چین بھارت جھگڑا کیوں جاری رہے گا پہلی قسط
بھارت میں تبت کی جلاوطن حکومت کے قیام کا مطلب چینی بھینسے کو لال رومال دکھانا تھا۔
SRINAGAR:
پہلی بات یہ کہ یہ جھگڑا ورثے میں ملا ہے۔ اب سے ایک سو چھ برس پہلے ( انیس سو چودہ ) جب تبت اور برٹش انڈیا کے درمیان شمال مشرقی بھارت اور جنوبی تبت کی سرحدی حد بندی کا سمجھوتہ میکموہن لائن کے نام سے ہوا توتبت چین کا حصہ نہیں تھا۔اسی طرح چینی ترکستان ( شن جیانگ) بھی چین کا علامتی حصہ مگر اندرونی طور پر خود مختار صوبہ تھا۔
جب انیس سو انچاس میں چین میں چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کو کیمونسٹوں نے بیجنگ سے کھدیڑ کر فارموسا (تائیوان)کے جزیرے تک محدود کر دیا اور ماؤزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تو نئی حکومت نے تمام '' غیر منصفانہ عوام دشمن'' بین الاقوامی سمجھوتوں کا ازسرِنو جائزہ لینے کا عندیہ دیا ۔
انیس سو پچپن میں انڈونیشیا کے قصبے بنڈونگ میں صدر احمد سوئیکارنو سمیت پانچ میزبان ایشیائی ممالک(بشمول برما، بھارت، پاکستان، سری لنکا) نے بڑی طاقتوں کی سرد جنگ سے الگ تھلگ رہنے کے خواہش مند نو آزاد ممالک کے ایک الگ گروپ کی تشکیل کے لیے اعلیٰ سطح اجلاس بلایا جس میں چواین لائی ، نہرو ، ناصر ، بن بلا اور محمد علی بوگرہ سمیت انتیس ایفرو ایشین ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی (بعد ازاں اس گروپ نے غیر جانبدار تحریک کی شکل اختیار کی )۔
نئے گروپ کی قیادت کے لیے چین اور بھارت دونوں ہی بہت شدت سے خواہاں تھے۔ نہرو اور چواین لائی بظاہر ایک دوسرے سے بنڈونگ میں گرم جوشی سے ملے مگر نجی طور پر چواین لائی نے رائے دی کہ میں نے اس سے زیادہ خود پسند (نہرو) شخص آج تک نہیں دیکھا۔
حالانکہ بھارت اور پاکستان کیمونسٹ چین کی حکومت تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھے۔مگر ابتدائی عشرے میں عوامی جمہوریہ چین سیٹو اور سینٹو جیسے فوجی معاہدوں میں شمولیت کے سبب پاکستان کو مغرب کے طفیلیے کے طور پر شبے سے دیکھتا رہا۔ جب کہ نہرو کے ساتھ چینی قیادت کی نسبتاً آسانی سے نبھتی رہی کیونکہ برصغیر کی آزادی کی تحریک میں نہرو کے کردار اور سوشلسٹ نظریات کے سبب چینی اور روسی کامریڈ نہرو کو اعتماد کا آدمی سمجھتے تھے۔
پہلی چین بھارت علاقائی دراڑ تب پڑی جب انیس سو انسٹھ میں بھارت نے ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی ہمالیائی سرحدی حد بندی کے نقشے شایع کیے جس میں تبت کے کئی علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔ کشمیر سے متصل اڑتیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا اکسائی چن ، مشرقی لداخ کے کچھ علاقے اور جنوبی تبت سے متصل بھارت کے زیرِ قبضہ ارونا چل پردیش کے نوے ہزار کلو میٹر کے رقبے پر چین کا تاریخی دعوی تھا۔
جب بھارت نے یکطرفہ سرحدی نقشے شایع کیے تو چین نے پہلی بار واضح طور پر کہا کہ وہ انیس سو چودہ کی برٹش انڈیا اور تبت کے مابین کھینچی گئی میکموہن لائن سمیت کسی سرحدی حد بندی کو تسلیم نہیں کرتا جب تک کہ نئی حد بندی کے لیے باضابطہ بات چیت کا عمل شروع نہیں ہوتا۔بھارت نے اس چینی موقف کو مسترد کر دیا۔یوں سرد مہری بڑھتے بڑھتے دونوں ممالک کو تین برس بعد (انیس سو باسٹھ) ایک بھرپور جنگ کے دہانے تک لے آئی۔
