا کامیاب تجربہ
لیزر اور روشنی کی شعاعوں کے ذریعے پانی کے اندر کام کرنے والا انٹرنیٹ زیرِ آب مواصلات میں انقلاب کی وجہ بنے گا
ایک بالکل نئی قسم کے وائرلیس انٹرنیٹ کا تجربہ پانی کے اندر کیا گیا ہے جسے پانی کے گہرائی میں رابطے کی نئی راہیں کھلیں گی۔
وائی فائی کی طرح اسے 'ایکوافائی' کا نام دیا گیا ہے جس کی بدولت غوطہ خوروں نے پانی کی گہرائی سے براہِ راست ویڈیو اور ڈیٹا کا تبادلہ کیا لیکن اس عمل میں ایل ای ڈیز اور لیزر کو استعمال کیا گیا تھا۔
یہ کام سعودی عرب میں شاہ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین نے کیا ہے جس کی تفصیلات آئی ای ای ای کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔ اس کے موجدین میں سے ایک، باصم شہادہ نے کہا کہ مکمل طور پر وائرلیس کے ذریعے پہلی مرتبہ پانی کے اندر انٹرنیٹ استعمال کیا گیا ہے۔
ایکوا فائی کے عمل میں ریڈیائی امواج غوطہ خور کے اسمارٹ فون تک بھیجی جاتی ہیں اور اس کی پشت سے رسبری پائی کمپیوٹر جڑا ہوتا ہے۔ اس طرح رسبری پائی ایک گیٹ وے کا کام کرتا ہے اور اسی کمپیوٹر سے روشنی کی ایک شعاع کی صورت میں ڈیٹا کو پانی کی سطح تک بھیجتا ہے۔ یہاں ایک آلہ سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ لے رہا ہوتا ہے جو عین وائی فائی بوسٹر کی طرح کام کرتا ہے۔
اگرچہ آواز اور ریڈیو سے بھی پانی کے اندر روابط رکھے جاسکتے ہیں لیکن ان کی اپنی اپنی حدود ہیں۔ روشنی پانی کے اندر بھی ڈیٹا کی بڑی تعداد کو بہت دور تک لےجاسکتی ہے۔ اسی بنا پر ایکوا فائی کے فوائد بھی ان گنت ہیں۔
اس عمل میں پانی کے اندر موجود شخص کے اسمارٹ فون سے ریڈیائی امواج، اس کی پشت پر لگے گیٹ وے کمپیوٹر تک جاتی ہیں۔ اب یہ ڈیٹا سبز ایل ای ڈی میں کی روشنی میں بدل جاتا ہے اور دور یعنی سطح پر موجود ایک اور ایسے کمپیوٹر تک جاتا ہے جس پر روشنی کی شناخت کرنے والا نظام نصب ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پہلا کمپیوٹر ہی ویڈیو اور تصاویر کو ایک اور صفر کی سیریز میں بدلتا ہے۔
ماہرین نے ایکوفائی سے تجرباتی طور پر 2 میگابائٹ فی سیکنڈ سے زائد ڈیٹا کا تبادلہ کیا ہے۔
وائی فائی کی طرح اسے 'ایکوافائی' کا نام دیا گیا ہے جس کی بدولت غوطہ خوروں نے پانی کی گہرائی سے براہِ راست ویڈیو اور ڈیٹا کا تبادلہ کیا لیکن اس عمل میں ایل ای ڈیز اور لیزر کو استعمال کیا گیا تھا۔
یہ کام سعودی عرب میں شاہ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین نے کیا ہے جس کی تفصیلات آئی ای ای ای کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔ اس کے موجدین میں سے ایک، باصم شہادہ نے کہا کہ مکمل طور پر وائرلیس کے ذریعے پہلی مرتبہ پانی کے اندر انٹرنیٹ استعمال کیا گیا ہے۔
ایکوا فائی کے عمل میں ریڈیائی امواج غوطہ خور کے اسمارٹ فون تک بھیجی جاتی ہیں اور اس کی پشت سے رسبری پائی کمپیوٹر جڑا ہوتا ہے۔ اس طرح رسبری پائی ایک گیٹ وے کا کام کرتا ہے اور اسی کمپیوٹر سے روشنی کی ایک شعاع کی صورت میں ڈیٹا کو پانی کی سطح تک بھیجتا ہے۔ یہاں ایک آلہ سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ لے رہا ہوتا ہے جو عین وائی فائی بوسٹر کی طرح کام کرتا ہے۔
اگرچہ آواز اور ریڈیو سے بھی پانی کے اندر روابط رکھے جاسکتے ہیں لیکن ان کی اپنی اپنی حدود ہیں۔ روشنی پانی کے اندر بھی ڈیٹا کی بڑی تعداد کو بہت دور تک لےجاسکتی ہے۔ اسی بنا پر ایکوا فائی کے فوائد بھی ان گنت ہیں۔
اس عمل میں پانی کے اندر موجود شخص کے اسمارٹ فون سے ریڈیائی امواج، اس کی پشت پر لگے گیٹ وے کمپیوٹر تک جاتی ہیں۔ اب یہ ڈیٹا سبز ایل ای ڈی میں کی روشنی میں بدل جاتا ہے اور دور یعنی سطح پر موجود ایک اور ایسے کمپیوٹر تک جاتا ہے جس پر روشنی کی شناخت کرنے والا نظام نصب ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پہلا کمپیوٹر ہی ویڈیو اور تصاویر کو ایک اور صفر کی سیریز میں بدلتا ہے۔
ماہرین نے ایکوفائی سے تجرباتی طور پر 2 میگابائٹ فی سیکنڈ سے زائد ڈیٹا کا تبادلہ کیا ہے۔