بزمِ طارق عزیز ایک عہد جو تمام ہوا

طارق عزیز نے اپنی تمام تر دولت وفات کے بعد پاکستان کو وقف کر دینے کی وصیت کر رکھی تھی

ali.dhillon@ymail.com

یہ دنیا کا دستور ہے کہ ہمیشہ انھیں ہی یاد رکھا جاتا ہے، جن کے اعمال،اعضا اور کردار سے دوسرے محفوظ رہے ہوں، ایسے لوگ مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔ براڈ کاسٹر طارق عزیز بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے تھے، میری اُن سے آخری بالمشافہ ملاقات 2سال قبل ایک مشترکہ دوست کی بیٹی کی شادی پر ہوئی تھی ، اُن کی صحت بظاہر ٹھیک لگ رہی تھی لیکن ماضی کی نسبت اب انھیں گھر سے زیادہ دیر تک باہر رہنا، اور مسلسل شور وغل میں رہنا پسند نہیں تھا، اس لیے انھوں نے فوری طور پر ہم سے اور میزبان سے اجازت چاہی اوررسمی فوٹو شوٹ کے بعد جلدی جلدی گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔

اندازہ نہیں تھا کہ اپنے وقت کے عظیم کمپیئر، منفرد ٹی وی اینکر، دانشور، شاعر، سیاستدان اور عظیم دوست صفت انسان سے آخری ملاقات ہے۔ اب جب کہ وہ ہم میں نہیں ہیں تو اُن کے چلے جانے سے یقینا ایک خلا پیدا ہوگیاہے۔

میری اور اُن کی عمر میں کم و بیش پچیس تیس سال کا فرق تھا، اس لیے اُن کا احترام کرنا مجھ پر واجب تھا، کسی محفل میں بیٹھے بیٹھے اگر اُنہیںکسی بات پر غصہ آجاتا (وہ اکثر سیاسی حالات پر گفتگو کرتے غصے میں آجاتے تھے)تو ہم خاموش ہو جاتے کہ چلیں وہ پہلے اپنا غصہ ٹھنڈا کرلیں اور مکمل طور پر دل کی بھڑاس نکال لیں۔

طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا 1970کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں ان کا فعال کردار تھا۔ بعدازاں وہ اپنی پی ٹی وی اور فلم کی مصروفیات کے باعث سیاست کو وقت نہ دے سکے۔ بھٹو کے وارثان و قائمقامان کی سیاست سے دوسرے مخلص ساتھیوں کی طرح دل برداشتہ ہو گئے اور پی پی پی سے اپنی وابستگی ختم کر دی۔ بعدازاں میاں نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور 1997 میں لاہور سے ایم این اے منتخب ہوئے۔

پھر اُن کی علیک سلیک جنرل ضیاء الحق کے ساتھ بھی رہی تھی، لیکن دوستوں میں وہ اس ''غلطی'' کا اعتراف بھی کرتے نظر آتے تھے، الغرض طارق عزیز صاحب پاکستان پیپلز پارٹی (بھٹو)، ضیاء، ن لیگ تینوں جماعتوں میں رہے اور اسی وجہ سے انھیں بار بار پی ٹی وی کی نوکری سے ہاتھ بھی دھونا پڑے، 1997 کے الیکشن میں جب انھوں نے ن لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا تو ان کے مقابلے میں نئے نویلے سیاستدان عمران خان تھے ، اس الیکشن میں طارق عزیز کو 50ہزار ووٹ ملے جب کہ عمران خان کو پانچ ہزار کے قریب۔

وہ ن لیگ میں کچھ کرنے کے لیے بے قرار تھے، خاص طور پر وہ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے خاصے پریشان رہتے تھے، انھوں نے اس کا اظہار اعلیٰ قیادت سے بھی کیا، لیکن اُن کی کسی پلیٹ فارم پرسنوائی نہ ہوئی جس سے وہ خاصے دلبرداشتہ ہوئے۔

اُس کے بعد جب پرویز الٰہی کا دور آیا تو انھوں نے تعلیم کے حوالے سے پنجاب میں بہتری دیکھی تو مجھے یاد ہے کہ ایک نشست میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب اور پچاس کروڑ کے قریب ہے گویا دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے اور اس کے مقابلے میں یہودی چند کروڑ ہیں ہم ایک ارب پچاس کروڑ اور وہ چند کروڑ اور پچھلے 100 سال میں 200 میں سے 180 نوبل پرائز یہودیوں کے پاس ہیں اور آپ کے پاس صرف 2 ہیں ۔انھوں نے کہا کہ دنیا کی معیشت ان کے ہاتھ میں ہے۔

کارل مارکس یہودی تھا، پینسلین بنانے والا یہودی تھا، دنیا کی اکنامکس کو اس وقت یہودی کنٹرول کر رہے ہیں،وہ کہتے کہ آپ کے بچوں کا دودھ تک یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس پر قبضہ کر چکی ہیں جس دن چاہیں گے آپ کے بچوں کو بھوکا مار دیں گے حالانکہ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن پھر بھی آپ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مرہون منت رہیں گے!طارق عزیز کہا کرتے تھے کہ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن گندم باہر سے آتی ہے زرعی ملک ہے چاول اور دودھ باہر سے آتا ہے، لہٰذایہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں کے کسان کے چہرے پر خوشی نہیں ہے آنکھوں میں روشنی نہیں ہے اس کا بچہ اسکول نہیں جا سکتا ۔

