طارق عزیز پیر کبیر اور تاجور نعیمی کی رخصتی
تین نامورشخصیات کا مشترکہ تعزیت نامہ
SARGODHA:
پاکستان میں ''نیلام گھر '' ٹی وی پروگرام اور اس کے کمپیئر طارق عزیز ایک ہی سکّے کے دو رُخ سمجھے جاتے تھے۔ افسوس جناب طارق عزیز اب ہم میں نہیں رہے۔جونہی اُن کی عمر چوراسی سال ہُوئی،اللہ نے اُنہیں اپنے پاس بلالیا ۔ بے شک ہم سب کو اپنے اللہ ہی کی طرف لَوٹ کر جانا ہے ۔
اپنی آواز ، اپنے علم اور اپنے فن کی بنیاد پر طارق عزیز نے کئی عشروں تک وطنِ عزیز میں جادو جگائے رکھا۔ یوں وہ سارے ملک کے عزیز بن چکے تھے ۔ ہر گھر میں گونجتا ایک البیلا اور شناسا نام۔نہیں معلوم طارق عزیز نے کتنے ہی لوگوں کے دلوں میں محبت، اُمید اور خوشی کی جوت جگائی ہوگی۔ ''نیلام گھر'' کے ہر پروگرام کے آخر میں وہ جس والہانہ اور مسرت بھرے لہجے میں پاکستان کی محبت کا نعرہ لگاتے ، دشمنوں کے دل دہل جاتے تھے ۔
یہ کہنا شائد مبالغہ نہ ہوگا کہ طارق عزیز صاحب کو اپنے ٹی وی پروگرام کے توسط سے جتنی مقبولیت اور محبوبیت ملی ، ایسا اعزاز پاکستان کے کسی اینکر یا ہوسٹ کے حصے میں ابھی تک نہیں آ سکا ۔ طارق عزیز ملک بھر میں بس ایک ہی طارق عزیز تھے ۔ نیلام گھر والے طارق عزیز ۔ وہ بیک وقت سیاستدان بھی رہے ، بہترین شاعر بھی، منفرد اداکار بھی، اخباری کالم نگار بھی اور پارلیمنٹ کے رکن بھی۔ہر میدان میں اُنہوں نے اپنی ذات کا لوہا منوایا ۔ اُن کی اہم ترین پہچان مگر نیلام گھر والے طارق عزیز کی رہی۔ نوجوانی میں ذوالفقار علی بھٹو کے عاشق رہے ، جیسا کہ لاتعداد پاکستانی نوجوان بھٹو کو دل دے بیٹھے تھے ۔
آمریت کے سخت مخالف تھے لیکن تقدیر کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک آمر کے گیارہ سالہ جبریہ دَور ہی میں اُن کی شخصیت اور فن کو فروغ ملا ۔ اُن کی پنجابی شاعری کے مجموعے ''ہمزاد دا دکھ'' میں ترقی پسندی کا رنگ جھلکتا ہے۔ معاشرے میں مروج ہر قسم کے جبر اور ظلم کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرتا ہُوا طارق عزیز ۔ رحلت سے قبل ہی اُنہوں نے اپنے نجی اثاثے قوم کے نام وقف کر دیے تھے۔ وطن کے ایسے عاشق سیاستدان اور آرٹسٹ اب کہاں ؟
طارق عزیز صاحب مرحوم سے راقم کی لاتعداد ملاقاتیں رہیں ۔ تین چار بار مَیں نے اُن کے انٹرویو بھی کیے ۔ ایک بار اُنہوں نے میرے ایڈیٹر سے سخت لہجے میں میری شکایت بھی کی تھی کہ یہ صحافی'' نامناسب'' اسلوب میں سوال پوچھتا ہے ۔ وہ میاں محمدنواز شریف کی پارٹی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہُوئے (اُنہوں نے عمران خان کو شکست دی تھی) تو اُن دنوں راقم لاہور کے ایک قومی اخبار سے وابستہ تھا۔ جب بھی ہمارے دفتر تشریف لاتے، مجھے ملاقات کا شرف ضرور عطا کرتے۔بطورِ رکن قومی اسمبلی مگر اُنہوں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دیا ، حالانکہ ہم لوگوں نے اُن سے اونچی توقعات وابستہ کررکھی تھیں ۔
میرا خیال ہے کہ وہ مروجہ سیاسی قطع کے آدمی ہی نہیں تھے ۔طارق عزیز لکھاری تو تھے ہی ، اسی ناتے کالم نگاری کا آغاز بھی کیا اور پھر ان کالموں کا مجموعہ ''ہزار داستان'' کے نام سے شائع ہُوا ۔ اُن سے ملاقات ہوتی تو راقم شرارت سے اُن سے عرض کرتا: '' آپکے کالم کا نام ''ہزار داستان '' ہے لیکن اس میں ہزار داستان والا بلبل کہیں چہکتا نظر نہیں آتا۔'' اس تنقیدی جسارت پر مجھے فرماتے :'' مولوی صاحب ، آپ نے کبھی خوش نہیں ہونا۔'' افسوس ، ہمارے الیکٹرانک میڈیا باغ کا یہ ہزار داستانوی بلبل اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا ہے ۔ اُن کی چہکار مگر وطنِ عزیز کے گلستان میں ہمیشہ بازگشت بن کر سنائی دیتی رہے گی ۔ ہم سب اُن کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔
پھیلتے کورونا وائرس کے اس مسموم موسم میں سید پیر کبیر علی شاہ صاحب ایسی رُوحانی شخصیت بھی ہم سے رخصت ہو گئی ۔ ایک بہت ہی دلکش اور دلربا ہستی ۔سچے عاشقِ رسولﷺ۔ ہمیشہ محبتیں اور دعائیں بانٹنے والے ۔ اُن کا اسم ِ گرامی کبیر علی شاہ تھا لیکن وہ تھے بھی ایک پیرِ کبیر ۔ لاہور کے کئی اخبار نویسوں سے اُن کے گہرے تعلقات تھے ۔ کئی صحافیوں کو اپنے آستانے پر مدعو کرتے اور خود بھی اُن کے پاس تشریف لاتے ۔ تحائف دینا اُنہیں مرغوب تھا ۔
کئی سال پہلے لاہور کے ایک ممتاز عالمِ دین اور بلند علمی شخصیت ، حضرت مولانا پیر یوسف صدیقی علیہ رحمہ ، کے آستانہ عالیہ پر جناب پیر سید کبیر علی شاہ صاحب سے اس ہیچمداں کی پہلی ملاقات ہُوئی تھی۔ نوجوانی کے ایام میں لاہور میں جن بزرگانِ دین اور علمائے کرام کی جوتیاں سیدھی کرنے کا مجھے اعزاز ملا، اُن میں حضرت مولانا قاری یوسف صدیقی صاحبؒ بھی شامل ہیں۔ آپکا مدرسہ( جامعہ صدیقیہ)تجوید سیکھنے والوں کے لیے سند کا درجہ رکھتا تھااور خود یوسف صدیقی صاحبؒ تجوید کی دُنیا میں استاد الاساتذہ کے بلند درجے پر فائز تھے۔
پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ قاری سید صداقت علی اُن کے شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔ ایک بار جامعہ صدیقیہ میں سیرتِ رسولﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔راقم بھی شوق سے اس عظیم رُوحانی مجلس میں شریک تھا ۔ پیر سید کبیر علی شاہ صاحب اس کانفرنس کی صدارت کررہے تھے۔ رات گئے جب یہ کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی اور لنگر تقسیم ہو چکا تو مجھے کبیر علی شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا باقاعدہ موقع ملا۔ قبلہ قاری یوسف صدیقی صاحب نے بڑی محبت سے میرا تعارف کروایا ۔
تا دیر اپنے نرم ہاتھوں میں میرا ہاتھ تھامے رکھا ۔ یہ ایک ایسا پُر سعادت لمحہ تھا کہ بعد ازاں لاتعداد بار شاہ صاحب کی دعائیں سمیٹنے کے مواقعے میسر آئے ۔ حضرت مولانا قاری یوسف صدیقی مدظلہ العالی اپریل کی ایک گرم رات کو اس دُنیا سے رخصت ہُوئے تو پیر سید کبیر علی شاہ صاحب اپنے اس پرانے دوست کو بھولے نہیں۔ صدیقی صاحب علیہ رحمہ کے سالانہ عرس میں کئی بار بطورِ مہمانِ خصوصی شریک ہُوئے اور حاضرینِ مجلس کو اپنی دعاؤں سے نوازا ۔ غم کی بات ہے کہ رواں ہفتے یہ دلنواز شخصیت پیر طریقت سید کبیر علی شاہ صاحب بھی اپنے رَبّ کے حضور حاضر ہو گئے ۔ اُن کی قبر پر اللہ تعالیٰ نُورو کرم کی بارشیں فرمائے ۔
استاد القراء قاری یوسف صدیقی صاحبؒ کی قیادت ہی میں راقم کو پہلی بار گڑھی شاہو ( لاہور) میں واقع شاندار اور وقیع دینی درسگاہ ، جامعہ نعیمیہ ، کے مہتممِ اعلی و منتظمِ اعلیٰ حضرت مولانا مفتی محمد حسین نعیمی صاحب ؒ دامت برکاتہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہُوا ۔ کیا عظیم الشان اور درویش منش عالمِ دین تھے قبلہ مفتی نعیمی صاحب۔اُن کے بلند اقبال صاحبزادے ، ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب ، سے بھی نیاز حاصل رہے ۔ ڈاکٹر سرفراز ؒ تو اپنے عظیم والد کی بالکل کاپی تھے ۔ وہی سادگی ، وہی درویشی ، وہی دُنیا سے بے نیازی ۔افسوس دہشت گردوں نے اس بلند پایہ عالمِ دین کو شہید کر کے ہم سے یہ نعمت چھین لی۔
محمد تاجور نعیمی صاحب مفتی نعیمی صاحب ؒ کے صاحبزادے ،ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے چھوٹے بھائی اور آج جامعہ نعیمیہ کے مہتممِ اعلیٰ اور معروف عالمِ دین ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب کے چچا تھے۔راغب نعیمی صاحب نے مجھے بتایا: دادا جان ( مفتی نعیمی صاحب ؒ) بیمار پڑے توچچا جان( تاجور نعیمی) نے اُن کی تیمار داری پر اپنا سارا بزنس قربان کر دیا۔کیا ہی خدمت شعار بیٹا تھا۔ تاجور نعیمی صاحب کی رحلت پر میاں شہباز شریف نے بھی ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب سے تعزیت کی ہے۔اللہ کریم اس نیک رُوح کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ (آمین)۔