کراچی ریاست کی فوری توجہ کا طالب

اگر پورے کراچی شہر کا جائزہ لیا جائے تو شہر میں تفریح کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

advo786@yahoo.com

کراچی میں سستی عوامی تفریحات کی سہولیات انتہائی قلیل یا نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ پارکوں اور کھیلوں کے میدان کی شدید قلت ہے جب کہ جو موجود ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر دیکھ بھال نہ ہو نے کی وجہ سے تا حال برباد ہیں۔

تین کروڑ کے لگ بھگ آبادی کے شہر میں اگر پارکوں کا جائزہ لیا جائے تو ہل ویو ، سی ویو، بن قاسم ، سفاری پارک، شہید عزیز بھٹی اور الہ دین جیسے چند پارک ہی نظر آتے ہیں، ان میں سے کچھ روٹ سے ہٹ کر چھوٹے ہونے اور سہولیات کے نہ ہو نے کی وجہ سے عام شہریوں کے لیے بے مصرف ہیں، لے دے کر سفاری پارک ،چڑیا گھر اور الہ دین پارک ہی بچتے ہیں جہاں سیر بینی کر نے والوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے مناسب جگہ اور کچھ سہولیات موجود ہیں جس کی وجہ سے چھٹی کے دنوں میں ان جگہوں پر بے انتہا رش رہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چڑیا گھر جو خصو صاً بچوں اور خواتین کی خصوصی دلچسپی، تفریح اور توجہ کا مرکز ہے، عید کے تین دنوں میں یہاں ان ہی کے داخلہ پر پابندی عائد کردی جاتی ہے، اس کو باقاعدہ مشتہر کیا جاتا ہے کہ عید کے دنوں میں خواتین اور بچے چڑیا گھر کا رخ نہ کریں ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اوباش لوگوں کی حرکتوں کو روکنے اور اس کا کوئی متبادل انتظام کرنے کے بجائے انتظامیہ نے یہ راستہ نکا لا ہے کہ ان دنوں بچوں اور خواتین کو اس تفریح سے ہی محروم کر دیا جائے۔

کراچی کے غریب شہریوں کے لیے سفاری پارک کے بعد ایک الہ دین پارک ہی بچتا ہے جہاں کا عوام کی بڑی تعداد رخ کرتی ہے۔ ا لہ دین پارک جو کہ شہر کے مثالی محل وقوع پر باون ایکڑ پر محیط ہے ۔ البتہ اس پارک کے ٹکٹس مہنگے ہیں جس کے عام شہری متحمل نہیں ہو سکتے۔ بعض شہری تو دور سے ہی بچوں کو دکھا کر واپس آجاتے ہیں۔


اگر پارک انتظامیہ ٹکٹوں کے نرخ کم کردے تو اس سے عام شہری اور ان کے اہل خانہ بھی اس خوبصورت پارک کی سیر کرسکتے ہیں اور اس سے پارک انتظامیہ کا ریونیو بھی نہیں ہوگا کیونکہ زیادہ لوگ سیروتفریح کے پارک میں آئیں گے اور یہاں ٹکٹ خریدنے کے علاوہ بھی کچھ نہ کچھ خریدیں گے جس کاروباری سرگرمی بڑھے گی۔

ادھر اگر پورے کراچی شہر کا جائزہ لیا جائے تو شہر میں تفریح کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹے پارکوں ، رفاہی پلاٹوں اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کا عمل پچھلی کئی دہائیوں سے منظم کاروبار بن چکا ہے جس میں قانون شکن و سماج دشمن عناصر اور صوبائی و شہری حکومتی اداروں میں برا جمان ارباب اختیار سب شامل ہیں۔ رہائش، صحت و صفائی اور تفریحی سہولیات شہریوں کے بنیادی حقوق میں شمار ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں کراچی کے شہریوں کو جو تھوڑی بہت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ان کا بھی خاصا حصہ لوٹ مار،بندر باٹ اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔

رفاحی و سرکاری زمینوں پر منسٹر کوٹہ، چائنا پلاٹس کٹنگ، پارکوں پر شادی ہالز اور کمرشل تعمیرات ، بلڈرز نے کراچی شہر کی شکل ہی بدل دی ہے۔جدھر چلے جائیں ، تجاوزات موجود ہیں، سٹرکوں کے فٹ پاتھوں پر تجاوزات کھڑی کرکے انھیں پیدل چلنے والوں کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ گرین بیلٹس پر قبضے کرلیے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر ہی کراچی سے کچھ حد تک غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات کا خاتمہ عمل میں آیا ہے۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کراچی تجاوزات کیس کا عبوری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل تین شہریوں کو انسانی حقوق اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ عدالت نے کیماڑی سے لانڈھی تک ریلوے اراضی پر قائم ہر قسم کی تجاوزات کا خاتمہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔

تین رکنی بینچ نے سولہ صفحات پر مشتمل فیصلہ میں کہا ہے کہ''کراچی کو ریاست کی فوری توجہ کی اشد ضرورت ہے۔'' اس سلسلہ میں سول سوسائٹی ، فلاحی اور سیاسی تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یک جاں ہو جائیں تاکہ ان کی حق تلفی اور حقوق کی پامالی کا یہ سلسلہ رک سکے اور عدالتی احکامات و فیصلوں کی تعمیل بھی ممکن ہو سکے۔
Load Next Story