خیر ملاقاتیں تو بہت سی رہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ ہم انھیں ایک عرصے تک اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے، اُن کی جہاں بھی آمد متوقع ہوتی ہم وہاں پہنچ جاتے اور ویسے بھی زمانہ طالب علمی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر کیے جانے والے سوال و جواب کے انعامی شو نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔

اس لیے جوانی کے دنوں میں مجھ سمیت 99فیصد نوجوانوں کے لیے وہ رول ماڈل تھے۔اپنی مایہ ناز صداکاری کے لیے انھوں نے بہت عروج پایا اور یہی وجہ تھی کہ جب 1964 میں پاکستان ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز ہی پی ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر تھے۔ تاہم 1975 میں شروع کیے جانے والے ان کے اسٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا اور اسے بعد میں بزمِ طارق عزیز شو کا نام دے دیا گیا۔یہی شو مسلسل چار دہائیوں تک ادب کے موتی بکھیرتا رہا۔


آج کی نوجوان نسل میں باید وشاید ہی کوئی ایسا ہو جو '' نیلام گھر''یا '' طارق عزیز'' کے سحر میں مبتلا نہ ہو۔ انھوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور ملک کے لیے نام پیدا کیا۔ ایسے ہی لوگ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں ،جن کا مقصد حیات ذاتی نہیں ''ملی'' ہوتا ہے، جو اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جیتے ہیں پھر زمانہ انھیں کبھی فراموش نہیں کرتا۔ طارق عزیز کو جب بھی یاد کیا جائے گا فخر سے یاد کیا جائے گا۔ بصد ادب ! اگرچہ اس حوالے سے ہماری روایت کچھ اچھی نہیں لیکن امید ہے کہ طارق عزیز اس حوالے سے خوش نصیب واقع ہوں۔

انھیں شعر و شاعری سے بھی خاصا شغف رہا، اسی لیے اکثر وہ خود کو حسن پرست بھی کہا کرتے تھے۔ وہ کہتے کہ حسن پرستی تو مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور خوبصورتی کا میں دلدادہ ہوں۔ انھوں نے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے خاندان میں شادی کی۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ''داستان'' کے نام سے ہے اورپنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ''ہمزاد دا دکھ'' شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے نہ صرف اردو بلکہ اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی ہے۔اُن کی ایک آزاد نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

دوست یہ تو کی ہے تو نے بچوں کی سی بات

جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبوؤں کے بھید

اس میں دل پر گہرے درد کا بھالا کھانا پڑتا ہے

ہنستے بستے گھر کو چھوڑ کے بن میں جانا پڑتا ہے

طارق عزیز نے ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت (1967 ) تھی اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔پھر انھوں نے شوبز چھوڑ دیا۔ جس پر اُن کا کہنا تھا کہ وہ بہت خوبصورت دنیا تھی۔ کبھی کبھی جی میں آتا ہے کہ وہ کیوں چھوڑ کر میں چلا آیا۔

انھیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1992میں حسن کارکردگی کے صدارتی تمغے سے بھی نوازا گیا۔ وہ مسحور کن شخصیت کے مالک تھے اور ناظرین و حاضرین کو اپنی گفتگو کے سحر میں لینے کا ملکہ رکھتے تھے۔ پی ٹی وی کراچی کے سابق جی ایم قاسم جلالی نے طارق عزیز کی بحیثیت پروگرام کمپئیر فنی صلاحیتوں کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔

''ان دنوں جب کہ پروگرام ریکارڈ کرنے کی بجائے براہ راست چلائے جاتے تھے،طارق عزیز کو سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔ پروگرام شروع کرنے کے بعد کسی اداکار یا کردار نے آنا ہوتا تھا اور اسے آنے میں تاخیر ہوجاتی تو طارق عزیز دیکھنے والوں کو اپنی ایسی باتوں میں لگا لیتے کہ تاخیر محسوس ہی نہیں ہوتی تھی ، یوں تاخیر کا عرصہ کمال خوبی سے ازخود نکل جاتا تھا۔''

بہرکیف گزشتہ روز علم و ادب اور فن اداکاری و صداکاری کی عہد ساز شخصیت 84 برس کی عمر میں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملی اور اس دار فانی کو خیر باد کہہ دیا، طارق عزیز نے اپنی تمام تر دولت وفات کے بعد پاکستان کو وقف کر دینے کی وصیت کر رکھی تھی، ایسی شخصیات پر لکھنا باعث شرف اس لیے بھی ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی دوسروں کے لیے رول ماڈل بن جائے ، اور لوگ بھی ایسی لیجنڈری زندگی گزارنے کو ترجیح دیں کہ جب تک وہ زندہ ہوں اپنے بچوں کو اُن کی کہانیاں سناتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ طارق عزیز صاحب کے درجات بلند فرمائے (آمین)
Load Next Story