پٹرول بحران کورونا اور مہنگائی
پٹرول بحران میں ملوث کمپنیوں اور دیگر ذمے داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت یقیناً خوش آیند ہے۔
پٹرول بحران کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا،تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو 21دن کا ذخیرہ یقینی بنانے کا پابند کیا جائے،اس بات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے پٹرول پرتحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد کیا ہے۔
ملک بھرمیں پٹرول بحران کا جاری رہنا بلاشبہ انتظامی ناکامی کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے ذمے داران کا تعین کرکے ملوث اداروں کے خلاف کارروائی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ امر انتہائی حوصلہ افزاء ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے پٹرول بحران میں ملوث کمپنیوں اور دیگر ذمے داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے ذمے دارکمپنیوں کے لائسنس معطل یا منسوخ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
پٹرول بحران میں ملوث کمپنیوں اور دیگر ذمے داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت یقیناً خوش آیند ہے۔ پٹرول سستا ہونے پر عوام میں خوشی کی جو لہر دوڑی تھی وہ اس کے غیر متوقع بحران سے عنقا ہو گئی۔ حکومت آیندہ بھی اگر پٹرول سستا کرتی ہے تو کیا ایک بار پھر اسی طرح کا بحران پیدا ہو گا اور عوام کو ملنے والا ریلیف اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بحران کے ذمے داران کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ مستقبل میں کوئی ایسا بحران پیدا کرنے کی جرات نہ کر سکے۔
رپورٹ کے مندرجات میں جو اہم نکات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق تمام کمپنیوں کے آئل ڈپوزکے ذخائرکے معائنہ کے موقعے پر تمام کمپنیوں کے پاس پٹرول کے وافر ذخائر موجود پائے گئے۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پٹرول کی مصنوعی قلت میں ملوث کمپنیوں کو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے جائیں۔ ایک ماہ میں تیل کی سپلائی بہتر نہ ہو تو لائسنس منسوخ کردیے جائیں، جب کہ بعض کمپنیاں 21 روزکا مطلوبہ اسٹاک برقرار رکھنے میں ناکام رہیں۔
منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا چلن ہمارے ملک میں بطور ایک کلچر پروان چڑھ رہا ہے، عوام ان مافیازکے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔ کبھی ملک میں آٹا بحران جنم لیتا ہے،کبھی چینی کا بحران اورپھر آئل کمپنیاں، پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کرکے عوام کو سڑکوں پر رلنے اور دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں اور اگرکہیں پٹرول دستیاب ہوتا ہے تو وہ مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے، ایک اور مافیا کراچی میں غیرقانونی طور پر ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ شروع کرکے موقعے سے فائدہ اٹھانا شروع کردیتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی زندگی میں سکھ وچین کے لمحات ہیں یا نہیں؟ کیا ان کے نصیب میں دردر کی ٹھوکریں کھانا ہی ہے۔ عوام کو مافیازکے رحم وکرم پر نہ چھوڑاجائے جو اپنے منافعے کی خاطر ہر چیزکا بحران آئے دن پیدا کردیتے ہیں، بلکہ ان کی داد رسی کی جائے، تادم تحریر ملک میں پٹرول کا بحران جاری وساری ہے اور عوامی مشکلات میں کسی طور پرکمی نہیں آرہی ۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس اور ان کے مندرجات وہدایات اس وقت بے فیض اور بے فائدہ ہیں، جب تک عملی طور پر صورت حال میں بہتری نہ آئے ۔
ادھر وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید کے ہمراہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا دورہ کیا ۔اس موقعے پر وزیر اعظم کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس کے شرکا کوبتایا گیا کہ گزشتہ چار روز سے کورونا کیسز میں کمی آرہی ہے۔ انسانی زندگیاں اور روزگار بچانے کی حکمت عملی پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے ملک میں کاروبارکھلا رکھنے لیکن وبا کے بارے میں آگہی اورانتظامی اقدامات کے ذریعے ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔
حکومت اور دیگر انتظامی اداروں نے جس طرح کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے دن رات کام کیا یہ اسی کا ثمر ہے کہ ملک میں گزشتہ چار روز سے کورونا کیسز کی تعداد میں کمی آنے کا مژدہ جاں فزا سنایا گیا۔ عوام پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حکومتی اقدامات اور کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن تعاون کریں اور ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
عید کی شاپنگ کے سلسلے میں عوام کی جانب سے جو غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا گیا آج ملک بھر میں تیزی سے پھیلے ہوئے کورونا کیسز اسی کا شاخسانہ ہے اگر اس موقع پر عوام اور تاجر بے صبری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے احتیاط کا دامن تھامتے تو آج صورت حال بہتر ہوتی، کورونا وائرس کی وبا ایک انتہائی خطرناک اسٹیج میں داخل ہوچکی ہے۔ اموات کی بڑھتی شرح اورکیسز کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچ جانا،خوفناک صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ بہرحال اگر آج بھی خلوص نیت سے کوشش کی جائے تو اس وباء پر بہت جلد قابو پایا جاسکتا ہے۔
یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ اس خوفناک وبائی صورتحال میں بھی وفاق اور صوبے آپسی اختلافات ختم نہ کر سکے اورعوام مسلسل کنفیوژن کا شکار ہیں۔ دنیا کے ہر ملک اور ہرقوم پر آزمائش کی گھڑی آتی ہے، لیکن اس موقعے پر مدبر سیاسی قیادت اپنی فہم وفراست سے مسائل کو حل کرتی ہے، کیا یہ وقت کا سب سے بڑا سچ نہیں ہے کہ ہم تاحال ایک متوازن حکمت عملی کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ترتیب دینے سے قاصر ہیں۔ درحقیقت اس مسئلے سے مؤثر اندازمیں نمٹنے کے لیے وفاقی اور تمام وفاقی اکائیوں کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا، خدا جانے وہ وقت کب آئے گا جب ہم سب ایک پیج پر ہونگے۔
کورونا وبا کے باعث سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈیز کی سہولت بند ہونے سے گلی محلوں اور کمرشل علاقوں میں نجی کلینکس میں ڈاکٹروں نے معائنہ فیس اور لیبارٹری ٹیسٹوں کی قیمتوں میں 100گنا اضافہ کردیا ہے اور ادویات بھی من پسند فارمیسی سے خریدنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ ایک خبر ایک آئینہ ہے ہمارے معاشرے کی بدنمائی کا۔
کورونا وائرس کا مستند علاج اور دوا تاحال نہیں بنائی جاسکی لیکن اس کے باوجود مختلف علاج سوشل میڈیا پر زیر گردش رہتے ہیں۔ بعض ڈاکٹرز، حکما اور ہومیوپیتھ ڈاکٹرز سوشل میڈیا پر یہ اعلان اور دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے زیرعلاج مریض ان کی فلاں دوائی استعمال کرنے سے شفایاب ہوگئے ہیں۔
یہ بات اس صرف اس حد تک تو درست ہوسکتی ہے کہ ان کے زیر علاج ایک یا دو مریض واقعی شفایاب ہوجاتے ہونگے، لیکن اس کو ہرایک کے لیے یکساں طور پرمفیدقرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ ہر دوا کے سائیڈ ایفکیٹس خطرناک بھی ہوتے ہیں جب تک مکمل سائنسی تحقیق کسی نتیجے پر نہ پہنچ جائے یہ طریقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر حکومتی وزراء بھی جلد بازی سے کام لیتے نظر آتے ہیں جب وہ پریس بریفنگ کے دوران کسی دوا کا نام لیتے ہیں تو ان کا موقف واضح اور دوٹوک نہیں ہوتا بلکہ ابہام پر مبنی ہوتا ہے۔
جیسے کہ تازہ خبر لندن سے خبر آئی ہے کہ بعض مریضوں کو تجرباتی طور پر جب ڈیکسا میتھاسون نامی اسٹرائڈ کی خوراک دی گئی تو ان میں اندرونی سوزش (انفلیمیشن) میں کمی ہوئی اور اموات میں بھی کمی واقع ہوئی، یعنی وہ افراد جو وینٹی لیٹر پر جاچکے ہیں، یا پھرآکسیجن پر ہیں ڈیکسا میتھاسون لے سکتے ہیں۔ دراصل مستند رائے تو عالمی ادارہ صحت اور ماہر ڈاکٹرزکی تسلیم کی جائے نہ کہ ہر ایک کی، جو سوشل میڈیا پر ذاتی اورتجارتی مقاصد کے لیے عوام کوگمراہ کر رہے ہیں۔ اس الجھی ڈورکو سلجھانے کی ضرورت ہے۔
واضح اور دوٹوک موقف صرف ڈاکٹرز دیں ناکہ اتائی۔انسانی جانوں سے کھیلنا بھی ایک سنگین جرم ہے،جس سے ہرصورت اجتناب برتنا چاہیے۔ اس وبا کے دوران سلیف میڈیکشن کا عمل انتہائی خطرناک ہے عوام کو یہ روش ہر صورت میں ترک کرنا ہوگی ۔ کورونا پھیلائو سے ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان برقرار ہے، ڈالر166.60 روپے کا ہوگیا، سونا99300روپے فی تولہ بکا ہے۔
ماہرین اسٹاک کا کہناتھا کہ بڑے پیمانے پر صنعتوں کی مئی میں پیداوارگھٹنے کے اعدادوشمار آنے سے بھی سرمایہ کاروں نے محتاط طرزعمل اختیارکیے ہوا ہے۔کورونا وبا کی آڑ میں ملک میں مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، عام آدمی جو پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے، اس کے لیے روزمرہ کی اشیا کا حصول اور خریداری مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب آخرکیا ہورہا ہے، حکومت کہاں ہے، اس کا بیانیہ کہاں ہے ، انتظامیہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام کیوں نظر آرہی ہے یہ سب وہ سوالات ہیں جو ایک عام شہری کے ذہن میں جنم لیے رہے ہیں لیکن کورونا وائرس کے حوالے سے روزانہ پریس کانفرنسیں کرنیوالے اس بات کا جواب دینے سے قاصر نظرآتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ2020-21 پر عام بحث چوتھے روز بھی جاری رہی۔ اپوزیشن ارکان نے بجٹ کوغیر حقیقی،صنعت،کسان غریب دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت جھوٹ پھیلاؤ، غریب مکاؤ، آئی ایم ایف بلاؤ، مافیا بڑھاؤ اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پرگامزن ہے، بجٹ مڈل کلاس،کسانوں،ہیلتھ ورکزاور عوام کے معاشی قتل عام کی ایف آئی آر ہے، عوام کو معاشی قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا ہے جب کہ وزیر اعظم کے مشیر یہ عندیہ دیتے ہیں کہ یہ بجٹ آیندہ مالی سال کے لیے بنایا گیا ہے۔ بجٹ کے اندرکورونا جیسی وبا سے نمٹنے کے فنڈز بھی مختص کیے گئے ہیں،ہم ایک زرعی ملک ہیں اس لیے بجٹ میں زراعت اور فوڈ سیکیورٹی کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔
تحریک انصاف کے لال چند ملہی نے کہا مشکل صورتحال میں حکومت کی جانب سے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنا کامیاب عمل ہے۔بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن کا کام حکومتی خامیوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے جو وہ یقینا کررہی ہے، جب کہ حکومتی اراکین اور وزراء تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف ہیں۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پربحث ومباحثہ اس وقت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جب بجٹ کی خامیوں کو دورکرتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے حوالے سے حقیقی معنوں میں ریلیف ملے تو یہ اقدام لائق تحسین کہلائے گا۔
ملک بھرمیں پٹرول بحران کا جاری رہنا بلاشبہ انتظامی ناکامی کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے ذمے داران کا تعین کرکے ملوث اداروں کے خلاف کارروائی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ امر انتہائی حوصلہ افزاء ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے پٹرول بحران میں ملوث کمپنیوں اور دیگر ذمے داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے ذمے دارکمپنیوں کے لائسنس معطل یا منسوخ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
پٹرول بحران میں ملوث کمپنیوں اور دیگر ذمے داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت یقیناً خوش آیند ہے۔ پٹرول سستا ہونے پر عوام میں خوشی کی جو لہر دوڑی تھی وہ اس کے غیر متوقع بحران سے عنقا ہو گئی۔ حکومت آیندہ بھی اگر پٹرول سستا کرتی ہے تو کیا ایک بار پھر اسی طرح کا بحران پیدا ہو گا اور عوام کو ملنے والا ریلیف اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بحران کے ذمے داران کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ مستقبل میں کوئی ایسا بحران پیدا کرنے کی جرات نہ کر سکے۔
رپورٹ کے مندرجات میں جو اہم نکات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق تمام کمپنیوں کے آئل ڈپوزکے ذخائرکے معائنہ کے موقعے پر تمام کمپنیوں کے پاس پٹرول کے وافر ذخائر موجود پائے گئے۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پٹرول کی مصنوعی قلت میں ملوث کمپنیوں کو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے جائیں۔ ایک ماہ میں تیل کی سپلائی بہتر نہ ہو تو لائسنس منسوخ کردیے جائیں، جب کہ بعض کمپنیاں 21 روزکا مطلوبہ اسٹاک برقرار رکھنے میں ناکام رہیں۔
منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا چلن ہمارے ملک میں بطور ایک کلچر پروان چڑھ رہا ہے، عوام ان مافیازکے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔ کبھی ملک میں آٹا بحران جنم لیتا ہے،کبھی چینی کا بحران اورپھر آئل کمپنیاں، پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کرکے عوام کو سڑکوں پر رلنے اور دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں اور اگرکہیں پٹرول دستیاب ہوتا ہے تو وہ مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے، ایک اور مافیا کراچی میں غیرقانونی طور پر ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ شروع کرکے موقعے سے فائدہ اٹھانا شروع کردیتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی زندگی میں سکھ وچین کے لمحات ہیں یا نہیں؟ کیا ان کے نصیب میں دردر کی ٹھوکریں کھانا ہی ہے۔ عوام کو مافیازکے رحم وکرم پر نہ چھوڑاجائے جو اپنے منافعے کی خاطر ہر چیزکا بحران آئے دن پیدا کردیتے ہیں، بلکہ ان کی داد رسی کی جائے، تادم تحریر ملک میں پٹرول کا بحران جاری وساری ہے اور عوامی مشکلات میں کسی طور پرکمی نہیں آرہی ۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس اور ان کے مندرجات وہدایات اس وقت بے فیض اور بے فائدہ ہیں، جب تک عملی طور پر صورت حال میں بہتری نہ آئے ۔
ادھر وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید کے ہمراہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا دورہ کیا ۔اس موقعے پر وزیر اعظم کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس کے شرکا کوبتایا گیا کہ گزشتہ چار روز سے کورونا کیسز میں کمی آرہی ہے۔ انسانی زندگیاں اور روزگار بچانے کی حکمت عملی پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے ملک میں کاروبارکھلا رکھنے لیکن وبا کے بارے میں آگہی اورانتظامی اقدامات کے ذریعے ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔
حکومت اور دیگر انتظامی اداروں نے جس طرح کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے دن رات کام کیا یہ اسی کا ثمر ہے کہ ملک میں گزشتہ چار روز سے کورونا کیسز کی تعداد میں کمی آنے کا مژدہ جاں فزا سنایا گیا۔ عوام پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حکومتی اقدامات اور کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن تعاون کریں اور ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
عید کی شاپنگ کے سلسلے میں عوام کی جانب سے جو غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا گیا آج ملک بھر میں تیزی سے پھیلے ہوئے کورونا کیسز اسی کا شاخسانہ ہے اگر اس موقع پر عوام اور تاجر بے صبری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے احتیاط کا دامن تھامتے تو آج صورت حال بہتر ہوتی، کورونا وائرس کی وبا ایک انتہائی خطرناک اسٹیج میں داخل ہوچکی ہے۔ اموات کی بڑھتی شرح اورکیسز کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچ جانا،خوفناک صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ بہرحال اگر آج بھی خلوص نیت سے کوشش کی جائے تو اس وباء پر بہت جلد قابو پایا جاسکتا ہے۔
یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ اس خوفناک وبائی صورتحال میں بھی وفاق اور صوبے آپسی اختلافات ختم نہ کر سکے اورعوام مسلسل کنفیوژن کا شکار ہیں۔ دنیا کے ہر ملک اور ہرقوم پر آزمائش کی گھڑی آتی ہے، لیکن اس موقعے پر مدبر سیاسی قیادت اپنی فہم وفراست سے مسائل کو حل کرتی ہے، کیا یہ وقت کا سب سے بڑا سچ نہیں ہے کہ ہم تاحال ایک متوازن حکمت عملی کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ترتیب دینے سے قاصر ہیں۔ درحقیقت اس مسئلے سے مؤثر اندازمیں نمٹنے کے لیے وفاقی اور تمام وفاقی اکائیوں کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا، خدا جانے وہ وقت کب آئے گا جب ہم سب ایک پیج پر ہونگے۔
کورونا وبا کے باعث سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈیز کی سہولت بند ہونے سے گلی محلوں اور کمرشل علاقوں میں نجی کلینکس میں ڈاکٹروں نے معائنہ فیس اور لیبارٹری ٹیسٹوں کی قیمتوں میں 100گنا اضافہ کردیا ہے اور ادویات بھی من پسند فارمیسی سے خریدنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ ایک خبر ایک آئینہ ہے ہمارے معاشرے کی بدنمائی کا۔
کورونا وائرس کا مستند علاج اور دوا تاحال نہیں بنائی جاسکی لیکن اس کے باوجود مختلف علاج سوشل میڈیا پر زیر گردش رہتے ہیں۔ بعض ڈاکٹرز، حکما اور ہومیوپیتھ ڈاکٹرز سوشل میڈیا پر یہ اعلان اور دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے زیرعلاج مریض ان کی فلاں دوائی استعمال کرنے سے شفایاب ہوگئے ہیں۔
یہ بات اس صرف اس حد تک تو درست ہوسکتی ہے کہ ان کے زیر علاج ایک یا دو مریض واقعی شفایاب ہوجاتے ہونگے، لیکن اس کو ہرایک کے لیے یکساں طور پرمفیدقرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ ہر دوا کے سائیڈ ایفکیٹس خطرناک بھی ہوتے ہیں جب تک مکمل سائنسی تحقیق کسی نتیجے پر نہ پہنچ جائے یہ طریقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر حکومتی وزراء بھی جلد بازی سے کام لیتے نظر آتے ہیں جب وہ پریس بریفنگ کے دوران کسی دوا کا نام لیتے ہیں تو ان کا موقف واضح اور دوٹوک نہیں ہوتا بلکہ ابہام پر مبنی ہوتا ہے۔
جیسے کہ تازہ خبر لندن سے خبر آئی ہے کہ بعض مریضوں کو تجرباتی طور پر جب ڈیکسا میتھاسون نامی اسٹرائڈ کی خوراک دی گئی تو ان میں اندرونی سوزش (انفلیمیشن) میں کمی ہوئی اور اموات میں بھی کمی واقع ہوئی، یعنی وہ افراد جو وینٹی لیٹر پر جاچکے ہیں، یا پھرآکسیجن پر ہیں ڈیکسا میتھاسون لے سکتے ہیں۔ دراصل مستند رائے تو عالمی ادارہ صحت اور ماہر ڈاکٹرزکی تسلیم کی جائے نہ کہ ہر ایک کی، جو سوشل میڈیا پر ذاتی اورتجارتی مقاصد کے لیے عوام کوگمراہ کر رہے ہیں۔ اس الجھی ڈورکو سلجھانے کی ضرورت ہے۔
واضح اور دوٹوک موقف صرف ڈاکٹرز دیں ناکہ اتائی۔انسانی جانوں سے کھیلنا بھی ایک سنگین جرم ہے،جس سے ہرصورت اجتناب برتنا چاہیے۔ اس وبا کے دوران سلیف میڈیکشن کا عمل انتہائی خطرناک ہے عوام کو یہ روش ہر صورت میں ترک کرنا ہوگی ۔ کورونا پھیلائو سے ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان برقرار ہے، ڈالر166.60 روپے کا ہوگیا، سونا99300روپے فی تولہ بکا ہے۔
ماہرین اسٹاک کا کہناتھا کہ بڑے پیمانے پر صنعتوں کی مئی میں پیداوارگھٹنے کے اعدادوشمار آنے سے بھی سرمایہ کاروں نے محتاط طرزعمل اختیارکیے ہوا ہے۔کورونا وبا کی آڑ میں ملک میں مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، عام آدمی جو پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے، اس کے لیے روزمرہ کی اشیا کا حصول اور خریداری مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب آخرکیا ہورہا ہے، حکومت کہاں ہے، اس کا بیانیہ کہاں ہے ، انتظامیہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام کیوں نظر آرہی ہے یہ سب وہ سوالات ہیں جو ایک عام شہری کے ذہن میں جنم لیے رہے ہیں لیکن کورونا وائرس کے حوالے سے روزانہ پریس کانفرنسیں کرنیوالے اس بات کا جواب دینے سے قاصر نظرآتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ2020-21 پر عام بحث چوتھے روز بھی جاری رہی۔ اپوزیشن ارکان نے بجٹ کوغیر حقیقی،صنعت،کسان غریب دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت جھوٹ پھیلاؤ، غریب مکاؤ، آئی ایم ایف بلاؤ، مافیا بڑھاؤ اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پرگامزن ہے، بجٹ مڈل کلاس،کسانوں،ہیلتھ ورکزاور عوام کے معاشی قتل عام کی ایف آئی آر ہے، عوام کو معاشی قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا ہے جب کہ وزیر اعظم کے مشیر یہ عندیہ دیتے ہیں کہ یہ بجٹ آیندہ مالی سال کے لیے بنایا گیا ہے۔ بجٹ کے اندرکورونا جیسی وبا سے نمٹنے کے فنڈز بھی مختص کیے گئے ہیں،ہم ایک زرعی ملک ہیں اس لیے بجٹ میں زراعت اور فوڈ سیکیورٹی کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔
تحریک انصاف کے لال چند ملہی نے کہا مشکل صورتحال میں حکومت کی جانب سے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنا کامیاب عمل ہے۔بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن کا کام حکومتی خامیوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے جو وہ یقینا کررہی ہے، جب کہ حکومتی اراکین اور وزراء تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف ہیں۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پربحث ومباحثہ اس وقت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جب بجٹ کی خامیوں کو دورکرتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے حوالے سے حقیقی معنوں میں ریلیف ملے تو یہ اقدام لائق تحسین کہلائے گا۔