اسٹیٹ بینک کی کام یاب’روزگار‘ اسکیم
اسٹیٹ بینک کو غیر روایتی طرز کے ان اقدامات کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے ان کا دائرہ مزید وسیع کرنا چاہیے
نجی سیکیورٹی سروسز کے لیے کورونا وائرس وبا بیک وقت کئی مسائل کا باعث بنی۔ کاروبار کی بندش سے صنعتوں اور کاروباری اداروں کی آمدن کم ہوئی اور اس کے نتیجے میں انھیں گارڈز کی تعداد میں کمی کرنا پڑی۔ لاک ڈاؤن اور بینکوں کی کئی شاخوں کے جزوی طور پر بند ہونے کے باعث نقدی کی منتقلی میں 35 فی صد کمی واقع ہوئی۔
غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔ اس سے قبل کسی وبا نے بیک وقت انسانی جانوں اور دنیا کی مجموعی معیشت کے لیے اتنا بڑا چیلنج کھڑا نہیں کیا تھا۔ وبا سے قبل بھی ہماری کم و بیش نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ خوراک کی قیمتیں محض سیاسی مسئلہ نہیں یہی انسانی جانوں کی بقا کا سوال ہے۔ اس سے قبل بھی ایک کالم میں یہ تذکرہ آچکا ہے کہ ''ایک بہترین مالیاتی پالیسی کے اعلان کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اسٹاک مارکیٹ کی بڑی مچھلیوں کی ''شرح منافع'' پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے کچھ بے باکانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔'' خوش قسمتی سے یہ صورت حال پہلے ہی ہمارے مالیاتی منصوبہ سازوں کے زیر غور تھی۔ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر اور ان کی ٹیم نے معیشت کو سہارا دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔
ملک کے معاشی استحکام کے لیے کئی غیرروایتی حل تلاش کرنے کی ضرورت تھی اور اسٹیٹ بینک نے لوگوں کا روزگار بچانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ 10اپریل کو جاری کیے گئے سرکلر 6 کے ذریعے ''ملازمین اور کارکنان کی تنخواہوں اور اجرتوں کی ادائیگی'' کے لیے عارضی ریفنانس اسکیم کا اجرا کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد کورونا وبا کے باعث کاروباری خسارے کے بعد کاروباری و صنعتی اداروں کو ملازمین کو برطرفی سے روکنے کے لیے مراعات فراہم کرنا تھا۔
اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو بہت سے معلومات خفیہ رکھنا پڑتی ہے۔ اس کے برعکس حالیہ دنوں میں کیے گئے اقدمات کو کام یاب بنانے کے لیے شفافیت اور معلومات تک رسائی ضروری ہے۔ اس اسکیم کے لیے اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ثمر حسنین کو ترجمان مقرر کیا گیا۔ ان کے ساتھ جن 15شہروں میں اسٹیٹ بینک کے دفاتر ہیں وہاں سے منتخب کردہ افسران کی ایک ٹیم بھی انھیں دی گئی۔ اس ٹیم کا مقصد اسٹیٹ بینک کی روزگار اسکیم سے رجوع کرنے والوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ چیمبر آف کامرس اور دیگر کاروباری تنظیموں کو بھی مشاورت، سوالوں کے جوابات یا شکایت کے ازالے کے لیے اس عمل کا حصہ بنایا گیا۔
ثمر حسنین اور ان کی ٹیم نے پورے پاکستان میں ویڈیو لنک کے ذریعے روزانہ کی بنیادوں پر صورت حال کی نگرانی کی اور اس بروقت اسکیم پر فوری عمل درآمد کرکے ہر طرح کے ملازمین کو اس کا فائدہ پہنچانے کے لیے موثر اقدامات کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ درخواستوں پر ضابطے کی کارروائی بھی مکمل کی گئی۔
یہ اسکیم ان کاروباری اداروں کے لیے تھی جنھوں نے اپریل تا جون 2020تک ملازمین برطرف نہیں کیے تھے۔ ملازمتیں برقراررکھنے کے لیے 2227کمپنیوں نے مجموعی طور پر 13لاکھ 28ہزار 793ملازمین کے لیے 137اعشاریہ 31ارب روپے کے قرضے حاصل کرنے کی درخواستیں دیں۔ 12جون تک 1503کمپنیوں کے لیے 107.49 ارب روپے کے قرضے کی منظوری ہوئی ، ان کمپنیوں کے مجموعی ملازمین کی تعداد 10لاکھ 44ہزار 82بنتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کمیٹی نے بحران کے ابتدائی دو ماہ میں شرح سود میں 5.25(پانچ اعشاریہ دو پانچ فی صد) کمی کی۔ لیکوڈٹی کو برقرار رکھنے کے لیے پرنسپل ری پیمنٹس میں توسیع ، پے رول فنانسنگ اور دیگر اقدامات کیے گئے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے مالیاتی معاونت کے اقدامات میں معاونت کرتے ہوئے کم آمدن والے گھرانوں، چھوٹے اور متوسط کاروبار اور تعمیراتی شعبے کے لیے متعارف کردہ اسکمیوں میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ عالمی برادری کی مدد میں بھی معاونت کی۔ ان اقدامات سے مالیاتی توازن، روزگار اور شرح نمو کو سہارا ملا۔ باہم مربوط اور وسیع البنیاد پالیسیوں نے کاروبار اور صنعت کو موجودہ بحران میں اپنا توازن برقراررکھنے میں مدد فراہم کی۔
ابتدا میں تنخواہ اور اجرتوں کے لیے 20کروڑ تک کی سو فیصد فنانسنگ دی گئی لیکن بعدازاں 11مئی کو متوسط اور چھوٹے کاروبار کے لیے مکمل اجرت اور تنخواہوں کی تین ماہ کی اوسط کے لیے اسے بڑھا کر 50کروڑ کردیا گیا۔ اپریل، مئی اور جون 2020کے لیے ابتدائی طور پر زیادہ سے زیادہ ساڑھے 37کروڑ تک کے لیے 75فی صد اور 50کروڑ کے لیے 50فی صد فنانسنگ کی سہولت دے دی گئی۔ ایسے کاروبار جن کے تین ماہ کے اجرتوں کے اخرات کی اوسط 50کروڑ بنتی تھی ان کے لیے 75فی صد اضافے کے ساتھ فنانسنگ کی حد 1ارب روپے کردی گئی۔ ایسے ادارے جنہوں نے سابقہ اعلان کے مطابق کم فنانسنگ حاصل کی تھی اور نظر ثانی شدہ معیارات کے مطابق اضافی فنانسنگ کے لیے رجوع کرسکتے ہیں۔
خدمات کے شعبے میں ہمیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ہم اپنے کئی ہزار ملازمین میں سے کم از کم 15فی صد(15سو) بلو کالر ورکرز کو فارغ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
اسٹیٹ بینک کو غیر روایتی طرزکے ان اقدامات کا سلسلہ برقرار رکھنے کے ساتھ ان کا دائرہ مزید وسیع کرنا چاہیے۔ تیزی سے رقم کی فراہمی کے لیے بینک کو ری فنانسنگ کی سہولت کو درخواست کنندہ کی رضا مندی کے ساتھ موجودہ اسکیم کی سب لمٹ میں شامل کرنے کی اجازت دینی چاہییے۔ ذیلی درجہ بندیاں کرکے قرضوں کی فراہمی سے رقم کے اجرا سے قبل اور بعد کے لیے ضروری کارروائی میں کئی سہولتیں اور آسانیاں پیدا ہوجائیں گی اور ان مشکل حالات میں فوری نتائج بھی برآمد ہوپائیں گے۔
فی الحال اسٹیٹ بینک کی جانب سے تنخواہوںمیں اپریل تا جون تک کے عرصے کے لیے ری فنانسنگ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے تاہم ریاستی اداروں کے مطابق ملک میں وبا کا عروج جولائی یا اگست میں ہو گا۔ اس کے علاوہ 31جولائی یا یکم اگست کو عید آرہی ہے جس کے لیے تہوار سے قبل ہی تنخواہیں دینا ہوں گی۔
اس لیے اسٹیٹ بینک کو موجودہ اسکیم میں تین ماہ کی توسیع کرکے اسے جولائی تا ستمبر 2020تک وسیع کرنا چاہیے۔ ایس ای سی پی کے سرٹیفکیٹ اور دیگر شرائط میں بھی نرمی لانی چاہیے۔ خاص طور پر بینکوں کے دیرینہ کلائنٹ اور اچھی شہرت رکھنے والوں کے کئی شرائط نرم کی جاسکتی ہیں۔ اگر قرضوں کی فراہمی میں سہولت اور آسانیاں پیدا نہیں کی گئیں تو کئی لوگ استفادہ کرنے سے محروم رہیں گے اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جاری کردہ اسکیم کے مقاصد بھی حاصل نہیں ہوپائیں گے۔
دیگر ریاستی اداروں میں عام طور پر سیاسی آقاؤں کے خدمت گزار ان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک انتہائی خوش قسمت ادارہ رہا ہے اور اسے اچھے گورنر ملتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر رضا باقر دنیا کے معاشی حالات کے تناطر میں تازہ فکر رکھنے والے گورنر کی حیثیت سے ایک منفرد مثال ہیں۔
وبا نے عالمی تغیرات کو تباہ کُن شکل دے دی ہے۔ بحران میں باصلاحیت افراد ہی قدم جمائے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رضا باقر اسٹیٹ بینک میں نئی روح پھونک رہے ہیں اور یہ ادارہ ملک کی ڈانواں ڈول معیشت کے لیے امید کی کرن بن چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ان موثر اور غیر روایتی پالیسیوں سے استفادہ کرنے والوں کو یہ کہنے میں کوئی ہچکچکاہٹ نہیں ہوگی کہ اس ادارے نے قابلیت، اہلیت اور مشکل حالات میں فوری فیصلے کرکے ہزاروں لوگوں کا روزگار بچایا ہے۔ خواہش ہے کہ ملک کے دیگر ادارے بھی اس مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)