ہر آنے والے دن اموات اور متاثرین کی تعداد میں ناقابل یقین اضافہ دیکھا جا رہا ہے، لوگ کورونا کے نام سے خوف کھانے لگے ہیں لیکن ہماری حکومتیں اس حوالے سے ایسے کوئی اقدامات کرتی نظر نہیں آتیں جو شہریوں کو کورونا سے بچانے میں مددگار ہوسکیں۔
یہی حال دنیا کے دیگر ملکوں کا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ پاکستان کے سیاستدان اور حکمران اس حوالے سے اس قدر غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ انھیں انسان کہنا انسان کی توہین ہے۔ خاص طور پر مرکز اور صوبہ سندھ اس طرح ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو پہلوان آمنے سامنے کھڑے اپنی طاقت اور اختیارات کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کورونا کے خاتمے کے لیے دنیا کے دیگر ملکوں میں سخت لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے، جس کا فائدہ ان ملکوں کو ہو رہا ہے اورکورونا کی وحشت میں کمی آ رہی ہے۔ اس حوالے سے ان ملکوں کے عوام قابل تعریف ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن کے فائدے سے واقف ہیں اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ لاک ڈاؤن سے لاکھوں ڈیلی ویجزمزدور بے روزگار ہوجاتے ہیں اور انھیں بھوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک دو دن تو عوام لاک ڈاؤن کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن 15-10 دن لاک ڈاؤن کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔
ایسی صورتحال میں صرف یہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی وہ اپوزیشن پارٹیاں جو 10 سال تک اس ملک کے عوام کو لوٹتی رہیں اور اربوں روپے ملک کے اندر اور ملک کے باہر دبا کر رکھے ہیں، ان سے عوام کی یہ دولت چھین لی جائے۔ جب انتظامیہ ان سے لوٹی ہوئی بھاری رقوم برآمد کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو قانون اور انصاف کو آگے بڑھ کر ان قومی مجرموں کے گلوں میں رسی ڈالنا پڑتی ہے۔ یہ قوم و ملک کے مجرم ہیں ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنا بھی ایک سنگین جرم ہے اور بدقسمتی سے ایلیٹ کو ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہیں۔
ہمارے ملک کے بعض نواب ابن نواب جو الزامات کا سامنا کر رہے ہیں ، اس بار موصوف نے یہ موقف اپنایا ہے کہ وہ کورونا کے شکار ہوگئے ہیں۔ بلاشبہ کورونا ایک جان لیوا بیماری ہے لیکن کیا مسمی مذکور واقعی کورونا کی بیماری میں مبتلا ہیں؟
ہم نے بات کی ابتدا لاک ڈاؤن سے کی تھی کہ ہمارے غریب عوام ایک دو دن سے زیادہ لاک ڈاؤن کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور کورونا کو کمزورکرنے اور شکست دینے کے لیے دو تین ہفتوں کے لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔ اور دو تین ہفتوں کے لاک ڈاؤن کے لیے اربوں روپوں بلکہ کھربوں روپوں کی ضرورت ہے۔ ہماری ایلیٹ پچھلے دس سالہ دور حکومت میں کھربوں روپوں کی لوٹ مار کرتی رہی ہے اور یہ سرمایہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر محفوظ کیا گیا ہے۔ ہمارے خفیہ ادارے زمین کے اندر گہرائیوں میں چھپائی گئی چیزیں برآمد کر سکتے ہیں تو وہ زمین کے اوپر چھپائی گئی دولت کو کیوں برآمد نہیں کرسکتے۔
اس کے لیے قانون کی برتری چاہیے اور غیرضروری مداخلت کو روکنا چاہیے ایلیٹ بڑی ہوشیار ہے ہمارے ملک میں وہی وکیل بڑا مانا جاتا ہے جو قتل کے ملزم کو مکھن سے بال کی طرح نکال لے۔ ہماری اشرافیہ کھربوں کی مالک ہے اور ان کھربوں روپوں کو قانون کے قدموں میں بڑے وکلا کے ذریعے رکھ دیتی ہے ، یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کی وہ سوغات جس کی حقدار ہماری اشرافیہ ہی ہے۔
دنیا کے کئی ملکوں میں کھربوں کا سرمایہ ہے اور حکمران طبقہ کھربوں کی اس دولت کو یا تو عیاشیوں میں پھونک رہا ہے یا ہتھیاروں کی تیاری میں خرچ کر رہا ہے۔دنیا کے تمام دولت مند ملک، غریب ملکوں کے لاک ڈاؤن پروگرام میں مدد کے لیے ایک ورلڈ لاک ڈاؤن فنڈ قائم کریں جو غریب ملکوں کو ایک بڑے لاک ڈاؤن پروگرام میں مدد دے یہی ایک راستہ ہے جو دنیا کے عوام کو کورونا کی تباہ کاریوں سے بچا سکتا ہے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متحارب ممالک اپنے بے سروپا احمقانہ اختلافات اور دشمنیوں کو ختم کریں اور احمقانہ اور عوام دشمن جنگوں میں استعمال ہونے والا کھربوں روپیہ بچائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے معروف طبی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھیں اور کورونا ویکسین کی تحقیق اور تیاری پر اپنی ساری صلاحیتیں اپنا سارا علم صرف کردیں یہی ایک ایسا راستہ ہے جو لاکھوں انسانوں کو کورونا کی خوفناک موت سے بچا سکتا ہے اگر دنیا کے اس تباہ کن مسئلے کے حل کے لیے یہ راستہ اختیار نہ کیا گیا تو پھر امکان یہ ہے کہ دنیا میں یہ صرف دولت مند طبقہ رہ جائے اور سات ارب غریب عوام نیست و نابود ہوجائیں۔