اس سے پہلے کہ ہم باسٹھ کے سال میں داخل ہوں۔یہ کھوجنے میں کیا حرج ہے کہ اپریل انیس سو پچاس میں بھارت کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات ہندی چینی بھائی بھائی کے پائیدان سے صرف دس برس میں ہی جنگ آمد کے قدمچے تک کیسے گر گئے ؟
انیسویں صدی میں رنجیت سنگھ کی افواج نے کشمیر سے بھی آگے بڑھ کے لداخ سمیت تبت کے ایک بڑے حصے پر مختصر عرصے میں قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں انگریزوں کی کوششوں سے تبت کی خود مختار حکومت اور جموں کے ڈوگروں کے مابین امن اور علاقائی تبادلے کا سمجھوتہ ہو گیا۔مگر لداخ تبت کو واپس نہیں کیا گیا۔ چنانچہ جب اکتوبر انیس سو اڑتالیس میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تو مہاراجہ کو اس دستاویز میں ریاست جموں و کشمیر کے ' نریش' اور تبت کے 'دیش ادھی پتی' کے طور پر مخاطب کیا گیا۔
تب سے اب تک بھارت کا مسلسل موقف ہے کہ سابق ریاست جموں و کشمیر کے وہ تمام علاقے جو چھبیس اکتوبر انیس سو اڑتالیس کے دن تک ریاست کا حصہ تھے بھارت سے الحاق کے بعد اس کی ملکیت میں آ گئے۔ان میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر ، گلگت بلتستان، چین کے زیرِ قبضہ آکسائی چن بھی شامل ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اسی دستاویز الحاق میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تبت کی ملکیت کی دعویداری کا آج تک کسی بھارتی حکمران نے بھولے سے بھی تذکرہ نہیں کیا۔ بلکہ نہرو نے تو ریاست کے بھارت سے الحاق کے دو برس بعد عوامی جمہوریہ چین کو کھل کے یقین دہانی کروائی کہ تبت پر بھارت کا کوئی سیاسی و جغرافیائی دعوی نہیں۔
البتہ جب انیس سو انسٹھ میں انھی پنڈت نہرو کے ہوتے بھارت نے سرحدی نقشے شایع کیے توتبت کے کئی سرحدی علاقے بھی بھارت کا حصہ دکھائے گئے۔ ویسے دنیا کا ایسا کون سا ملک ہے جس کا کسی دوسرے ملک سے سرحدی تنازعہ نہ ہو۔تو پھر ایسا کیا ہوا کہ چین اور بھارت کا یہ پرانا سرحدی جھگڑا آناً فانا نومبر انیس سو باسٹھ میں دس ہفتے کی ایک بھرپور لڑائی میں بدل گیا اور اس نے مستقبل کی علاقائی سیاست و اتحادی نظام کی شکل بدل کے رکھ دی۔
اس جنگ کی بنیادی وجہ چین اور بھارت کی ایک دوسرے کے علاقوں پر دعویداری نہیں بلکہ بھارت کا دہرا سیاسی رویہ تھا۔چین نے اگرچہ سن پچاس میں تبت میں دلائی لامہ کی حکومت کو چین کے ایک خودمختار علاقے کی انتظامیہ کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔مگر اس دوران یہ اطلاعات بھی آتی رہیں کہ بھارت نے ہمالیہ میں امریکی سی آئی اے کو کچھ خفیہ مواصلاتی چوکیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ تبت اور شنجیانگ کے علاقے میں چینی نقل و حرکت پر مسلسل نگاہ رکھی جا سکے۔
چین کو یہ مبینہ ثبوت بھی ملے کہ سی آئی اے بھارتی خفیہ اداروں کی مدد سے تبت کے دارلحکومت لہاسہ میں چین مخالف جذبات ابھارنے اور تبت کو ایک آزاد و خود مختار ملک میں تبدیل کروانے کے لیے دلائی لامہ کی مدد کر رہی ہے۔
اب یہ حقیقت تھی کہ چین کا وہم ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔مگر ہوا یوں کہ اس کے سبب تبت کی رہی سہی خود مختاری بھی ختم ہو گئی اور اسے چین کا باقاعدہ صوبہ قرار دے دیا گیا۔دلائی لامہ سے انتظامی اختیارات واپس لے لیے گئے اور انھیں محض ایک علامتی روحانی درجے تک محدود کر دیا گیا۔پھر انیس سو انسٹھ کے ایک روز اطلاع ملی کہ دلائی لامہ اپنے سیکڑوں حامیوں کے ہمراہ پاپیادہ فرار ہو کر بھارت پہنچ گئے۔حکومتِ بھارت نے انھیں ہماچل پردیش میں دھرم شالہ کے مقام پر ایک بڑی جگہ فراہم کر دی۔وہاں تبت کی جلاوطن حکومت کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا جو آج تک قائم ہے۔
دو ہزار نو میں خاکسار کو دلائی لامہ سے نصف گھنٹے کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔بہت سے سوالات میں ایک یہ بھی تھا کہ کیا واقعی ان کا پچاس کی دہائی میں سی آئی اے سے رابطہ تھا۔اس کا سیدھا جواب دینے کے بجائے دلائی لامہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ جب اتنے برس گذرنے کے بعد میں چینیوں کو یقین نہیں دلا سکا کہ اگر کوئی ایجنٹ ہوں گے بھی تو میرے علم میں نہیں تھے۔تو آپ بھی اپنی سمجھ کے مطابق اس سوال کا جواب خود ہی دے لیں۔میں تو جواب دیتے دیتے تھک گیا ہوں۔
بھارت میں تبت کی جلاوطن حکومت کے قیام کا مطلب چینی بھینسے کو لال رومال دکھانا تھا۔ چنانچہ دونوں ممالک کے مابین کسی بھی جامع جغرافیائی سمجھوتے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔اسی دوران چین اور سوویت یونین کی نظریاتی دوستی میں بھی دراڑ پڑ گئی۔ بھارت نے غیر جانبدار رہنے کے بجائے سوویت یونین سے اسٹرٹیجک تعاون بڑھا نے کا فیصلہ کیا اور یوں چین اور بھارت کے مابین مستقبل کے تعلقات کا ٹیڑھا سانچہ تیار ہو گیا۔اور پھر ایک روز نومبر انیس سو باسٹھ میں معلوم ہوا کہ چین نے بھارت پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا۔یہ ہم کریدیں گے اگلی قسط میں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
پہلی بات یہ کہ یہ جھگڑا ورثے میں ملا ہے۔ اب سے ایک سو چھ برس پہلے ( انیس سو چودہ ) جب تبت اور برٹش انڈیا کے درمیان شمال مشرقی بھارت اور جنوبی تبت کی سرحدی حد بندی کا سمجھوتہ میکموہن لائن کے نام سے ہوا توتبت چین کا حصہ نہیں تھا۔اسی طرح چینی ترکستان ( شن جیانگ) بھی چین کا علامتی حصہ مگر اندرونی طور پر خود مختار صوبہ تھا۔
جب انیس سو انچاس میں چین میں چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کو کیمونسٹوں نے بیجنگ سے کھدیڑ کر فارموسا (تائیوان)کے جزیرے تک محدود کر دیا اور ماؤزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تو نئی حکومت نے تمام '' غیر منصفانہ عوام دشمن'' بین الاقوامی سمجھوتوں کا ازسرِنو جائزہ لینے کا عندیہ دیا ۔
انیس سو پچپن میں انڈونیشیا کے قصبے بنڈونگ میں صدر احمد سوئیکارنو سمیت پانچ میزبان ایشیائی ممالک(بشمول برما، بھارت، پاکستان، سری لنکا) نے بڑی طاقتوں کی سرد جنگ سے الگ تھلگ رہنے کے خواہش مند نو آزاد ممالک کے ایک الگ گروپ کی تشکیل کے لیے اعلیٰ سطح اجلاس بلایا جس میں چواین لائی ، نہرو ، ناصر ، بن بلا اور محمد علی بوگرہ سمیت انتیس ایفرو ایشین ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی (بعد ازاں اس گروپ نے غیر جانبدار تحریک کی شکل اختیار کی )۔
نئے گروپ کی قیادت کے لیے چین اور بھارت دونوں ہی بہت شدت سے خواہاں تھے۔ نہرو اور چواین لائی بظاہر ایک دوسرے سے بنڈونگ میں گرم جوشی سے ملے مگر نجی طور پر چواین لائی نے رائے دی کہ میں نے اس سے زیادہ خود پسند (نہرو) شخص آج تک نہیں دیکھا۔
