موبائل فون کا بے قابو جن کیسے رام کیا جائے

ماہرین متفق ہیں کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کو منظم کرنے میں انٹر نیٹ، موبائل اور سیٹلائیٹ فون اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حکومتی دعوئوں کے باوجود کھلے عام فروخت ہونے والی موبائل فون سِمیں ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔ ۔ فوٹو: فائل

ایک دہائی سے زیادہ مدت پر پھیلے جرائم اور دہشت گردی کے واقعات کے سدِ باب کے لیے یوں تو ہر حکومت نے، مؤثر یا غیرمؤثر، کوششیں کی ہیں، وہ اپنی جگہ خوش آئیند تھیں اور ہیں لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کی بلا سر سے ٹلی نہیں۔

آئی ٹی اور ٹیلی مواصلات کمیونیکیشن کے ماہرین متفق ہیں کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کو منظم کرنے میں انٹر نیٹ، موبائل اور سیٹلائیٹ فون اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے ان شعبوں پر ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس نیٹ ورک میں موبائل فون کا کردار بہت اہم ہے کیوںکہ دہشت گرد اور خطرناک مجرم اس سے زیادہ استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔

اس میں شک نہیں، موبائل فون نے عام زندگی میں آسانیاں فراہم کی ہیں مگر دوسری جانب یہ ہی آسانیاں دہشت گردوں کے نیٹ ورک میں شامل لوگوں کو بھی میسرہیں ۔ اس ضمن میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بہت پہلے سرجوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے تھا اور موبائل فون کمپنیوں کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہیے تھے مگر بدقسمتی کہ ایسا ہوا نہیں ۔۔۔۔ کیوں؟ ۔۔۔۔ اس پر کتاب لکھی جاسکتی ہے مثلاً سب سے پہلے موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی آن لائن ڈائریکٹری تیار کی جانی چاہیے تھی۔ اس سے جہاں ملک میں موبائل صارفین کی درست تعداد سامنے آ جاتی وہاں کسی بھی مشکوک اور غیرشائستہ کال اور ایس ایم ایس کو بروقت مانیٹر کرنے کا قابل عمل طریقہ بھی سامنے آجاتا مگر ارباب اختیار اربوں روپے کمانے والی ان موبائل فون کمپنیوں کے سامنے ہمیشہ بھیگی بلی بنے رہے۔

ہو تو اب بھی بہت کچھ سکتا ہے۔ عن قریب ملک میں جی ایس ایم ٹیکنالوجی کی جگہ جی تھری موبائل فون ٹیکنالوجی شروع ہونے والی ہے اگر ہم سے پہلے کوتاہی ہو چکی ہے تو اس کا ازالہ اب جی تھری ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے کیوںکہ حالت یہ ہو چکی ہے کہ پاکستان بھر میں صرف چند ہزار روپے کے عوض کوئی بھی فرد درجنوں سمیں خرید کر اپنے عزائم کو تقویت دے سکتا ہے۔

مزے کی بات یہ بھی ہے کہ تمام تر حکومتی دعوئوں کے باوجود کھلے عام فروخت ہونے والی یہ سِمیں اب بھی ہر ایک کی دست رس میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق غیر رجسٹرڈ موبائل فون سمز کی تعداد رجسرڈ سمز کا قریباً نصف ہیں، جنہیں استعمال کرکے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد کال یا ایس ایم ایس کا ریکارڈ حاصل کرنا ہو تو پولیس یا متاثرہ شہریوں کو ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں سے ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے ایک طویل، منہگے اور تھکا دینے والے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، اس دوران مجرم گرفت سے باہر ہو جاتا ہے۔



موبائل فون کے شعبے کی روز بہ روز ترقی اور غیر ملکی سرمائے کی آمد، ملک کے معاشی شعبے کو استحکام دینے کے لیے نیک شگون ضرور ہے لیکن بد شگونی یہ ہے کہ اس جدید سہولت کو مکروہ عزائم کے لیے استعمال ہونے سے بچانے کا نظام وضع نہیں کیا گیا۔ اندر کی ایک کہانی یہ بھی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار موبائل فون کمپنیوں کی ''ٹافیوں'' کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں، معاملے کی نزاکت کا علم ہونے کے باوجود سلسلہ چل رہا ہے ۔۔۔ روکے کون؟

