اسرائیل کو نئے انقلاب کا سامنا

اسرائیلی حکومت اور اس کے تمام ریاستی ادارے بشمول میڈیا فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کا نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔


عبدالقیوم فہمید December 08, 2013
موجودہ صورت حال میں اسرائیل کے دیرینہ ساتھی بھی اس کا ساتھ چھوڑرہے ہیں۔ فوٹو: فائل

فلسطینی دنیا کی واحد قوم ہے جو آزادی کی ایک طویل جدو جہد کے باوجود اپنی منزل سے ہمکنار ہونے میں ناکام رہی ہے۔

1920ء سے آج تک فلسطینی عوام قریباً ایک صدی پرمحیط عرصے میں آزادی کی نعمت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم بھی کرتی ہے اس کے باوجود مظلوم فلسطینی عوام کو ان کی منزل کیوں نہ مل سکی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو عالمی برادری کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

فلسطینی آزادی کی تحریک کا سفر خلافت عثمانیہ کے اختتام ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس طویل عرصے میں فلسطینیوں نے اپنے جائز حقوق ومطالبات کے لیے کئی بار استعماری طاقتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اُنہیںہر بار کسی نہ کسی''لولی پوپ'' کے ذریعے بہلا دیا گیا یا ان کی تحریک طاقت کے ذریعے کچل دی گئی۔آج تک فلسطینی قوم آزادی کے لیے 15 بار بڑی بڑی پرامن تحریکیں برپا کرچکی ہے۔ امن پسند فلسطینی ان بغاوتوں کواپنی زبان میں''تحریک انتفاضہ'' کے نام سے جانتے ہیں۔ 1936ء میں برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی۔ ہزاروں فلسطینیوں نے چھ ماہ تک طویل بھوک ہڑتال تھی۔ کسی قوم کی اجتماعی بھوک ہڑتال کی اس سے بڑی مثال تاریخ میں کہیں موجود نہیں۔فلسطینیوں نے اس تحریک کو''مر ن بھرت'' قرار دیا لیکن عرب شہنشاہوں اور مغربی طاقتوں کی اسیرعرب آمرانہ حکومتوں نے برطانوی سامراج کی خوشنودی کی خاطر فلسطینیوں کی بھوک ہڑتال ختم کرادی۔ ان عربوں کی جانب سے فلسطینیوں کو یقین دلایا گیا کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کردیں جس کے بدلے میں برطانیہ آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان کرنے والا ہے۔تحریک دبا دی گئی مگرریاست تو آزاد نہ ہوسکی البتہ ان کی سرزمین پریہودیوں کو ''اسرائیل'' کے نام سے ایک ملک بنانے کا ''ناجائز'' حق ضرورمل گیا۔ اب فلسطین میں برطانوی سامراج نہیں بلکہ ایک مستقل قابض اور غنڈہ گرد اسرائیل موجود ہے۔

1987ء میںفلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف تحریک انتفاضہ کا آغاز کیا۔ چار سال تک جاری رہنے والی اس تحریک کے بعد عرب شہنشاہ دوبارہ میدان میں اترے اور فلسطینیوں کو''اوسلو معاہدے'' کا لولی پوپ دے کر انہیں خاموش کرادیا۔ فلسطینیوں کی قربانیاں رائیگاں گئیں۔ 1967ء کی جنگ میں اسرائیلی قبضے میں چلے گئے فلسطینی علاقوں پرصہیونی ریاست کا غیرتحریری طورپر کنٹرول تسلیم کرلیا گیا۔ اسرائیل نے اس معاہدے کو غنیمت جانا اور فلسطینی اتھارٹی کو ایک ننھے بچے کی طرح بہلا پھسلا کرمقبوضہ عرب شہروں بالخصوص مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی توسیع پسندی کا کام تیز کردیا۔ 2000ء میں فلسطینیوں نے ایک نئی تحریک انتفاضہ شروع کی۔ یہ تحریک بھی چند برس تک جاری رہی۔ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید اورلاکھوں کو متاثر ہونا پڑا لیکن اسرائیل نے اپنی مرضی کے مطابق غزہ کی پٹی میں قائم کی گئی چند ایک یہودی کالونیاں ختم کردیں اور عرب ملکوں نے فلسطینیوں کو ایک مرتبہ پھر رام کرلیا۔

''العربیہ ڈاٹ نیٹ'' کی ایک مفصل رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کیخلاف فلسطینیوں کی تحریکیں آج تک ثمر آور اس لیے ثابت نہ ہوسکیں کیونکہ عرب ممالک نے ہمیشہ ان کی حوصلہ شکنی کی۔ فلسطین کے پڑوسی ملکوں مصر اور اردن کا ان تحریکوں کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار رہا ہے۔ اگر یہ ممالک صہیونی ریاست کے ساتھ امن معاہدے نہ کرتے توشائد آج فلسطینیوں پر مظالم کی یہ کیفیت نہ ہوتی جو آج ہے۔