حالانکہ بھارت اور پاکستان کیمونسٹ چین کی حکومت تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھے۔مگر ابتدائی عشرے میں عوامی جمہوریہ چین سیٹو اور سینٹو جیسے فوجی معاہدوں میں شمولیت کے سبب پاکستان کو مغرب کے طفیلیے کے طور پر شبے سے دیکھتا رہا۔ جب کہ نہرو کے ساتھ چینی قیادت کی نسبتاً آسانی سے نبھتی رہی کیونکہ برصغیر کی آزادی کی تحریک میں نہرو کے کردار اور سوشلسٹ نظریات کے سبب چینی اور روسی کامریڈ نہرو کو اعتماد کا آدمی سمجھتے تھے۔
پہلی چین بھارت علاقائی دراڑ تب پڑی جب انیس سو انسٹھ میں بھارت نے ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی ہمالیائی سرحدی حد بندی کے نقشے شایع کیے جس میں تبت کے کئی علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔ کشمیر سے متصل اڑتیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا اکسائی چن ، مشرقی لداخ کے کچھ علاقے اور جنوبی تبت سے متصل بھارت کے زیرِ قبضہ ارونا چل پردیش کے نوے ہزار کلو میٹر کے رقبے پر چین کا تاریخی دعوی تھا۔
جب بھارت نے یکطرفہ سرحدی نقشے شایع کیے تو چین نے پہلی بار واضح طور پر کہا کہ وہ انیس سو چودہ کی برٹش انڈیا اور تبت کے مابین کھینچی گئی میکموہن لائن سمیت کسی سرحدی حد بندی کو تسلیم نہیں کرتا جب تک کہ نئی حد بندی کے لیے باضابطہ بات چیت کا عمل شروع نہیں ہوتا۔بھارت نے اس چینی موقف کو مسترد کر دیا۔یوں سرد مہری بڑھتے بڑھتے دونوں ممالک کو تین برس بعد (انیس سو باسٹھ) ایک بھرپور جنگ کے دہانے تک لے آئی۔
اس سے پہلے کہ ہم باسٹھ کے سال میں داخل ہوں۔یہ کھوجنے میں کیا حرج ہے کہ اپریل انیس سو پچاس میں بھارت کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات ہندی چینی بھائی بھائی کے پائیدان سے صرف دس برس میں ہی جنگ آمد کے قدمچے تک کیسے گر گئے ؟
انیسویں صدی میں رنجیت سنگھ کی افواج نے کشمیر سے بھی آگے بڑھ کے لداخ سمیت تبت کے ایک بڑے حصے پر مختصر عرصے میں قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں انگریزوں کی کوششوں سے تبت کی خود مختار حکومت اور جموں کے ڈوگروں کے مابین امن اور علاقائی تبادلے کا سمجھوتہ ہو گیا۔مگر لداخ تبت کو واپس نہیں کیا گیا۔ چنانچہ جب اکتوبر انیس سو اڑتالیس میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تو مہاراجہ کو اس دستاویز میں ریاست جموں و کشمیر کے ' نریش' اور تبت کے 'دیش ادھی پتی' کے طور پر مخاطب کیا گیا۔
تب سے اب تک بھارت کا مسلسل موقف ہے کہ سابق ریاست جموں و کشمیر کے وہ تمام علاقے جو چھبیس اکتوبر انیس سو اڑتالیس کے دن تک ریاست کا حصہ تھے بھارت سے الحاق کے بعد اس کی ملکیت میں آ گئے۔ان میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر ، گلگت بلتستان، چین کے زیرِ قبضہ آکسائی چن بھی شامل ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اسی دستاویز الحاق میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تبت کی ملکیت کی دعویداری کا آج تک کسی بھارتی حکمران نے بھولے سے بھی تذکرہ نہیں کیا۔ بلکہ نہرو نے تو ریاست کے بھارت سے الحاق کے دو برس بعد عوامی جمہوریہ چین کو کھل کے یقین دہانی کروائی کہ تبت پر بھارت کا کوئی سیاسی و جغرافیائی دعوی نہیں۔