گذشتہ دنوں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے وزارت داخلہ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے فرمایا ''ملک میں دہشت گردی اور بم دھماکوںکے واقعات میں اب بھی موبائل فون سمز استعمال ہورہی ہیں، اس لیے سیلولر کمپنیوں کے خلاف کارروائی اور ان کے اعلیٰ عہدے داروں کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔''

وفاقی وزیر کے ان فرمودات کے بعد صورت حال اپنے پس و پیش منظر کے ساتھ ابھر سامنے آجاتی ہے۔ ملک میں کام کرنے والی موبائل فون کمپنیاں گاہے بہ گاہے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے صارفین کوانتباہ کرتی تو رہتی ہیں کہ وہ اپنے زیر استعمال موبائل فون نمبر کو اپنے نام رجسٹر کرالیں لیکن آج تک کسی بھی کمپنی نے کسی بھی نمبر کو اس وجہ سے بند نہیں کیا کہ وہ درست نام پر رجسٹرڈ نہیں، جب تک وہ چل رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ کس کے نام پر رجسٹرڈ ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ موبائل فون کے شعبے میں بنیادی قواعد و ضوابط پر کس حد تک عمل درآمد ہو رہا ہے۔ ملک میںصورت حال یہ ہے کہ ایک فرد کے پاس نہ صرف ہر کمپنی کے مختلف نمبر موجود ہیں اور وہ ان کو وقتاً فوقتاً تبدیل کرتا ہے۔ اس بارے میں آج کل یوں بھی کہا جاتا ہے کہ کسی آدمی کی شخصیت کا اندازہ اس کے موبائل فون نمبروں کی تعداد سے ہوسکتاہے۔ ملک میں موبائل فون کے کم ہی ایسے صارفین ہیں جو ایک ہی نمبر پر اکتفا کرتے ہیں، 90 فی صد سے زیادہ ''پری پیڈ'' صارف ایک سے زیادہ سموں کو جائز اور ناجائز کاموں کے لیے استعمال کررہے ہیں، اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ جس علاقے سے موبائل فون نمبر کے ذریعے کال کی جائے، اس علاقے اور سم کے مالک کے نام کی نشان دہی کال سننے والے کے فون پر ظاہر ہونی چاہیے، جو تکنیکی سطح پر ممکن ہے اور یہ کال سننے یا ایس ایم ایس وصول کرنے والے کا بنیادی حق بھی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے تو یہ بھی ممکن کردیا ہے کہ کال کرنے والے صارف کی تصویر بھی کال وصول کرنے والے صارف کے فون پر آسکتی ہے۔

موبائل فون سموں کے اجراء کے ضمن میں تکنیکی سطح پرحل موجود ہے، جس کو ٹیلی مواصلات اور آئی ٹی کے ماہرین نے قابل عمل قرار دیا ہے۔ اگر ملک کے اندر پی ٹی اے موبائل فون کمپنیوں کے مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی فرد کے شناختی کارڈ کے آخری سات ہندسوں کو، جو تکنیکی سطح پر مکمل طور پر قابل عمل ہے، صارف کا موبائل فون نمبر قرار دینے کا فیصلہ کر لے اور نادرا موبائل فون صارفین کو اپنی تیارکردہ اسمارٹ سم فراہم کرنے لگے تو دہشت گردی کے واقعات کو مانیٹر کرنے اور موبائل فون کے ذریعے اغوا برائے تاوان، ڈکیتی اور دیگر مکروہات کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ کسی بھی شہری کے نادرا شناختی کارڈ کے آخری سات ہندسے، کسی بھی دوسرے شہری کے نادرا شناختی کارڈ سے نہیں ملتے۔