ایسے حالات میں فلسطینی ایک مرتبہ پھر ایک نئی تحریک کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسرائیلی اخبارات ''یروشلم پوسٹ'' اور ''ہارٹز'' کے مطابق اسرائیل کے کئی متنازعہ اقدامات پرفلسطینی عوام میں نفرت اور غم وغصے کا ایک لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت آتش فشاں بن کر پھٹ سکتا ہے۔مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری، فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری، جبری شہر بدری، نہتے شہریوں کے خلاف روز مرہ کی بنیاد پر جاری کریک ڈاؤن، فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ جاری مذاکرات میں ہٹ دھرمی ، انتہا پسند یہودیوں کے ہاتھوں مسجد اقصیٰ کی آئے روز ہونے والی بے حرمتی، حتی کہ فلسطینی سیاسی دھڑوں میں پائے جانے والے اختلافات کو بھی فلسطینی عوام اسرائیلی سازشوں سے جوڑ رہے ہیں۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیںجن کے باعث فلسطینی ایک نئی تحریک انتفاضہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مغربی کنارا اس تحریک کا بیس کیمپ ہوسکتا ہے کیوں کہ وہاںپراس کے لیے فضاء سازگار بنائی جا رہی ہے۔

ممتاز فلسطینی دانشور عبدالستار قاسم نے حال ہی میں''مرکزاطلاعات فلسطین'' کو دیے گئے اپنے تفصیلی انٹرویو میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی ممکنہ تحریک انتفاضہ پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں فلسطینیوں نے جتنی بھی تحریکیں برپاکیں وہ کئی وجوہات کی بنا پرناکام ہوئیں۔ وہ غیرمنظم تحریکیں تھیں،جن میں کوئی ایک متفقہ قیادت سامنے نہیں آسکی۔ فلسطینی عوام نے خود کو احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں تک محدود رکھا۔ حماس اور اسلامی جہاد جیسی تنظیموں نے فدائی حملوں کا تصور متعارف کرایا مگر وہ زیادہ کارگر ثابت اس لیے نہیں ہوا کہ عرب ممالک نے روایتی اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کی ان تحریکوں کو دبا دیا تھا۔ لیکن فلسطینی عوام اب جس تحریک کے لیے زمین ہموار کر ر ہے ہیں وہ تحریک انتفاضہ نہیں بلکہ''تحریک انقلاب'' ہے۔ اس تحریک کوتیونس، مصر، لیبیا، یمن اورشام کے نوجوانوں کی برپا کردہ تحریکوں سے مہمیز ملی ہے۔ پیش آئند عرصے میں اسرائیل کے خلا ف اٹھنے والی تحریک محض فلسطینی عوام تک محدود نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک علاقائی تحریک بھی بن سکتی ہے، جس کے بعد اسرائیل کے پاس دو آپشن ہوں گے، یا تو اسے فلسطینیوں کے تمام جائز مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے یا خطے میں ایک نئی جنگ کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی''۔

تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق فلسطینی عوام ایک ایسے وقت میں اسرائیل کے خلاف نئی'' تحریک انتفاضہ''کی تیار ی کر رہے ہیں جب پڑوسی عرب ممالک خود بھی تبدیلی سے گذ ر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے ہاں اندر ہی اندر بڑھتی نفرت اور غم وغصے کی فضاء کے نتیجے میں متوقع تحریک انتفاضہ کی بازگشت پڑوسی ملکوں مصر اور اردن تک بھی پہنچ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں پڑوسی حکومتوں کی بدن بولی سے اسرائیل کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی جانب سے کسی بھی تحریک کا سامنا کرنے کی تیاری کرلے۔مصری اخبار''الاھرام'' کے مطابق اخوان المسلمون کی حکومت کی برطرفی کے بعد اسرائیل نے سکھ کا سانس لیا ہے مگر اسے فلسطینیوں کی جانب سے ٹھنڈی ہوا نہیں آئے گی۔فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف تحریک انتفاضہ اب نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ جاری امن مذاکرات کے ختم ہوتے ہی عوامی بغاوت کی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔ اس تحریک میں عرب ممالک کے انقلابی گروپ بھی حصہ بقدر جثہ فلسطینیوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ تحریک طول پکڑ سکتی ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان اسرائیل کوہو گا۔



اسرائیل کے اندربے چینی کی لہر

شائد اسرائیلی حکومت اور اس کے تمام ریاستی ادارے بشمول میڈیا فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کا نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کرحکومت کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے اندرپائے جانے والے غم وغصے کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کرے، کیونکہ اب کی بار کوئی بھی عوامی بغاوت کی تحریک محض چند ایک فدائی حملوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے نتیجے میں اسرائیل کے تمام شہروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ صرف فلسطینی اس تحریک کا حصہ نہیں ہوں گے بلکہ عرب ملکوں کے جنگجو گروپ بھی یہودی آباد کاروں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ حماس نے جدید اسلحہ ، مواصلاتی نظام اور انٹیلی جنس آلات حاصل کرلیے ہیں۔کچھ اسی طرح کے خیالات اسرائیل کے ایک تجزیہ نگار جیکب لیوئس بھی حال ہی اخبار''معاریف'' میں شائع اپنے مضمون میں کرچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ یہ انکشاف بھی کیا کہ کئی عرب ملکوں نے اپنے ہاں موجود عسکری گروپوں کواسرائیل کے خلاف تحریک کے لیے ہدایات دینا شروع کردی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی تحریک انتفاضہ میں الجھانے کیلئے ایران بھی سازش کرسکتا ہے۔ چونکہ اس وقت ایران اپنے جوہری پروگرام بارے طے پائے معاہدے کے بعد تل ابیب سے خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہران اسرائیل کی توجہ کسی اندرونی معاملے کی طرف موڑنے کے لیے فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کو مہمیز دے سکتا ہے۔اسرائیل کے ایک تھنک ٹنک نے حال ہی میں یہودی کالونیوں میں ایک سروے کرایا جس میں یہودی آباد کاروں کی جانب سے فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کے رد عمل میں تیاریوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ سروے میں نوے فی صد یہودیوں نے خود کو غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاھو کی حکومت پرعدم اعتماد کا اظہار کیا۔

فلسطین کی اندرونی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطینی عوام کی تحریک انتفاضہ اسرائیل کے بجائے پہلے فلسطینی اتھارٹی کے خلاف ہوگی کیونکہ صدر محمود عباس اور ان کی جماعت کی قیادت میں قائم فلسطینی انتظامیہ اسرائیل سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ مغربی کنارے میں رام اللہ اتھارٹی کے تمام ادارے حتیٰ کہ سکولوں تک بدعنوانی عام ہوچکی ہے۔ فلسطینیوں کو وہی لقمہ مل رہا ہے جو اسرائیل اور امریکا کی مرضی کے بعد وہاں پہنچایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ عوام سب سے پہلے اسرائیل کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، جس کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔



''جن پے تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے''

اندرونی خلفشار کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پربھی صہیونی ریاست کے ستارے گردش میں ہیں۔ اسرائیل کے ہمیشہ''دُکھ سُکھ'' کے مغربی اتحادی اور غمگسار دھیرے دھیرے فاصلے بڑھانے لگے ہیں۔ اسرائیل کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ عرب اور یورپی ذرائع ابلاغ بھی اس حقیقت کوتسلیم کرنے لگے ہیں کہ مغرب اور اسرائیل کے درمیان دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں'' العربیہ ڈاٹ نیٹ ''نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ تل ابیب امریکا اور یورپ پرانحصار کرنے کے بجائے نئے دوستوں کی تلاش میں ہے۔ اس حوالے سے اس کی نظریں ان دِنوں روس پرمرکوز ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روس فلسطینی تنظیم حماس کی کھلے عام حمایت کر رہا ہے، لہٰذا ماسکو کی حماس بارے پالیسی تبدیل کرانا اگرناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔

امریکا اور مغرب میں دوری کا اندازہ حال ہی میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری تنازع کے حل کے سلسلے میں طے پائی ڈیل سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو، وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبر مین اور تمام سفیروں کی افرادی قوت ایران سے معاہدہ روکنے کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ نیتن یاھو چیخ چیخ کردنیا کو ایرانی جوہری خطرے پر انتباہ کر رہے تھے، لیکن مغربی طاقتیں حتیٰ کہ امریکا ، فرانس اور برطانیہ نے بھی اسرائیل کو وہ اہمیت نہیں دی جو ماضی میں دی جاتی رہی ہے۔ یورپ کی جانب سے اسرائیل کے حوالے سے تبدیلی ایک اور پہلو سے بھی آ رہی ہے۔ یورپی یونین نے حال ہی میں ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت یورپی منڈی میں اسرائیل کی ان مصنوعات کی فروخت پرپابندی عائد کی جائیگی جو فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس کے اسرائیلی کارخانوں میں تیار کی جاتی ہیں۔ یورپی یونین نے ایک سال قبل اس قانون کی تیاری شروع کی تھی، جو منظور ہوچکا ہے، امکان ہے کہ رواں سال کے اختتام یا 2014ء کے اوائل میں اسے نافذ العمل بھی کرلیا جائے گا۔ اسرائیل اس قانون کا نفاذ روکنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی کر رہا ہے لیکن فی الحال اسے اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں