مٹی کے ٹیلوں کا پراسرار شہر تلمبہ بھڑ

قدیم بھڑ سے قیمتی نوادرات ملنے کے باوجو تاحال محکمہ آثار قدیمہ نے اس کے آثار کو محفوظ نہیں کیا


توقیر کھرل June 21, 2020
ان پراسرار ٹیلوں اور کھنڈرات سے قبل یہاں ایک شہر آباد تھا۔ (فوٹو: فائل)

تلمبہ، پنجاب کے ضلع خانیوال میں دریائے راوی کنارے صدیوں سے متعدد بار مسمار ہوتا اور درخشندہ علمی، تہذیبی، دینی، ثقافتی و تاریخی اہمیت کا حامل قصبہ ہے۔

تلمبہ بہ لحاظ آبادی پانچویں مرتبہ اور بہ لحاظ مقام چوتھی جگہ آباد ہے۔ موجودہ شہر تلمبہ کو پانچویں آبادی اور چوتھا مقام قرار دیا جاتا ہے۔ اس قصبہ کی اولین تباہ کاریوں میں جانبِ جنوب بر مقام ''بھڑ'' ہے۔ بھِڑ مقامی زبان و لہجہ میں تباہ شدہ جگہ کو کہتے ہیں۔ اردو میں اس کےلیے لفظ کھنڈر بھی استعمال ہوتا ہے۔ قصبہ تلمبہ کی جانبِ جنوب مٹی کے یہ کھنڈرات خودبخود معرض وجود میں نہیں آئے اور نہ ہی کسی بادشاہ نے یہاں مٹی کا ٹیلہ تعمیر کیا تھا۔ ان پراسرار ٹیلوں اور کھنڈرات سے قبل یہاں ایک شہر آباد تھا جو صدیوں قبل کی تاریخ کا گواہ بھی ہے۔ وہ عظیم شہر جس پر سکندر سے لے کر تیمور تک کے فاتحین کی نظریں مرکوز رہیں، آج مٹی کے ٹیلوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔

پاکپتن کے ماہر تعلیم و محقق محمد اظہر اقبال کے غیر مطبوعہ مقالہ ''تلمبہ تاریخی تناظر میں'' کے مطابق، تاریخی لحاظ سے تلمبہ میں بھی کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں کلچر کی تبدیلی زیادہ قابل ذکر ہے۔ تلمبہ بھڑ کی کھدائی کے دوران مختلف قسم کے سکے اور دوسری دریافت شدہ اشیا عظمت رفتہ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جو ثقافتی طرز کی بنیادی تبدیلیوں کا مظہر ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ تلمبہ ملتان کو براستہ ہڑپہ، پاکپتن، دیپالپور اور لاہور سے دہلی کو ملانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔ اکثر فاتحین، سیاح اور حملہ آور اپنی مہمات کے سلسلے میں اسی راستے کو اختیار کرتے تھے، لہٰذا یہ شاہراہ بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ سکندر اعظم کے حملے کے دوران اس کے تلمبہ آنے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔



تلمبہ بھڑ کی 1963 میں کھدائی کے دوران سکوں کی دریافت سے بھی یہاں کی قدامت کا پتہ چلتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں جو شہر اور قصبے اپنی قدامت، علمی فضیلت، فوجی گزرگاہوں اور تجارتی گزرگاہوں وغیرہ کی وجہ سے مشہور ہیں، ان میں تلمبہ کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ قدیم آثار کی وجہ سے اس قصبے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

مختلف تاریخی حوالوں سے ''بھِڑ'' بیرونی حملہ آوروں کی تباہ کاریوں کا شکار ہوکر مسمار ہوئی، پھر آباد ہوئی اور ایک روایت کے مطابق تاتاریوں کے حملے سے نیست و نابود ہوئی۔ جس کے کھنڈرات المعروف ''بھِڑ'' تاحال موجود ہیں۔

مقامی افراد مذکورہ کھنڈرات کو تلمبہ کے پہاڑ بھی کہتے ہیں اور اس کے بلند ترین ٹیلے سے موجودہ تلمبہ کا نظارہ بھی کرتے ہیں۔ کھنڈرات سے کچھ فاصلے پر خوارزمی سادات کے بزرگانِ دین سید محمود شاہ اور شیر شاہ کی قبور ہیں۔ اس
دربار کو ماموں شیر بخاری کا دربار کہا جاتا ہے۔ اسی نسبت سے مٹی کے بلند و بالا کھنڈرات کو ''بھڑ ماموں شیر'' بھی کہا جاتا ہے۔ مذکورہ مقام کو امیر تیمور لنگ کی فوج کی لشکرکشی کے باعث میرپور ''بھڑ'' بھی کہا جاتا ہے۔

کھنڈرات کے گرد و نواح میں مٹی کی ٹھیکریاں اور جلے ہوئے برتنوں کے نشان بھی ملتے ہیں اور دو مقامات پر گہری خندقیں بھی نظر آتی ہیں۔ ایک خندق میں قدیمی اینٹوں کی عمارت بھی دیکھنے والوں کو متوجہ کرتی ہیں۔ ان کھنڈرات کے درمیان میں ایک پراسرار غار بھی ہے، جسے ''شیر کی کچھار'' کہا جاتا ہے۔ یہ تباہ حال غار کئی قصوں سے منسوب کیا جاتا ہے، جس کے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملے۔ سرکاری ریکارڈ میں ان کھنڈرات کو تلمبہ ماؤنٹ کہا جاتا ہے۔



قدیم مقامی بھڑ تلمبہ 1630 فٹ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اپنے آثار کی بدولت اپنی قدامت کا پتہ دیتا ہے۔ یہ ایک دفاعی قلعے کے اندر واقع ہے، جو شمال مشرق اور جنوب مغرب کی سمت ہے اور اس کی دو برجیاں ابھی تک محفوظ ہیں۔ جس سے ماہرین آثار قدیمہ سر جان مارشل اور الیگزینڈر کننگھم نے اس کی قدامت کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ ان کا سروے کرکے اس کے متعلق رپورٹس بھی لکھیں۔

یہاں کی کھدائی سے پانچ ادوار کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جو پانچویں صدی سے قبل مسیح سے لے کر سولہویں صدی قبل مسیح تک کے ادوار ہیں۔ اس قلعے کو سکندراعظم نے فتح کیا باقی ادوار سے یونانی، ساسانی، بُدھ مت اور مسلمانوں کے تعمیری خصوصیات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ قلعے کی حفاطت کےلیے جو دفاعی خندق تیار کی گئی تھی، اس کے بھی واضح آثار ملے ہیں۔ کھدائی سے دستیاب ہونے والے سکے بھی اس کی قدامت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

مامو شیر کے کھنڈرات سے متعلق ماہر آثار قدیمہ الیگزینڈر کننگھم یوں رقم طراز ہیں ''یہ ایک وسیع شہر تھا، جس کے جنوب میں ایک عظیم الشان قلعہ تقریباً ایک ہزار مربع فٹ کا موجود تھا۔ باہر کی فصیل 200 فٹ موٹی اور اس کے اندر کی طرف اسی حجم کی ایک اور فصیل تھی۔ دونوں فصیلوں کے باہر کی طرف2.1/2x8x12 فٹ حجم کی بڑی بڑی اینٹیں لگی ہوئی تھیں۔ ان فصیلوں کے اندر کی طرف ایک خندق تقریباً سو فٹ چوڑی موجود تھی اور اندرونی قلعہ تقریباً 400 مربع فٹ تھا، جس کی دیواریں چالیس فٹ بلند تھیں۔ اس قلعے کے درمیان میں ستر فٹ اونچا ایک برج تھا، جس کی بلندی سے تمام علاقے پر نظر پڑتی تھی۔ اینٹوں کے ٹکڑے جو اِدھر اُدھر بکھرے پڑے ہیں اور عمارت کی ساخت وغیرہ سے باشندگان علاقہ کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ دیواریں ابتدا میں باہر کی طرف سے پختہ تھیں۔''

 

یہاں شہر آباد تھا

محقق و مولف بشیر سہو تاریخ ضلع خانیوال میں رقم طراز ہیں کہ پاکستان کے نامور آثار قدیمہ ڈاکٹر رفیق مغل نے 1963 میں تلمبہ کے مقام پر کھدائی کی۔ دیگر اشیا کے علاوہ سرخ رنگ کے پیالے کا ایک ٹکرا ملا، جسے بڑی ہی نفاست سے بنایا گیا اور آگ میں اچھی طرح سے پکایا گیا تھا۔ اس ٹکرے پر سیاہ رنگ میں بادشاہ کا نام منیندرا لکھا ہے۔ برتن کا یہ ٹکڑا بادشاہ منیندرا کے دور کی یادگار ہے۔