اس امر سے موبائل فون کے من پسند اور گولڈن نمبروں کی منہگے داموں خریداری کا دھندا بھی ختم ہو جائے گااور ایک صارف کا نمبر ہمیشہ سات ہندسوں پر مشتمل رہے گا۔ اس بات کو بھی ممکن بنایا جائے کہ ایک صارف ایک وقت میں صرف ایک ہی نمبر استعمال کر ے، اگر کسی صارف کی ضرورت ایک سے زیادہ سمز ہیں تو اس کو فراہم کی جانے والی اضافی فون سمز کا نمبر بھی ان ہی سات ہندسوں پر مشتمل ہونا چاہیے، جو پہلے سے اس کے پاس ہو۔ صارف ایک ہی نمبر کی سمز پر ایک یا مختلف کمپنیوں کے کوڈ حاصل کرسکتا ہے۔ نادرا اسمارٹ سم صارف کو فراہم کرے اور فون کمپنیاں اسے کوڈ فراہم کریں جب کہ پی ٹی اے اس نمبر کو موبائل فون کا آئی ایم ای آئی نمبر لے کر ایکٹیو کرے۔ اب صارف اگر موبائل سیٹ تبدیل کرے تو دوبارہ اپنے نئے موبائل سیٹ کا آئی ایم ای آئی نمبر بتانے کا پابند ہو۔ اس طرح ایک سم کو ایکٹیویٹ ہونے کے لیے تین مختلف اداروں کی چھان پھٹک سے گزرنا پڑے گا، جس سے جعلی نام پر سم حاصل کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس کے باوجود بھی کوئی سم حاصل کرلیتا ہے تو اس کا فوراً علم ہو جائے گا کہ گھپلا کس ادارے نے کیا ہے۔



موبائل فون کمپنیاں نئی یا ڈپلیکیٹ اسمارٹ سم کے بدلے صارف سے کوڈ فراہم کرنے کے چارجز وصول کریں: نئی سم یا سم گم ہونے کی صورت میں ڈپلکیٹ سم نادرا ہی کو جاری کرنی چاہیے اور اس ضمن میں کوئی بھی آسان طریقۂ کار متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ ملک بھر میں نادرا کے دفاتر صارف کے شناختی کارڈ کے آخری سات ہندسوں پر مشتمل نمبر والی اسمارٹ سم کا اجرا بھی بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں، نادرا انتظامیہ کو دفتر میں صرف ایک اضافی ڈیسک، کمپیوٹر اور متعلقہ کام کے لیے ملازم رکھنا پڑے گا۔ اس عمل سے نادرا کی آمدن بھی بحے گی۔ موبائل فون کمپنیوں کی آمدنی پرکوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ وہ کوڈ فراہم کرنے کی مد میں حسب معمول فیس وصول کرتی رہیں گی۔ نمبر پورٹیبیلٹی کی صورت میں البتہ صارف کو اپنا کوڈ ضرور بدلنا پڑے گا جب کہ اس کا اصل نمبر وہی رہے گا۔ اس طرح حکومت کو بھی سالانہ اربوں روپے اضافی حاصل ہوسکیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ موبائل فون کمپنیوں کے کروڑوں صارفین کی تعداد کے دعوے بھی بہ آسانی چیک کیے جا سکیں گے۔

ملک بھر میں غیر رجسٹرڈ سموں کے ذریعے ہونے والی سیکڑوں وارداتوں کے بعد بننے والے مقدمات تھانے کچہریوں میں اب بھی چل رہے ہیں اور بے گناہ شہری ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ موبائل فون چوری ہونے، گم یا چھینے جانے کے بعد ہزاروں صارفین فون کمپنیوں کے دفاتر یا فرنچائز یا پھر ہیلپ لائن کے ذریعے سم بلاک کراتے تو ہیں مگر اکثر و بیش تر وہ سم بند نہیں کی جاتی، سوائے اس کے کہ صارف فوراً ہی نئی سم خرید لے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ گم ہونے والی یا چھینی گئی سم صارف کی کارروائی سے پہلے ہی واردات میں استعمال ہو جائے۔ کمپنیاں سم بند اس لیے نہیں کرتیں کہ ان کے صارفین کی تعداد کاغذوں میں کم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اب پی ٹی اے اور موبائل فون کمپنیوں کو سم اور موبائل فون بلاک کرانے کے لیے پہلے سے موجود مشکل ترین طریقۂ کار کے بہ جائے آسان اورفوری طور پر قابل عمل نظام بھی وضع کرنا ہو گا ورنہ بے گناہ شہری ناکردہ جرم کی سزا بھگتتے رہیں گے۔

موبائل فون صارفین کا مکمل ریکارڈ، ڈائریکٹری کی صورت میں یا نادرا کی اسمارٹ سم اور رجسٹریشن ایک ایسا قدم ثابت ہو سکتا ہے جس سے بم دھماکوں، اغوا برائے تاوان اور اس نوعیت کی دیگر وارداتوں کے سراغ میں فوری مدد مل سکتی ہے، ان اقدامات سے ایک موبائل فون صارف بھی جرائم اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں شامل ہو کر اپنا قومی کردار ادا کر سکتا ہے اور پاکستان بھی عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے کردار کو پہلے سے زیادہ مؤثر اور منظم طریقے سے نباہنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

تحفظِ پاکستان آرڈی نینس کے مضمرات

صدر مملکت ممنون حسین نے حال ہی میں تحفظ پاکستان آرڈی نینس پر دستخط کیے ہیں۔ اس آرڈی نینس کے تحت دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔ ان مجرموں کے لیے الگ عدالتیں، تھانے اور جیلیں بنائی جائیں گی، ملک دشمن عناصر کو پکڑنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی مشترکہ ٹیمیں بنیں گی، جرائم کے مقدمات کے فوری اندراج اور تحقیقات کے لیے الگ پولیس اسٹیشن بنائے جائیں گے اور مقدمات کی پیروی کے لیے وفاقی پراسیکیوٹر تعینات ہوں گے۔ یہ سب دیکھنے، سننے، کہنے اور بولنے میں اچھا لگتا ہے مگر اس آرڈی نینس کے مضمرات ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئے۔ اس آرڈینس کی زد پر جہاںاصل مجرم آئیں گے وہاں بے گناہ بھی پولیس گردی کا شکار ہوں گے۔ خصوصی اختیارات رکھنے والے نئے اداروں کے ذریعے جب عام شہریوں کی آزادیاں سلب ہوں گی تو یہ کہانی سمجھ میںآئے گی۔ اس آرڈی نینس نے ابھی پارلیمنٹ میں جانا ہے، وہاں اراکین اسمبلی اس کا مطالعہ کریں گے لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ وہ اس آرڈی نینس کے مضمرات کو اسی طرح سمجھیں جس کا اظہار میڈیا میں ہو رہا ہے۔

اس امر کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ پولیس کے لیے پہلے سے زیادہ ''مال پانی'' کمانے اور بے گناہ شہریوں کو تنگ کرنے کی راہ بھی کھل گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے 12 کروڑ سے زیادہ موبائل فون صارفین، پولیس گردی کی زد پر ہیں۔ ملک میں اب بھی ان گنت سمیں ایسی ہیں جو استعمال کرنے والوں کے نام کے بجائے ایسے افراد کے نام پر ہیں جن کے وہم وگمان میں بھی نہیں کہ ان کے نام پر جاری سم کہیں اور بھی زیر استعمال ہے۔




ریٹیلرز کا قصور؟

تجربے ہماری زندگیوں میں اس قدر زیادہ ہو چکے ہیں کہ ہم نے ان سے سبق حاصل کرنا ہی چھوڑ دیا۔ ملک بھر میں موبائل فون سموں کی فروخت کا تجربہ ان میں سے ایک ہے۔ اب بھی پہلے کی طرح حکومت نے نئی سموں کی فروخت کی اجازت فی الحال صرف کمپنی کے سروس سینٹرز اور فرنچائز کو دے رکھی ہے جب کہ دکان داروں اور ریٹلرز کو نئی سمز فروخت سے روک دیا گیا ہے۔ پی ٹی اے نے گلیوں، بازاروں میں سمز کی فروخت پر پابندی لگا تو دی مگر اس پورے عمل کے دوران ان موبائل ریٹیلرز کے مستقبل پر غور نہیں کیا گیا، جو بے روزگار اور بے یارومددگار چھوڑ دیے گئے، خاص طور پر وہ سم اسٹاکسٹ، جن کے پاس سموں کے ڈھیر پڑے ہیں، اْنہیں کوئی ہدایات نہیں ملیں۔ تقریباً 4 لاکھ ریٹیلرز اس فیصلے تلے کچلے گئے ہیں۔

ایک ریٹیلر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا '' یہ 4 لاکھ خاندانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہر پیشے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، مگر چند سو لوگوں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں سے ان کا کاروبار چھیننا کہاں کا انصاف ہے ؟ اگر سرکاری ادارے میں ملازمین کرپشن اور رشوت ستانی کا بازار گرم کریں تو کیا وہ سرکاری ادارہ بند کردینا چاہیے؟ موبائل سمز غلط ناموں پر کیسے ایکٹیو کی جاتی ہیں؟ میں بتاتا ہوں، جب ہر ماہ موبائل کمپنیاں کنکشن سیل کا ٹارگٹ دیتی ہیں تو ہر فرنچایز کو 3 سے 4 ہزار کنکشن فروخت کرنے پڑتے ہیں، اگر ایسا نہ ہو تو مزید مال اور کمیشن نہیں ملتا۔ ہم یہ کام قانونی طریقے سے کریں یا غیر قانونی طریقے سے، ان کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔ فرنچائیز کے پاس عوام اور اپنے تمام کسٹمرز کے شناختی کارڈز کی فوٹو کاپیاں ہوتی ہیں، اکثر موبائل شاپس میں سیلولرکمپنی ملازمین کی پارٹنر شپ ہوتی ہے، وہ ان فوٹو کاپیوں سے سم ایکٹیو کرنے کے بعد فروخت کرواتے ہیں۔ وہ فرنچائز سے یہ سمزاس لیے فروخت نہیں کرتے کہ پی ٹی اے کا ڈر ہوتا ہے۔ ریٹیلرز کے پاس کروڑوں روپے کی سمز پڑی ہیں، جو نہ کمپنی واپس لینے کو تیار ہے نہ ان کو بیچنا ممکن۔ جو سم موبائل شاپ سے 70 روپے میں ملتی تھی اب وہ 500 روپے اور فرنچائز سے اس سے بھی زیادہ میں مل رہی ہے۔ طاقت ور لوگ ان ضمیر فروش فرنچائز اور کمپنی ملازمین سے بے نام سمیں اب بھی حاصل کر رہے ہیں۔ خدارا اس بارے میں ذرا سوچیے۔

موبائل فون معاشی ترقی کی نشانی ہے؟

سابق صدر جنرل مشرف کی حکومت اوراس کے بعد موجودہ حکومتی عہدے دار بھی موبائل فون کنکشنوں کی بھرمار کو قومی ترقی کا پیمانہ قرار دے رہے ہیں۔ بقول ان کے موچی، نائی، لوہار، بڑھئی اور گھر میں کام کاج کرنے والیوں کے پاس بھی موبائل فون موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موبائل فون کا کنکشن لینے کے لیے سب سے بڑا خرچا موبائل سیٹ پر اٹھتا ہے، کنکشن محض دو اڑھائی سو روپے میں مل جاتا ہے اور وہ بھی کسی معاہدے کے بغیر۔ اب آپ ایزی لوڈ یا سو روپے کا بیلنس کارڈ خرید کر ''صاحب موبائل'' ہولیے۔ پاکستان میں موبائل پر کال سننے کے چارجز بھی نہیںہیں، اب اگر جوتے پالش کرنے والا موبائل پر بات کرتا ہوا نظرآتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کوئی خوش حال شہری ہے۔ کال سننے کی سہولت جو پاکستان میں عام ہے، اس کاامریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک میں تصور ہی مشکل ہے۔ حیرت یہ ہے کہ پاکستان میں موبائل کمپنیاں کس طرح ماہانہ چارجز کے بغیر منافع بخش بزنس کررہی ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کی پردہ داری کے لیے تمام بڑے اکٹھے ہو جا تے ہیں۔

پاکستان میں موبائل چھیننے کی وارداتیں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ ہر شہر میں روزانہ درجنوں فون چھینے جارہے ہیں۔ پولیس والے بھی موبائل فون چھیننے کی واردات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بل کہ الٹا مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست گزار سے ہی رشوت اینٹھ لیتے ہیں۔ موبائل فون میں فون ٹریک کرنے کی ٹیکنالوجی کے باوجود فون چھیننے کی وارداتوں میں کمی نہیں آئی۔ یہ چھینے ہوئے موبائل فون ہر مارکیٹ میں سستے داموں دست یاب ہیں اور غریب کہلانے والے لوگ اسی مارکیٹ سے چھینے ہوئے فون سستے داموں خرید کر دو اڑھائی سو کے عوض موبائل فون کی سروس لے لیتے ہیں ۔ اگر چھینے ہوئے موبائل فون کو دوبارہ قابل استعمال نہ ہونے کی ٹیکنالوجی کا ملک میں درست استعمال ہو تو پھر موبائل فون عام آدمی کی قوت خرید سے ہی باہر ہوجائیں۔ اسی طرح اگر کسی دن موبائل کمپنیوں نے پے فون منہگے کردیے اور ان کے مقابلے میں موبائل فون پر ماہانہ فیس مقرر کردی تو ساری خوش حالی کی قلعی کھل جائے۔

