صرف نصف صدی
کیا ہم پر یہ پابندی عائد ہوگئی ہے کہ تاریخ کو یکسر نظرانداز کرکے تاریخ و معاشرت کے خلا میں زندگی گزارتے رہیں؟
آج کل پی ٹی وی پر سلطنت عثمانیہ (ترکیہ) کے بانی عثمان کے والد ارتغرل غازی کی ترک و تازیوں پر مشتمل ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے جو ارتغرل کی فوجی اور سیاسی کارناموں کی آئینہ داری کرتا ہے۔ اس مرد حق کے اقدامات کے باعث مسلم تاریخ میں عثمانی ترکوں کی سلطنت کا قیام اور چھ سو سال کی ان کی حکمرانی کااستمرار قائم ہوا اور پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک ترک دنیا میں مسلم سیاسی قیادت کی نمایندگی کرتے رہے۔ پورا یورپ ان کے خلاف نبرد آزما رہا اور جنگ عظیم اول کے نتیجے میں سلطنت ترکی کے حصے بخرے کرکے ترکوں کو ان کی ملکی حدود تک محدود کردیا گیا۔ وہ شکست تو کھا گئے مگر ایک مردانہ وجاہت کے ساتھ۔ اس لیے علامہ اقبال نے کہا ہے:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
ترک خاک و خون میں ملتے رہے مگر اسلام کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہے آج بھی ترکوں کا وجود غیر مسلم دنیا میں خوف و ہراس کا باعث ہے۔
مگر حیرت ہے کہ اس ڈرامے کو دکھائے جانے پر متعدد حلقوں کی طرف سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ اعتراضات اس قدر بچکانہ اور بلاجواز ہیں کہ ان کی تردید میں کچھ کہنا وقت کا ضیاع کرنا ہے مگر اس پر خاموش رہنا بھی حوصلے کی بات ہے۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس ڈرامے کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے اس میں جنگ و جدل اور خون ریزی کے علاوہ کیا رکھا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو دوسری جنگ عظیم کی مفروضہ فلمیں دیکھتے رہتے ہیں اور بمباری اور خون ریزی کے مناظر دیکھ دیکھ کر ہٹلر کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں وہ اس ڈرامے کی دلیرانہ سرگرمیوں کو خون ریزی قرار دے رہے ہیں۔
دوسرا پھس پھسا اعتراض یہ ہے کہ یہ ڈرامہ ترکی معاشرت ترکی طرز بودو بلند اور انداز رہائش کو پیش کرتا ہے اس کا ہم سے اور ہماری معاشرت سے کیا تعلق؟
سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف اپنی معاشرت دیکھنا پسند کرتے ہیں دوسری معاشرتوں سے آگاہی حرام تو نہیں ہے۔ پھر ترکی معاشرت کو اجنبی، نامانوس یا غیر متعلق قرار دینا ناقابل فہم بات ہے۔ ہماری معاشرت کی تعمیر و تشکیل میں ترکی عناصر کا بڑا دخل ہے۔ برصغیر کی مسلم تہذیب و معاشرت پر جتنے ترکی اثرات ہیں اتنے عربی اور فارسی اثرات بھی شاید نہ ہوں۔
یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مغل تغلق ہوں، خلجی ہوں یا برصغیر کے دیگر حکمران، چند کو چھوڑ کر سب ترکی النسل رہے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ترکی کھانے، ترکی لباس، ترکی انداز نشست و برخاست اور ترک آداب حکمرانی لائے اور آج برصغیر کی مسلم تہذیب بڑی حد تک ترک عناصر کی مرہون منت ہے۔ اس لیے یہ کہنا کسی طور مناسب نہیں کہ یہ اجنبی تہذیب ہمارے کس کام کی۔ کیوں کہ یہ تہذیب نہ ہمارے لیے اجنبی ہے نہ ہم اس سے یکسر روگردانی کرسکتے ہیں۔
جن ترکوں نے برصغیر پر کئی صدیوں تک حکمرانی کی ہو کیا وہ یہاں اپنے کچھ بھی اثرات مرتب نہ کرپائے ہوں گے۔ ہماری طرز زندگی میں ترک عناصر جابجا نظر آتے ہیں۔ طرز تعمیر میں، حوصلہ مندی میں، سیاسی سوجھ بوجھ میں اور انداز حکمرانی میں ہم ترکوں کے انداز کے اسیر ہیں۔
ترک ایک عرصے تک مسلم اتحاد کی علامت اور دنیا میں مسلم حکمرانی کا نشان بنے رہے ہیں۔ اس لیے ان کی ان سرگرمیوں سے آگاہی جنھوں نے ان کو مسلم دنیا میں اعتبار عطا کیا تھا ہمارے لیے ضروری ہے ہم اس سے غافل کس طور پر رہ سکتے ہیں۔
حیرت ہے کہ مسلم تمدن کو ترکوں کی دین سے کس طرح بے نیازرہا جا سکتا ہے اور تین چار صدیوں پر مشتمل ان کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے اثرات سے کیوں کر انکار کیا جاسکتا ہے۔
ایک اور دلچسپ اعتراض یہ ہے کہ یہ ڈرامہ یا فلم بادشاہت کے انداز حکمرانی کو پیش کرتی ہے اس لیے اس ''بادشاہ پسندی'' کو ہم اپنی نسل کو کیوں دکھائیں۔
حضور یہ اس لیے دکھائیں کہ جس ذہن کا یہ اعتراض آفریدہ ہے اس ذہن نے یورپ کے بادشاہوں کی نہ جانے کتنی فلمیں دیکھی ہوں گی۔ ہم خود برطانیہ کی موجودہ ملکہ کی حکمرانی کے تحت رہ چکے ہیں۔ آدھے یورپ میں اب بھی برائے نام ہی سہی بادشاہت موجود ہے۔ فلم دیکھنے سے بادشاہت لوٹ کر نہیں آئے گی۔
یہ ذہن میں رہے کہ ایک صدی پہلے تک بادشاہت بھی واحد طرز حکمرانی رہی ہے۔ بادشاہت صدیوں تک ایک ناگزیر برائی اور کامیاب طرز حکمرانی کے طور پر دنیا میں رائج رہی ہے بالکل اسی طرح جس طرح جمہوریت اس وقت ناگزیر برائی اور بہترین طرز حکمرانی ہے۔ اور جب تک اس کا مناسب متبادل نہ مل جائے جمہوریت ہی کامیاب طرز حکمرانی سمجھی جاتی رہے گی لیکن سیاسیات کے طالب علم عملی طور پر خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جمہوریت کی کمزوریاں کیا ہیں۔ اس کی خامیاں کس قدر ہیں اور اس کے نقصانات سے بچنا بظاہر ممکن نہیں ہے مگر ہے یہ بھی وقت کی ضرورت اور ہمارے عہد کی ناگزیر برائی اور بہترین طرز حکمرانی۔
یہ بھی غور طلب مسئلہ ہے کہ کیا آج کل کے جمہوری معاشرے میں جینے کے طفیل ہم پر یہ پابندی عائد ہوگئی ہے کہ ہم ماضی کی تاریخ کو یکسر نظرانداز کردیں اور تاریخ و معاشرت کے خلا میں زندگی گزارتے رہیں۔
یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ انسان نے تجربات کے ذریعے یہاں تک رسائی حاصل کی ہے اور ہزاروں سالہ زندگی میں مثالی طرز حکمرانی کی نصف صدی بھی اس کا مقدر نہ بن سکی۔
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
ترک خاک و خون میں ملتے رہے مگر اسلام کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہے آج بھی ترکوں کا وجود غیر مسلم دنیا میں خوف و ہراس کا باعث ہے۔
مگر حیرت ہے کہ اس ڈرامے کو دکھائے جانے پر متعدد حلقوں کی طرف سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ اعتراضات اس قدر بچکانہ اور بلاجواز ہیں کہ ان کی تردید میں کچھ کہنا وقت کا ضیاع کرنا ہے مگر اس پر خاموش رہنا بھی حوصلے کی بات ہے۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس ڈرامے کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے اس میں جنگ و جدل اور خون ریزی کے علاوہ کیا رکھا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو دوسری جنگ عظیم کی مفروضہ فلمیں دیکھتے رہتے ہیں اور بمباری اور خون ریزی کے مناظر دیکھ دیکھ کر ہٹلر کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں وہ اس ڈرامے کی دلیرانہ سرگرمیوں کو خون ریزی قرار دے رہے ہیں۔
دوسرا پھس پھسا اعتراض یہ ہے کہ یہ ڈرامہ ترکی معاشرت ترکی طرز بودو بلند اور انداز رہائش کو پیش کرتا ہے اس کا ہم سے اور ہماری معاشرت سے کیا تعلق؟
سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف اپنی معاشرت دیکھنا پسند کرتے ہیں دوسری معاشرتوں سے آگاہی حرام تو نہیں ہے۔ پھر ترکی معاشرت کو اجنبی، نامانوس یا غیر متعلق قرار دینا ناقابل فہم بات ہے۔ ہماری معاشرت کی تعمیر و تشکیل میں ترکی عناصر کا بڑا دخل ہے۔ برصغیر کی مسلم تہذیب و معاشرت پر جتنے ترکی اثرات ہیں اتنے عربی اور فارسی اثرات بھی شاید نہ ہوں۔
یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مغل تغلق ہوں، خلجی ہوں یا برصغیر کے دیگر حکمران، چند کو چھوڑ کر سب ترکی النسل رہے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ترکی کھانے، ترکی لباس، ترکی انداز نشست و برخاست اور ترک آداب حکمرانی لائے اور آج برصغیر کی مسلم تہذیب بڑی حد تک ترک عناصر کی مرہون منت ہے۔ اس لیے یہ کہنا کسی طور مناسب نہیں کہ یہ اجنبی تہذیب ہمارے کس کام کی۔ کیوں کہ یہ تہذیب نہ ہمارے لیے اجنبی ہے نہ ہم اس سے یکسر روگردانی کرسکتے ہیں۔
جن ترکوں نے برصغیر پر کئی صدیوں تک حکمرانی کی ہو کیا وہ یہاں اپنے کچھ بھی اثرات مرتب نہ کرپائے ہوں گے۔ ہماری طرز زندگی میں ترک عناصر جابجا نظر آتے ہیں۔ طرز تعمیر میں، حوصلہ مندی میں، سیاسی سوجھ بوجھ میں اور انداز حکمرانی میں ہم ترکوں کے انداز کے اسیر ہیں۔
ترک ایک عرصے تک مسلم اتحاد کی علامت اور دنیا میں مسلم حکمرانی کا نشان بنے رہے ہیں۔ اس لیے ان کی ان سرگرمیوں سے آگاہی جنھوں نے ان کو مسلم دنیا میں اعتبار عطا کیا تھا ہمارے لیے ضروری ہے ہم اس سے غافل کس طور پر رہ سکتے ہیں۔
حیرت ہے کہ مسلم تمدن کو ترکوں کی دین سے کس طرح بے نیازرہا جا سکتا ہے اور تین چار صدیوں پر مشتمل ان کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے اثرات سے کیوں کر انکار کیا جاسکتا ہے۔
ایک اور دلچسپ اعتراض یہ ہے کہ یہ ڈرامہ یا فلم بادشاہت کے انداز حکمرانی کو پیش کرتی ہے اس لیے اس ''بادشاہ پسندی'' کو ہم اپنی نسل کو کیوں دکھائیں۔
حضور یہ اس لیے دکھائیں کہ جس ذہن کا یہ اعتراض آفریدہ ہے اس ذہن نے یورپ کے بادشاہوں کی نہ جانے کتنی فلمیں دیکھی ہوں گی۔ ہم خود برطانیہ کی موجودہ ملکہ کی حکمرانی کے تحت رہ چکے ہیں۔ آدھے یورپ میں اب بھی برائے نام ہی سہی بادشاہت موجود ہے۔ فلم دیکھنے سے بادشاہت لوٹ کر نہیں آئے گی۔
یہ ذہن میں رہے کہ ایک صدی پہلے تک بادشاہت بھی واحد طرز حکمرانی رہی ہے۔ بادشاہت صدیوں تک ایک ناگزیر برائی اور کامیاب طرز حکمرانی کے طور پر دنیا میں رائج رہی ہے بالکل اسی طرح جس طرح جمہوریت اس وقت ناگزیر برائی اور بہترین طرز حکمرانی ہے۔ اور جب تک اس کا مناسب متبادل نہ مل جائے جمہوریت ہی کامیاب طرز حکمرانی سمجھی جاتی رہے گی لیکن سیاسیات کے طالب علم عملی طور پر خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جمہوریت کی کمزوریاں کیا ہیں۔ اس کی خامیاں کس قدر ہیں اور اس کے نقصانات سے بچنا بظاہر ممکن نہیں ہے مگر ہے یہ بھی وقت کی ضرورت اور ہمارے عہد کی ناگزیر برائی اور بہترین طرز حکمرانی۔
یہ بھی غور طلب مسئلہ ہے کہ کیا آج کل کے جمہوری معاشرے میں جینے کے طفیل ہم پر یہ پابندی عائد ہوگئی ہے کہ ہم ماضی کی تاریخ کو یکسر نظرانداز کردیں اور تاریخ و معاشرت کے خلا میں زندگی گزارتے رہیں۔
یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ انسان نے تجربات کے ذریعے یہاں تک رسائی حاصل کی ہے اور ہزاروں سالہ زندگی میں مثالی طرز حکمرانی کی نصف صدی بھی اس کا مقدر نہ بن سکی۔