منیندرا کی حکومت کابل سے یوپی تک پھیلی ہوئی تھی۔ 155 قبل مسیح میں تخت نشین ہوا۔ اس نے تلمبہ کو صدر مقام بنایا تھا ۔ ارض پاک کی تاریخ کے مولف رشید اختر ندوی کے مطابق مینندرا کا پایہ تخت تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ یہ شہر نہایت عمدہ، زرخیز و شاداب اور بہت بڑے ٹیلے کے دامن میں واقع ہے۔ اس کے گرد اچھی قسم کے باغات، باغیچے، تالاب اور جھیلیں پھیلی ہوئی ہیں۔ دریا موجزن ہے اور ندی نالے بھی ہیں۔ گھنے جنگل بھی ہیں اور سرسبز ٹیلے بھی ہیں۔ شہر کی تعمیر کسی عظیم کاریگر نے بڑی ہی دانش مندی سے کی ہے۔ اس کی فصیل انتہائی مضبوط اور سر بفلک ہے۔ شہر کے بازار ہاتھیوں، گھوڑوں اور گاڑیوں سے ہر وقت بھرے رہتے ہیں۔

 

ماضی کا آباد تلمبہ کیسے تباہ ہوا؟

ایڈووکیٹ غلام غوث تلمبوی کہتے ہیں، تاریخی تناظر میں یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے کہ اس کو کس بادشاہ یا حملہ آور نے تباہ کیا۔ لیکن اس کی کھدائی کے دوران کچھ شواہد ملے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہر کو جلایا گیا ہے۔ کھنڈرات کے گرد و نواح میں جلی ہوئی ٹھیکریاں بھی اس امر کو ظاہر کرتی ہیں کہ اس شہر میں آتش زدگی کی گئی تھی۔

تاریخ ملتان کے مصنف منشی حکم چند لکھتے ہیں۔ ''1025 میں محمود غزنوی ہنگام مراجمعت از دہلی اس طرف آیا اور بہ سبب لوٹ مار سرداران اور نہ آنے واسطے استقبال روساء اس علاقے کے حکم دیا کہ تمام قصبات کو آتش زنی اور غاصبان کو قتل کرو۔ چنانچہ حسب الحکم بادشاہ فوج نے تمام شہر اور قلعہ کو لوٹ کر اور حاکم وقت کو شکست دے کر تمام جگہ آگ لگا کر نیست و نابود کردیا۔ کہا اب ایک نشان قلعہ کھنڈرات میں نظر آتا ہے۔''

محقق و دانشور بشر سہو ڈاکٹر رفیق مغل کی رپورٹ کے تناظر میں لکتے ہیں کہ کھنڈرات کی کھدائی کے دوران دو مرتبہ آتش زدگی کے نشانات ملے ہیں۔

پرانا تلمبہ کو صرف حملہ آوروں نے ہی نہیں بلکہ تلمبہ کے پرانے ساتھی راوی نے بھی کئی مرتبہ تباہ کیا۔ کھنڈرات سے قبل اجڑنے والے تلمبہ کا علاقہ اجڑنے لگا، لوگ گھر بار چھوڑ کر مختلف مقامات پر منتقل ہوئے، پررونق آبادیوں کی جگہ کھنڈرات نے لے لی اور پھر رفتہ رفتہ ان کے آثار ٹیلوں کی شکل اختیار کرگئے۔ 1504 میں دریائے راوی نے اپنا رخ بدلا اور قدیمی گزرگاہ سے دو تین کلومیٹر شمال میں بہنے لگا۔ پرانا تلمبہ آہستہ آہستہ اجڑنے لگا۔ لوگ نقل مکانی کرکے دریا کے کنارے آباد ہوتے گئے۔ یوں تلمبہ کا موجودہ شہر وجود میں آیا۔ قدیمی تلمبہ نے کھنڈرات کی شکل اختیار کرلی جسے مقامی زبان و لہجہ میں بھڑ کہتے ہیں۔

 

کھنڈرات کی کھدائی

ڈاکٹر محمد رفیق مغل نے 1963 میں پہلی مرتبہ سائنسی بنیادوں پر تلمبہ کے کھنڈر کی کھدائی کی۔ اس مقصد کےلیے 15x55 فٹ حجم کا ایک گڑھا کھودا اور دوسرا گڑھا 17x25 فٹ کا کھودا تھا۔ 61 فٹ گہری کھدائی کرنے پر قدرتی زمین کی سطح آئی۔ اس طرح دو ہزار سالہ پرانی تاریخ پر روشنی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں سکوں سے کافی مدد ملی۔

ڈاکٹر رفیق مغل نے کھدائی کے دوران دو خندقیں کھدوائیں۔ ڈاکٹر رفیق مغل کہتے ہیں کہ کھنڈر کا اکثر مواد ہمارے علم کے مطابق بالکل نئی طرز کا تھا، اس لیے کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ پہلی خندق سے 175 قبل مسیح کا سکہ اپا لوڈوٹس ملا۔ نیچے آبادی کی 5 سطحیں ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہاں اولین آبادی چھٹی صدی قبل مسیح میں لازمی تھی۔