کنکشن آسان، سمزبندکرانا انتہائی مشکل

''ملک بھر میں موبائل فون کا نیا کنکشن سم حاصل کرنا انتہائی آسان جب کہ اپنے ہی نام پر رجسٹرڈ سمیں بند کرانا انتہائی مشکل ہے۔ سموں کی فروخت کے لیے کوئی ضابطہ نہیں البتہ اپنے ہی نام جاری کی جانے والی سم بند کرانے کے لیے کمپنیوں کے فرنچائز اور دفاتر سے رجوع کرنی والے صارفین دھکے کھانے پر مجبور ہیں، دہشت گردی میں غیرتصدیق شدہ اور جعلی سموں کے استعمال کے امکان کو کم سے کم کرنے کیلیے اعلیٰ سطح پر فیصلوں کے باوجود موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے سموں کو منسوخ کرنے کے لیے کوئی آن لائن سسٹم تشکیل نہیں دیا گیا۔ موبائل فون کمپنیوں کے عملے صارفین کو ٹالنے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشتے ہیں۔ صارفین کا مطالبہ ہے کہ غیررجسٹرڈ سموں کو منسوخ یا بند کرانے کے لیے تیز رفتار آن لائن سسٹم متعارف کرایا جائے۔ لوگ جب پی ٹی اے کی جانب سے فراہم کردہ 668 پر میسج بھیجتے ہیں تو جواب میں اس کے نام پر رجسٹرڈ سموں کی بڑی تعداد ظاہر کی جاتی ہے، ملکی حالات سے خوف زدہ عوام جب اپنی غیرضروری یا اپنے نام سے جعل سازی کے ذریعے جاری کرائی گئیں سموں کو بند کرانے کے لیے کسی بھی موبائل کمپنی کے سروس سینٹر یا فرنچائزڈ پر جاتے ہیں تو اسے مختلف حیلے بہانوں سے ٹال دیا جاتا ہے۔ بعض فرنچائزڈ سے یہ جواب ملتا ہے کہ سمیں بند کرنے کے کیے 60 یوم کا وقت لگے گا، بعض کا کہنا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس یہ سہولت میسر نہیں، آپ کسی دوسری فرنچائز یا بزنس سینٹر پر تشریف لے جائیں، یوں عوام پورا دن ضائع کرنے کے بعد ایک سم بھی منسوخ نہیں کراپاتے۔''

اگرہم یہ کہیں کہ 'موبائل کمپنیاں دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دیگرتمام جرائم میں ملوث ہیں' تویہ بے جا نہ ہوگا۔ جو لوگ اغواء برائے تاوان مانگتے ہیں وہ موبائل ہی سے اکثرفون کرتے ہیں لیکن جب تحقیقات کے لیے ان سے معاونت مانگی جائے تویہ لوگ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ ایسی موبائل فون کمپنیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔ موبائل کمپنیوں میں اعلٰی سطح پر ہزاروں سمز جعل سازی کے ذریعے رجسٹر کر کے دہشت گردوں کو فراہم کی جا رہی ہیں۔ نادرا کا ڈیٹا تو مارکیٹ میں بیس روپے کی سی ڈی میں دست یاب ہے۔

''غیرمصدقہ سموں کو فعال بنانے کی مشینیں کہاں سے آتی ہیں؟''

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 28 نومبر2013 کو کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران حکم جاری کیا ہے ''انٹرنیشنل موبائل ایکویپمنٹ آئیڈنٹی'' یعنی آئی ایم ای آئی پر ایک روز میں ایک سے زیادہ سموں کا اجراء نہیں ہو گا، ایک ہی آئی ایم ای آئی نمبر پر پانچ سموں کا اجراء بھی نہیں کیاجائے گا۔کراچی بدامنی کیس میں عدالت عظمٰی نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ موبائل فون کمپنیاں ان تمام لوگوں کا پتہ لگائیں جن کے شناختی کارڈ پر دس یا دس سے زیادہ سمیں جاری ہوئی ہیں۔ان سموں کی تصدیق کے وقت مذکورہ صارف سے خفیہ سوال پوچھاجائے اور اس کا جواب درست ہونے کی صورت میں صارف سے ان کے نام پر جاری کیے گئے نمبرز کی تصدیق کی جائے کہ وہ کون سے پانچ نمبر رکھنا چاہتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کسٹم حکام کو بھی ہدایت جاری کی کہ موبائل فون کے آئی ایم ای آئی نمبرز کے بغیر موبائل فون درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یاد رہے انٹرنیشنل موبائل ایکوپمنٹ آئیڈنٹی، رجسٹرڈ موبائل فون سیٹ میں ایک ایسا تکنیکی نظام ہے، جس کی مدد سے فون سیٹ کی نشان دہی ہوسکتی ہے۔اگر آئی ایم ای آئی کو بلاک کر دیا جائے تو موبائل فون سیٹ ناکارہ ہو جاتا ہے۔

ماضی میں پولیس کو یہ شکایت رہی کہ چین سے آنے والے کئی موبائل فون سیٹ پر ایک ہی آئی ایم ای آئی نمبر تحریرہوتے ہیں، جس وجہ سے جرائم پیشہ افراد کا پتہ لگانے یا چوری شدہ اور چھینے گئے موبائل کی بازیابی کے لیے کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ عدالت نے موبائل سم جاری کرنے کا طریقہ کار تشکیل دینے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنانے کی بھی منظوری دی، جس میں چاروں صوبائی حکومتوں، وفاقی حکومت، پولیس، ایف آئی اے، آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ ٹاسک فورس تین ہفتوں میں (وسط دسمبر2013 تک) اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ سپریم کورٹ نے بندرگاہوں پر کسٹم ڈیوٹی کی وصولی کی نگرانی کے لیے بھی کمیشن کے قیام کی منظوری دی جو عدلیہ، اقتصادی اور تکنیکی ماہرین پر مشتمل ہوگا۔ اس کا کام چھاپے مار کر ریکارڈ چیک کرنا ہوگا۔ دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اسمٰعیل شاہ سے ایک معنی خیزسوال کیا کہ غیر تصدیق شدہ سموں کو فعال بنانے کی مشین کہاں سے آتی ہیں؟ جس پر ایڈیشنل آئی جی بلوچستان میر زبیر نے عدالت کو بتایا کہ یہ ڈیوائس ایئرپورٹ سے ہی آئی ہوگی، جہاں اس کو چیک نہیں کیا گیا ہوگا۔ چیئرمین پی ٹی اے اسمٰعیل شاہ نے عدالت کو البتہ یہ بتایا کہ یہ ڈیوائس پاکستان میں بھی بنائی جاسکتی ہے۔



اس سے قبل 7 اگست 2013 کو سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اگر بائیو میٹرک سسٹم سے تصدیق کے بغیر موبائل سم جاری کی گئی تو متعلقہ سیلولر کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا جب کہ 29 مئی 2013 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام موبائل کمپنیوں کو حکم دیا تھا کہ سموں کی رجسٹریشن بائیو میٹرک سسٹم سے یقینی بنائی جائے کیوںکہ سال 2013 کے شروع میں نادرا نے اعلان کیا تھا کہ 28 فروری سے موبائل فون سموں کے اجراء کے لیے نیا بائیو میٹرک سسٹم لاگو کر دیا جائے گا۔ نادرا کے ترجمان نے کہا تھا کہ تمام پاکستانی ٹیلی کام کمپنیوں کے نمائندوں نے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ ملاقات میں اس نظام کے اجراء کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نئے بائیومیٹرک سسٹم کے نفاذ کے بعد نئی سم حاصل کرنے کے لیے صارف کو اپنے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے ہم راہ خود فرنچائز یا سیلز سنٹر پر جانا ہوگا، جہاں صارف کی انگلیوں کے نشانات کو نادرا کے ریکارڈ سے میچ کیا جائے گا،کوائف درست میچ ہونے پر صارف کو نئی سم ایکٹیویٹ کر دی جائے گی۔ نادرا ترجمان کے مطابق تصدیق کا عمل آن لائن اور تیز رفتار ہوگا اور اس میں چند سیکنڈز ہی صرف ہوں گے۔ اس نئے بائیومیٹرک نظام کی بدولت غیرقانونی سموں کی فروخت روکنے میں مدد ملے گی۔ اس سے قبل متعارف کروائے جانے والے تمام سسٹم خامیوں سے بھر پور تھے جس سے غیرقانونی سموں بآسانی دست یاب تھیں۔ ٹیلی کام کمپنیوں نے اس نئے نظام کے نفاذ کا اعلان تو کر دیا تھا لیکن ساتھ یہ شکایت بھی کی کہ اس نظام کی وجہ سے ہر کمپنی کو اب مزید 500 ملین کی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔

اب ایک بار پھر پی ٹی اے اور موبائل فون کمپنیوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو 15 روز میں غیرمصدقہ سمز کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کرے گی۔ یاد رہے کہ ستمبر میں سیلو لر کمپنیوں نے اس نظام کو شروع کرنے سے انکار کردیا تھا، جس پرسابق وفاقی سیکریٹری داخلہ قمرزمان چوہدری کی زیر صدارت وزارت داخلہ میں غیر رجسٹرڈ سمز کے اجراء کو روکنے کے ایجنڈے پر اجلاس ہوا تھا، جس میں سیکیورٹی اداروں کے خدشات پر بھی بات ہوئی تھی۔ اجلاس کے دوران موبائل فون کمپنیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ سمز کے اجراء کے لیے بائیو میٹرک سسٹم لگائے جائے تاکہ غیر تصدیق شدہ کنکشنوں کو بند کیا جاسکے تاہم موبائل فون کمپنیوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیوںکہ دنیابھر میں یہ نظام نہیں ہے، جس پر وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ جو حالات پاکستان کے ہیں وہ حالات بھی پوری دنیا میں کہیں نہیں ہیں، اس لیے کمپنیوں کو بائیو میٹرک سسٹم لازمی لگانا ہوگا۔ اس پر موبائل فون کمپنیوں نے تجویز پیش کی کے شناختی کارڈز پر بار کوڈز لگادیے جائیں، جس پر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزارت داخلہ کے حکام نے کہا کہ اس سے بائیو ڈیٹا کی تصدیق تو ہوجائے گی لیکن کسی شخص کے زندہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہوگا، اس لیے کمپنیوں کو بائیو میٹرک سسٹم لگانا پڑے گا۔

آخر 29 نومبر 2013 کو موبائل کنکشن تصدیق کے لیے ایک موبائیل فون کمپنی نے پہلا بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرا دیا اور چیئرمین پی ٹی اے اسماعیل شاہ نے تاثر دیا گیا کہ سیکیورٹی مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا ۔ موبائل فون سم کنکشن کی تصدیق کے لیے یہ دنیا کا پہلا بائیومیٹرک سسٹم تھا جوکراچی میں نصب ہوا ۔ یہ سسٹم ٹیلی کام کمپنی زونگ نے گلشن اقبال کے کسٹمر سروس سینٹر میں نصب کیا تھا۔ اس سسٹم کی تنصیب کے بعد زونگ پاکستان میں بائیومیٹرک تصدیق کا نظام متعارف کرانے والا پہلا ٹیلی کام آپریٹر بھی بن گیا۔

بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے کوائف کی تصدیق کا عمل 15سیکنڈز میں مکمل ہوگا، نادرا کے سی این آئی سی ڈیٹا سے کوائف کی تصدیق کے بعد ہی سم ایکٹیویٹ کی جائے گی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یکم دسمبر 2012 سے ٹیلی کام کمپنیوں کی فرنچائز اور دکانوں پر موبائل فون سموں کی فروخت بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے کہ یکم دسمبر سے نئی موبائل فون سمیں اب صارفین کے شناختی کارڈ پتہ پر ہی ارسال کی جائیں گی۔اب اس پر عمل ہوتا ہے کہ نہیں؟یہ معاملہ اب لٹک گیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور عدالت عظمی کی تشکیل کردہ ٹاسک فورس کے سامنے اب یہ تجویز بھی ہے کہ وہ فون کمپنیوں کی طرف سے 500 ملین روپے کے اخراجات کے طعنے سننے کی بجائے، صارف کے قومی شناختی کارڈ کے آخری سات ہندسوں کو صارف کا مستقل نمبر قراردے کر پانچ سموں پر مشتمل سموں کی ایک جیکٹ تیار کرنے کی ذمے داری نادرا کو سونپ دے اور سیلولرز کمپنیوں کو صرف چار ہندسوں پر مشتمل کوڈ قیمتاً جاری کرنے کی پابند کر دے تو اس سے جہاں نادرا کو قومی خزانے کے لیے ریونیو پیدا کرنے کا ایک اور موقع ملے گا وہاں فون کمپنیوں کی بلیک میلنگ اور بد عنوانیوں سے بھی جان چھوٹ جائے گئی۔
Load Next Story