البتہ جب انیس سو انسٹھ میں انھی پنڈت نہرو کے ہوتے بھارت نے سرحدی نقشے شایع کیے توتبت کے کئی سرحدی علاقے بھی بھارت کا حصہ دکھائے گئے۔ ویسے دنیا کا ایسا کون سا ملک ہے جس کا کسی دوسرے ملک سے سرحدی تنازعہ نہ ہو۔تو پھر ایسا کیا ہوا کہ چین اور بھارت کا یہ پرانا سرحدی جھگڑا آناً فانا نومبر انیس سو باسٹھ میں دس ہفتے کی ایک بھرپور لڑائی میں بدل گیا اور اس نے مستقبل کی علاقائی سیاست و اتحادی نظام کی شکل بدل کے رکھ دی۔
اس جنگ کی بنیادی وجہ چین اور بھارت کی ایک دوسرے کے علاقوں پر دعویداری نہیں بلکہ بھارت کا دہرا سیاسی رویہ تھا۔چین نے اگرچہ سن پچاس میں تبت میں دلائی لامہ کی حکومت کو چین کے ایک خودمختار علاقے کی انتظامیہ کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔مگر اس دوران یہ اطلاعات بھی آتی رہیں کہ بھارت نے ہمالیہ میں امریکی سی آئی اے کو کچھ خفیہ مواصلاتی چوکیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ تبت اور شنجیانگ کے علاقے میں چینی نقل و حرکت پر مسلسل نگاہ رکھی جا سکے۔
چین کو یہ مبینہ ثبوت بھی ملے کہ سی آئی اے بھارتی خفیہ اداروں کی مدد سے تبت کے دارلحکومت لہاسہ میں چین مخالف جذبات ابھارنے اور تبت کو ایک آزاد و خود مختار ملک میں تبدیل کروانے کے لیے دلائی لامہ کی مدد کر رہی ہے۔
اب یہ حقیقت تھی کہ چین کا وہم ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔مگر ہوا یوں کہ اس کے سبب تبت کی رہی سہی خود مختاری بھی ختم ہو گئی اور اسے چین کا باقاعدہ صوبہ قرار دے دیا گیا۔دلائی لامہ سے انتظامی اختیارات واپس لے لیے گئے اور انھیں محض ایک علامتی روحانی درجے تک محدود کر دیا گیا۔پھر انیس سو انسٹھ کے ایک روز اطلاع ملی کہ دلائی لامہ اپنے سیکڑوں حامیوں کے ہمراہ پاپیادہ فرار ہو کر بھارت پہنچ گئے۔حکومتِ بھارت نے انھیں ہماچل پردیش میں دھرم شالہ کے مقام پر ایک بڑی جگہ فراہم کر دی۔وہاں تبت کی جلاوطن حکومت کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا جو آج تک قائم ہے۔
دو ہزار نو میں خاکسار کو دلائی لامہ سے نصف گھنٹے کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔بہت سے سوالات میں ایک یہ بھی تھا کہ کیا واقعی ان کا پچاس کی دہائی میں سی آئی اے سے رابطہ تھا۔اس کا سیدھا جواب دینے کے بجائے دلائی لامہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ جب اتنے برس گذرنے کے بعد میں چینیوں کو یقین نہیں دلا سکا کہ اگر کوئی ایجنٹ ہوں گے بھی تو میرے علم میں نہیں تھے۔تو آپ بھی اپنی سمجھ کے مطابق اس سوال کا جواب خود ہی دے لیں۔میں تو جواب دیتے دیتے تھک گیا ہوں۔
بھارت میں تبت کی جلاوطن حکومت کے قیام کا مطلب چینی بھینسے کو لال رومال دکھانا تھا۔ چنانچہ دونوں ممالک کے مابین کسی بھی جامع جغرافیائی سمجھوتے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔اسی دوران چین اور سوویت یونین کی نظریاتی دوستی میں بھی دراڑ پڑ گئی۔ بھارت نے غیر جانبدار رہنے کے بجائے سوویت یونین سے اسٹرٹیجک تعاون بڑھا نے کا فیصلہ کیا اور یوں چین اور بھارت کے مابین مستقبل کے تعلقات کا ٹیڑھا سانچہ تیار ہو گیا۔اور پھر ایک روز نومبر انیس سو باسٹھ میں معلوم ہوا کہ چین نے بھارت پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا۔یہ ہم کریدیں گے اگلی قسط میں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)