پہلی کھدائی کے دوران ہر سطح میں مختلف اشیا ملیں، جن میں قدیمی سکے نمایاں ہیں۔ تلمبہ بھِڑ پر آبادی 16 ویں صدی عیسوی تک آباد رہی۔ بھِڑ سے نکلنے والے مواد کے بارے میں ڈاکٹر رفیق مغل نے تلمبہ بھڑ کی تاریخیں عبوری طور پر متعین کی ہیں، جو غیر حتمی ہیں۔ کھنڈرات کی دوسری خندق میں جلی ہوئی اینٹیں، ٹوٹے ہوئے اور سالم برتن اور قدیمی سکے بھی کثیر تعداد میں ملے ہیں۔



1963 میں ڈاکٹر مغل کی رپورٹ کے مطابق کھنڈر تلمبہ کا برج 74 فٹ بلند تھا، لمبائی 630 فٹ شمالاً جنوباً اور 1220 فٹ چوڑائی ہے۔ 40 فٹ بلند کھنڈرات نے اندرونی بلند تر کھنڈر کو گھیر رکھا ہے، جو مربع شکل کا ہے۔ جنوبی حصہ 600 فٹ چوڑا ہے۔ شمالی مغربی کونہ 170 فٹ کھلی جگہ ہے، جو 100 فٹ سے زیادہ پانی کےلیے کھلی رکھی گئی ہے۔ جنوب مغربی کونے کے مرکزی بھڑ کے گرد خندق موجود ہے، جس کا مرکزی حصہ بلند ترین ہے، جو تقریباً 600 فٹ مربع کے رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ شمالی مشرقی اور جنوب مغربی کونوں پر دو برج ہیں۔ علاوہ ازیں اس کے جنوب میں دیوار ہے۔ مرکزی بھڑ کا جنوب مشرقی کونہ بلند ترین ہے، جس کی بلندی 74 فٹ ہے۔

 

کھنڈرات سے کیا ملا؟

بھڑ تلمبہ کے کھنڈرات کی کھدائی کے دوران نوادرات کی تفصیل بیان کی جائے تو مندرجہ ذیل اشیا ملی ہیں۔ قابل دید نقش و نگار پر مبنی قدیم برتن، چھکڑوں کے پہیے، آٹا پیسنے کی چکی، منقش مرتبان (جس پر انسانی اشکال کنندہ ہیں، ایک طرف دو مردوں نے ایک ہاتھ بلند کر رکھا ہے جبکہ بایاں ہاتھ کمر پر رکھا ہوا ہے) انسانی مورتیاں، عورتوں کے مجسمے ملے ہیں، جنہوں نے زیورات بھی پہنے ہوئے تھے۔ جانورکی مورتیاں ملی ہیں، شیشے کی چیزیں، سیپ کی چیزیں، دھاتی چیزوں میں سونے کا چھوٹا چمچہ، تانبہ کانسی اور شیشے کی اشیا، کانسی اور تانبے کی چیزیں، لوہے اور پتھر کی چیزیں۔ سکوں میں علاؤالدین شاہ محمد کے تانبے کے سکے، شہاب الدین محمد غوری کے دور کا چاندی کا سکہ اور پالوڈوڈٹس کا قدیمی سکہ ملا ہے۔



کھدائی کے دوران دو مرتبہ آتش زدگی کے نشانات ملے ہیں، جو کہ اٹھارہ اور نو فٹ کی گہرائی میں ہیں۔ 56 فٹ کی گہرائی پر عمارتوں کے نشانات ملے ہیں۔ یہ لوگ گارے اور گارے کی اینٹوں سے عمارتیں بناتے تھے۔ ان نشانات اور برتنوں سے اس کی تاریخ 4 صدی قبل مسیح کی متعین کی گئی ہیں، جو اس شہر کے پہلے باشندے تھے۔ 42 فٹ کی گہرائی پر ابتدائی دور کا خاتمہ ہوا اور برتن مکمل طور پر مختلف اور نئے دور کے ملتے ہیں اور یہاں مذہبی نوعیت کی عمارت سے اس کی تاریخ کو ہندو بدھ دور سے منسوب کیا گیا ہے۔

قدیم بھڑ سے قیمتی نوادرات ملنے کے باوجو تاحال محکمہ آثار قدیمہ نے اس کے آثار کو محفوظ نہیں کیا۔ تلمبہ ماؤنٹ سرکاری و نجی افراد کی جانب سے تجاوزات کا شکار ہوکر اپنی اصل شکل کھوتا جارہا ہے۔ اگر فوری طور پر ان کو بچانے کےلیے اقدامات نہ کیے گئے تو شاید کچھ سال بعد ان قیمتی اثاثوں کے نشانات بھی نہ ملیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں