مودی کا غرور لداخ میں چکناچور

اتنے بڑے نقصان کے باوجود بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے


June 17, 2020
چین نے لداخ کے محاذ پر بھارت کو سبق سکھادیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

''گھر میں گھس کر ماریں گے'' یہ بھارتی فلموں کا مشہور ڈائیلاگ ہے۔ بھارتی یہ ڈائیلاگ پاکستان کےلیے استعمال کرتے آئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا کچھ کبھی بھی نہیں ہوا۔ جب بھی پاکستان میں گھسنے کی کوشش کی، مار ہی کھائی ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں چین، نیپال، سری لنکا، میانمار کے فوجیوں سے بھی درگت بنوائی ہے۔

ابھی تازہ صورتحال دیکھ لیجئے۔ چین اور بھارت میں سرحدی تنازعہ جنگی ماحول میں بدلتا نظر آرہا ہے۔ بھارتی فوج نے چینی بارڈر کی خلاف ورزی کی تو چینی فوج نے بھرپور جواب دیا اور بھارتی فوج کا بھاری جانی نقصان ہوا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 20 بھارتی فوجی مارے گئے۔ اتنے بڑے نقصان کے باوجود بھارتی حکومت، میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ مجال نہیں جنگ یا سرجیکل اسٹرائیک کا نام لیں۔ عجب انداز میں دھاڑنے والا مودی اس وقت خوف میں ہے۔

دنیا تو چیخ رہی تھی کہ مودی بھارت کو ڈبو دے گا۔ بھارتی تھے کہ اندھو ں کی طرح گہرے کنوئیں میں گرتے گئے۔ اب جاگے ہیں تو کہتے ہیں کہ ''گلتی''ہوگئی جی۔ جہاں مودی کی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں تو بھارت کی اندرونی حالت بھی قابل رحم ہے۔ اس وقت بھارت میں کورونا وائرس کے حوالے سے صورتحال خراب ہورہی ہے۔ روزانہ پانچ سے دس ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہورہے ہیں۔ اموات کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ روزانہ دو ہزار کے لگ بھگ مریض مر رہے ہیں۔ معاشی حالت یہ ہے کہ بلومبرگ کے مطابق 40سال میں پہلی مرتبہ بھارتی معیشت سکڑے گی لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوک اور بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے باعث حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ مہینے 12 کروڑ افراد کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھارتی کمپنیوں کی کارکردگی گزشتہ 10 سال کے مقابلے میں بدترین ہوگئی ہے۔

معاشی نقصان کے ساتھ دیگر بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ صرف بمبئی میں 20 سے 25 فیصد افراد دیگر بیماریوں سے مرے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ممبئی کے اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ گارڈین کے مطابق ایک فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 6 لاشیں کورونا مریضوں کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں۔ یہ بھارتی کوششوں کو بے نقاب کررہی ہیں۔ اخبار بتاتا ہے کہ مردہ خانے بھر چکے ہیں۔ بھارت میں سخت ترین لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا وائرس کے کیسز تیزی سے بڑھے ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان اور بنگلادیش میں کورونا کیسز میں اتنا اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

بھارت کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے بجائے ہمسائیوں کے ساتھ ''پنگا'' لے رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا پر لگا ہوا ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کورونا پھیلانے کی وجہ مسلمان ہیں۔ بھارتی دانشور کہتے ہیں مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی تیاری کررہی ہے۔ ایسی ہی تیاری جیسے نازیوں نے یہودیوں پر بیماری پھیلانے کا الزام لگا کر کی تھی۔

بھارت میں لاک ڈاؤن کے دوران بھوک و افلاس کا عالم دیکھ کر انسانیت شرما گئی۔ کوئی ننگے پیر سیکڑوں میل پیدل سفر کرکے گھر پہنچا تو کسی کو بھوک نے مردار کھانے پر مجبور کردیا۔ چلچلاتی دھوپ، تپتی زمین اور ننگے پیر میلوں کا سفر، ایسے میں عورتوں اور بچوں کا بھی ساتھ ہو تو غربت کا کیا عالم ہوگا۔ لاک ڈاؤن میں مودی کی ناکام منصوبہ بندی نے غریبوں کو دربدر رلنے پر مجبور کردیا۔

جب کشتی ڈوب رہی ہو تو ملاح بچاؤ کےلیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے، تیزی سے چپو چلاتا ہے، لیکن بھارتی ملاح نے اپنی کشتی بچانے کے بجائے آس پاس کی کشتیوں کو ڈبونے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ یہ دوسروں کو شاید نقصان نہ پہنچاسکے لیکن اپنی کشتی ضرور ڈبو کر دم لے گا۔

1962 میں بھی بھارت نے کسی کے کہنے پر چین سے تنازعہ مول لیا تھا۔ اس میں بھارت کی اپنی بھی دلچسپی تھی۔ دلچسپی کی وجہ تبت اور لداخ تھے۔ چین نے اس کا خاطر خواہ جواب دیا۔ بھارت نے شکست کھانے کے بعد ایٹمی ہتھیار بنانے کا راستہ اختیار کیا۔ اب بھی بھارت نے اسی قسم کی غلطی کی اور مار کھا بیٹھا۔ چین اور نیپال سے علاقے کھو بیٹھا، ساتھ ہی عزت بھی گنوا بیٹھا۔ اس کا تکبر ٹوٹ گیا۔

چین نے بھارت کو سبق سکھادیا ہے۔ اب بھارت کا رویہ تبدیل ہوچکا ہے۔ فوجی مرنے پر ابھی تک کوئی بیان نہیں آیا۔ یہی معاملہ پاکستان یا نیپال نے کیا ہوتا تو اب تک بھارتی حکومت، میڈیا نے آسمان کو سر پر اٹھایا ہونا تھا۔ ہم نے بھی پلوامہ میں ان کو سبق سکھایا تھا۔ بھارت ایک بلی ہے۔ بلی کو جب جواب ملتا ہے تو خوف چھا جاتا ہے۔ ایسا تب بھی ہوا تھا جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ بیان تک نہیں دیا تھا۔ 27 فروری کے بعد بھی مودی کا یہی حال تھا۔ چین سے تو ویسے ہی ڈرتے ہیں۔ اب بھارت کبھی نعرہ نہیں لگائے گا کہ ''گھر میں گھس کر ماریں گے''۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں