مایوس کن بجٹ
سرکاری ملازمین کے لیے زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
وفاقی بجٹ مایوس کن ثابت ہوا، موجودہ چیلنج کے مقابلہ کے لیے بجٹ کی ترجیحات تبدیل نہیں ہوئیں۔ صحت کے لیے 12 ارب کا بجٹ رکھا گیا۔ کورونا وائرس سے مقابلہ کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے۔ اس رقم سے ہر شہری کے حصہ میں 125 روپے آئیں گے۔
حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیا اور یہی صورتحال ریٹائر ہونے والے وفاقی ملازمین کے ساتھ روا رکھی گئی۔ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں 5ارب روپے کی کمی کر دی۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم کبھی بھی ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔
گزشتہ 70 برسوں میں صحت کا بجٹ جی ڈی پی کا ایک فیصد سے کچھ زیادہ رہا۔ تاریخ کے اوراق کے مطالعہ سے ظاہرہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ڈاکٹر مبشرحسن ایک سال سے زیادہ عرصہ تک وزیر خزانہ کے عہدہ پر فائز رہے۔ انھوں نے اپنے پہلے بجٹ میں صحت اور تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا تھا۔ یہ رقم اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کے قیام پرخرچ ہوئی۔ پہلے 20 برسوں میں بڑے اسپتالوں کی تعداد انگلیوں پرگنی جاتی تھی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹروں کی تعداد بڑھانے کے لیے پورے ملک میں نئے میڈیکل کالج قائم کیے تھے اور نئے اسپتال قائم ہوئے۔
برسر اقتدار حکومتوں نے صحت کا معاملہ نجی شعبہ پر چھوڑ دیا تو نجی شعبہ نے نہ صرف کراچی ،لاہور اور اسلام آباد میں جدید اسپتال تعمیرکیے ہیں ان اسپتالوں کو تجارتی بنیاد پرچلایا جاتا ہے، یوں پورے ملک کے مریض علاج کے لیے ان شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ملک بھر میں چھوٹے شہروں اورگاؤں میں نجی شعبہ کے لیے کوئی زیادہ چمک نہیں رہی۔ وہاں نجی شعبہ میں اسپتال قائم تو ہوئے مگر یہ اسپتال پیچیدہ امراض کا علاج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
جب کورونا وائرس نے حملہ کیا توحقائق سامنے آئے کہ صرف کراچی،لاہور اور اسلام آباد کی چند لیباریٹریوں میں کورونا کا پتہ چلانے کے ٹیسٹ کی صلاحیت ہے۔ سرکاری طور پر یہ حقیقت بیان کی گئی کہ ملک کے تمام اسپتالوں میں کل 1500وینٹی لیٹر ہیں جن میں کئی درجن استعمال کے قابل نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے فنڈز جاری کیے، یوں ملک کے مختلف شہروں میں کورونا کے ٹیسٹ کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔
حکومت نے چین کی حکومت سے اپیل کی۔ چین نے وینٹی لیٹر اور ٹیسٹ کٹ فراہم کیں مگراس تمام صورتحال کے باوجود کراچی میں صرف جناح اسپتال، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (S.I.U.T)، سول اسپتال، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی اور غیر تجارتی بنیادوں پر قائم انڈس اسپتال میں کورونا کے ٹیسٹ اور مریضوں کے علاج کی سہولتیں مہیا ہوئیں۔
ملک کے ایک سب سے بڑے اسپتال نے اپریل کے آخر میں کورونا کے مریضوں کو لینے سے انکارکیا۔ یہ صورتحال باقی دیگر اسپتالوں میں بھی رہی، یوں اب یہ وقت آگیا کہ تمام اسپتالوں میں بیڈ مریضوں سے بھر گئے اور مریضوں کے لواحقین سفارش کرانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ صورتحال صرف کراچی میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ چاروںصوبوں کے تمام اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد اتنی بڑھی کہ اسپتال اوور فلو ہوگئے۔
شعبہ صحت کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ مارچ کے مہینہ سے پولیوکے مرض پر قابو پانے کے لیے قطرے پلانے کی مہم شروع نہیں ہوسکی۔ بچوں کو پولیوکے قطرے نہ ملنے سے یہ خبریں آنے لگیں کہ کئی بچے پولیوکے مرض کا شکار ہوگئے۔ ایسی ہی صورتحال مچھروں کے ذریعہ پھیلنے والے مرض ڈینگی کی بناء پر ہوگئی، اگر ڈینگی کے مریضوں کی تعداد بڑھی تو اسپتال ان بدقسمت مریضوں کی جان بچانے کے قابل نہیں ہونگے۔
شماریات کے ماہرین نے صحت اورکورونا وائرس کے لیے مختص کی جانے والی رقم کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت نے بظاہر شعبہ صحت کے لیے مختص رقم دگنی کردی ہے مگر اس رقم سے پاکستان کے ہر شہری کے حصہ میں 125 روپے آئیں گے۔ شعبہ صحت کے لیے یہ رقم انتہائی کم ہے۔کراچی میں امداد سے چلنے والے ٹرسٹ کے اسپتال نے جوکیش کاؤنٹر نہ ہونے کی بناء پر شہرت رکھتا ہے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب اس اسپتال میں صرف COVID-19 کے مریضوں کا علاج ہوگا، باقی تمام امراض کا علاج بند ہوجائے گا۔ اس اسپتال کے ذرایع کہتے ہیں کہ بین الاقوامی امداد بند ہونے سے ایک بحران پیدا ہوگیا ہے۔
معیشت کی ایک تجزیہ نگار خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ متوسط طبقہ کے لیے مایوس کن ہے۔ اقتصادی ماہرین 50 ہزار روپے ماہانہ کی آمدنی سے لے کر 2لاکھ روپے ماہانہ آمدنی والے افراد کو متوسط طبقہ میں شامل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متوسط طبقہ کے ہر خاندان کے کچن کا خرچ بڑھ جائے گا اور یہ کل آمدنی کا 33 فیصد تک ہوسکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت میں اقتصادی بحران نے شدت اختیارکر لی ہے۔ حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کی جس کی بناء پر ہر نوعیت کی اشیاء کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ اقوام متحدہ کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ایشیاء اور مشرق بعیدکی ٹاسک فورس کی عائد کی جانے والی پابندیوں کی بناء پر بینکنگ کا شعبہ مشکلات کا شکار ہوا۔ نیب کی کارروائیوں کی بناء پر سرمایہ کاروں نے اپنا پیسہ چھپا لیا، یوں مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔
ایک اندازہ کے مطابق شعبہ میڈیکل کے سوا ہر شعبہ میں روزگارکے مواقع کم ہوئے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال پورے ملک میں تجاوزات کے خاتمہ کا فیصلہ کیا۔ بڑے اورچھوٹے شہروں میں ہونے والے آپریشن میں تجاوزات کا خاتمہ ہوا، یوں ہزاروں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوئے مگر بجٹ کی ترجیحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سارے مسائل کے حل کے لیے بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔ شدید معاشی بحران اورکورونا سے پیدا ہونے والے بحران نے سرکاری ملازمین سمیت ہر شخص کی کمر توڑ دی ہے۔
سرکاری ملازمین کے لیے زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ جن ملازمین کے بچے بچیاں تعلیم حاصل کرچکے ان کے پاس روزگار نہیں ہے۔ حکومت نے ایک طرف تو سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کی داد رسی نہیں کی، دوسری طرف بعض وزارتوں کے تحت کام کرنے والے اداروں نے اسپیشل الاؤنس کے نام پر اپنے ملازمین کی داد رسی کی ہے۔ ان اداروں میں قومی احتساب بیورو (نیب) ، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) خاص طور پر شامل ہیں۔
وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کو بھی کچھ مہینے پہلے سے اسپیشل الاؤنس مل رہا ہے۔ ایسی ہی صورتحال عدالتوں کی ہے جہاں کام کرنے والے ملازمین بھی اسپیشل الاؤنس سے مستفید ہو رہے ہیں، یوں ان خوش نصیب ملازمین کے علاوہ باقی ملازمین حکومت کے اس فیصلے سے مایوسی کا شکار ہیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں 5 ارب روپے کی کمی کردی گئی، یوں یونیورسٹیوں کی گرانٹ کم ہوگئی۔ اعلیٰ تعلیم کے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) نے فیصلہ کیا کہ یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسیں شرو ع کی جائیں۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں اور نجی شعبہ کی یونیورسٹیوں نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کا عزم کیا مگر پھر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ بیشتر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسوں کے لیے انفرا اسٹرکچر ہی موجود نہیں ہے۔
بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے پاس تو لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون ہیں۔ ان کے گھروں پر وائی فائی اور 4G انٹرنیٹ کی سہولتیں بھی ہیں مگر پسماندہ علاقوں کی یونیورسٹیاں بنیادی انفرا اسٹرکچر سے محروم ہیں اور طلبہ کے پاس بھی آئی ٹی کی بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ بلوچستان اورگلگت بلتستان میں توانٹرنیٹ کی سہولتیں بھی نہیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے طلبہ نے اس حق کے لیے احتجاجی ریلیاں شروع کردیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتوں کا بنیادی تعلق بجٹ سے ہے۔کچھ صاحبان کو امید تھی کہ وزیر اعظم عمران خان حالات کی سنجیدگی کا اندازہ لگاتے ہوئے بجٹ کی ترجیحات میں بنیادی تبدیلیاں کریں گے اور نئے بجٹ میں صحت اور تعلیم بنیادی ترجیحات میں اولین نمبر پر ہونگے تاکہ پاکستان نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر اسٹیٹ کی طرف سفر شروع کرے مگر بجٹ اس لحاظ سے مایوس کن ہے۔
حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیا اور یہی صورتحال ریٹائر ہونے والے وفاقی ملازمین کے ساتھ روا رکھی گئی۔ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں 5ارب روپے کی کمی کر دی۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم کبھی بھی ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔
گزشتہ 70 برسوں میں صحت کا بجٹ جی ڈی پی کا ایک فیصد سے کچھ زیادہ رہا۔ تاریخ کے اوراق کے مطالعہ سے ظاہرہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ڈاکٹر مبشرحسن ایک سال سے زیادہ عرصہ تک وزیر خزانہ کے عہدہ پر فائز رہے۔ انھوں نے اپنے پہلے بجٹ میں صحت اور تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا تھا۔ یہ رقم اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کے قیام پرخرچ ہوئی۔ پہلے 20 برسوں میں بڑے اسپتالوں کی تعداد انگلیوں پرگنی جاتی تھی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹروں کی تعداد بڑھانے کے لیے پورے ملک میں نئے میڈیکل کالج قائم کیے تھے اور نئے اسپتال قائم ہوئے۔
برسر اقتدار حکومتوں نے صحت کا معاملہ نجی شعبہ پر چھوڑ دیا تو نجی شعبہ نے نہ صرف کراچی ،لاہور اور اسلام آباد میں جدید اسپتال تعمیرکیے ہیں ان اسپتالوں کو تجارتی بنیاد پرچلایا جاتا ہے، یوں پورے ملک کے مریض علاج کے لیے ان شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ملک بھر میں چھوٹے شہروں اورگاؤں میں نجی شعبہ کے لیے کوئی زیادہ چمک نہیں رہی۔ وہاں نجی شعبہ میں اسپتال قائم تو ہوئے مگر یہ اسپتال پیچیدہ امراض کا علاج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
جب کورونا وائرس نے حملہ کیا توحقائق سامنے آئے کہ صرف کراچی،لاہور اور اسلام آباد کی چند لیباریٹریوں میں کورونا کا پتہ چلانے کے ٹیسٹ کی صلاحیت ہے۔ سرکاری طور پر یہ حقیقت بیان کی گئی کہ ملک کے تمام اسپتالوں میں کل 1500وینٹی لیٹر ہیں جن میں کئی درجن استعمال کے قابل نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے فنڈز جاری کیے، یوں ملک کے مختلف شہروں میں کورونا کے ٹیسٹ کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔
حکومت نے چین کی حکومت سے اپیل کی۔ چین نے وینٹی لیٹر اور ٹیسٹ کٹ فراہم کیں مگراس تمام صورتحال کے باوجود کراچی میں صرف جناح اسپتال، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (S.I.U.T)، سول اسپتال، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی اور غیر تجارتی بنیادوں پر قائم انڈس اسپتال میں کورونا کے ٹیسٹ اور مریضوں کے علاج کی سہولتیں مہیا ہوئیں۔
ملک کے ایک سب سے بڑے اسپتال نے اپریل کے آخر میں کورونا کے مریضوں کو لینے سے انکارکیا۔ یہ صورتحال باقی دیگر اسپتالوں میں بھی رہی، یوں اب یہ وقت آگیا کہ تمام اسپتالوں میں بیڈ مریضوں سے بھر گئے اور مریضوں کے لواحقین سفارش کرانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ صورتحال صرف کراچی میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ چاروںصوبوں کے تمام اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد اتنی بڑھی کہ اسپتال اوور فلو ہوگئے۔
شعبہ صحت کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ مارچ کے مہینہ سے پولیوکے مرض پر قابو پانے کے لیے قطرے پلانے کی مہم شروع نہیں ہوسکی۔ بچوں کو پولیوکے قطرے نہ ملنے سے یہ خبریں آنے لگیں کہ کئی بچے پولیوکے مرض کا شکار ہوگئے۔ ایسی ہی صورتحال مچھروں کے ذریعہ پھیلنے والے مرض ڈینگی کی بناء پر ہوگئی، اگر ڈینگی کے مریضوں کی تعداد بڑھی تو اسپتال ان بدقسمت مریضوں کی جان بچانے کے قابل نہیں ہونگے۔
شماریات کے ماہرین نے صحت اورکورونا وائرس کے لیے مختص کی جانے والی رقم کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت نے بظاہر شعبہ صحت کے لیے مختص رقم دگنی کردی ہے مگر اس رقم سے پاکستان کے ہر شہری کے حصہ میں 125 روپے آئیں گے۔ شعبہ صحت کے لیے یہ رقم انتہائی کم ہے۔کراچی میں امداد سے چلنے والے ٹرسٹ کے اسپتال نے جوکیش کاؤنٹر نہ ہونے کی بناء پر شہرت رکھتا ہے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب اس اسپتال میں صرف COVID-19 کے مریضوں کا علاج ہوگا، باقی تمام امراض کا علاج بند ہوجائے گا۔ اس اسپتال کے ذرایع کہتے ہیں کہ بین الاقوامی امداد بند ہونے سے ایک بحران پیدا ہوگیا ہے۔
معیشت کی ایک تجزیہ نگار خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ متوسط طبقہ کے لیے مایوس کن ہے۔ اقتصادی ماہرین 50 ہزار روپے ماہانہ کی آمدنی سے لے کر 2لاکھ روپے ماہانہ آمدنی والے افراد کو متوسط طبقہ میں شامل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متوسط طبقہ کے ہر خاندان کے کچن کا خرچ بڑھ جائے گا اور یہ کل آمدنی کا 33 فیصد تک ہوسکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت میں اقتصادی بحران نے شدت اختیارکر لی ہے۔ حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کی جس کی بناء پر ہر نوعیت کی اشیاء کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ اقوام متحدہ کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ایشیاء اور مشرق بعیدکی ٹاسک فورس کی عائد کی جانے والی پابندیوں کی بناء پر بینکنگ کا شعبہ مشکلات کا شکار ہوا۔ نیب کی کارروائیوں کی بناء پر سرمایہ کاروں نے اپنا پیسہ چھپا لیا، یوں مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔
ایک اندازہ کے مطابق شعبہ میڈیکل کے سوا ہر شعبہ میں روزگارکے مواقع کم ہوئے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال پورے ملک میں تجاوزات کے خاتمہ کا فیصلہ کیا۔ بڑے اورچھوٹے شہروں میں ہونے والے آپریشن میں تجاوزات کا خاتمہ ہوا، یوں ہزاروں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوئے مگر بجٹ کی ترجیحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سارے مسائل کے حل کے لیے بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔ شدید معاشی بحران اورکورونا سے پیدا ہونے والے بحران نے سرکاری ملازمین سمیت ہر شخص کی کمر توڑ دی ہے۔
سرکاری ملازمین کے لیے زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ جن ملازمین کے بچے بچیاں تعلیم حاصل کرچکے ان کے پاس روزگار نہیں ہے۔ حکومت نے ایک طرف تو سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کی داد رسی نہیں کی، دوسری طرف بعض وزارتوں کے تحت کام کرنے والے اداروں نے اسپیشل الاؤنس کے نام پر اپنے ملازمین کی داد رسی کی ہے۔ ان اداروں میں قومی احتساب بیورو (نیب) ، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) خاص طور پر شامل ہیں۔
وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کو بھی کچھ مہینے پہلے سے اسپیشل الاؤنس مل رہا ہے۔ ایسی ہی صورتحال عدالتوں کی ہے جہاں کام کرنے والے ملازمین بھی اسپیشل الاؤنس سے مستفید ہو رہے ہیں، یوں ان خوش نصیب ملازمین کے علاوہ باقی ملازمین حکومت کے اس فیصلے سے مایوسی کا شکار ہیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں 5 ارب روپے کی کمی کردی گئی، یوں یونیورسٹیوں کی گرانٹ کم ہوگئی۔ اعلیٰ تعلیم کے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) نے فیصلہ کیا کہ یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسیں شرو ع کی جائیں۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں اور نجی شعبہ کی یونیورسٹیوں نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کا عزم کیا مگر پھر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ بیشتر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسوں کے لیے انفرا اسٹرکچر ہی موجود نہیں ہے۔
بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے پاس تو لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون ہیں۔ ان کے گھروں پر وائی فائی اور 4G انٹرنیٹ کی سہولتیں بھی ہیں مگر پسماندہ علاقوں کی یونیورسٹیاں بنیادی انفرا اسٹرکچر سے محروم ہیں اور طلبہ کے پاس بھی آئی ٹی کی بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ بلوچستان اورگلگت بلتستان میں توانٹرنیٹ کی سہولتیں بھی نہیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے طلبہ نے اس حق کے لیے احتجاجی ریلیاں شروع کردیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتوں کا بنیادی تعلق بجٹ سے ہے۔کچھ صاحبان کو امید تھی کہ وزیر اعظم عمران خان حالات کی سنجیدگی کا اندازہ لگاتے ہوئے بجٹ کی ترجیحات میں بنیادی تبدیلیاں کریں گے اور نئے بجٹ میں صحت اور تعلیم بنیادی ترجیحات میں اولین نمبر پر ہونگے تاکہ پاکستان نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر اسٹیٹ کی طرف سفر شروع کرے مگر بجٹ اس لحاظ سے مایوس کن ہے۔