پاکستان کی نئی آبدوزسے بھارتی سرکار پریشان

دشمن کو اپنے ساحلوں اور بندرگاہوں سے دور رکھنے کی خاطرپاکستانیہنرمندوںنے ایک نیا ہتھیار تیار کر لیا ۔۔۔ خصوصی رپورٹ


دشمن کو اپنے ساحلوں اور بندرگاہوں سے دور رکھنے کی خاطرپاکستانیہنرمندوںنے ایک نیا ہتھیار تیار کر لیا ۔۔۔ خصوصی رپورٹ

آج کل خلا میں ہزاروں میٹر کی بلندی پر اڑتے ان گنت مصنوعی سیارے زمین پر ہر پل نظر رکھتے ہیں۔ ان میں عسکری سیٹلائٹ بھی شامل ہیں۔ چند ماہ قبل ایک خلائی سیارہ کراچی کے نزدیک واقع پاک بحریہ کی پی این ایس اقبال بیس کے اوپر سے گزرا۔ اس نے بیس کی ایسی تصاویر اتاریں جنہوں نے بھارتی بحریہ کے حلقوں میں ہلچل مچادی۔ دراصل تصاویر میں صاف نظر آرہا ہے کہ بیس پر ایک چھوٹی آبدوز تیاری کے مراحل میں ہے۔

پی این ایس اقبال پاک بحریہ کی کمانڈو فورس، ایس ایس جی (اسپیشل سروسز گروپ) کا ہیڈکوارٹر ہے۔ یہ خصوصی فوج 1966ء میں قائم کی گئی تھی تاکہ دشمن پر غیر روایتی حملے کیے جاسکیں۔ یہ فوج اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور عسکری سرگرمیوں کے لیے چھوٹے جنگی جہاز، چھوٹی آبدوزیں اور کشتیاں استعمال کرتی ہے۔

1993ء میں پاکستان نے پاک بحریہ کی ایس ایس جی فورس کے لیے ایک اطالوی کمپنی، کوس موایس ( Cos.Mo.S)سے تین چھوٹی آبدوزیں خریدی تھیں۔ یہ عسکری اصلاح میں ''مڈگیٹ''( midget) کہلاتی ہیں۔ پاکستان میں انہیں ''ایکس کرافٹ'' کہا جاتا ہے۔ 2015ء میں پاک بحریہ کو احساس ہوا کہ یہ آبدوزیں فرسودہ ہوچکیں۔ چناں چہ فیصلہ ہوا کہ نئی آبدوزیں حاصل کی جائیں۔ خاص بات یہ کہ طے پایا، اپنے وسائل بروئے لاتے ہوئے یہ آبدوزیں تیار ہونی چاہیں تاکہ خود انحصاری کی دولت پائی جا سکے۔

2017ء میں پاکستانی سائنس داں، انجینئر اور ہنرمند نئی چھوٹی آبدوز بنانے کے لئے اپنے کام میں جت گئے۔ کراچی میں واقع پاک بحریہ کی ورکشاپوں میں ہی یہ تاریخ ساز سرگرمی شروع ہوئی۔ اب غیر ملکی خلائی سیاروں کی تصاویر سے عیاں ہے کہ پاکستانی ہنرمندوں کا شاہکار جلوہ گر ہوچکا۔

یہ خوشی و مسّرت کا مقام ہے کہ پاکستانی ماہرین رفتہ رفتہ ایسے بڑے ہتھیار بھی تیار کرنے لگے ہیں جنہیں پہلے صرف مغربی عسکری کمپنیاں بناتی تھیں۔ وہ لڑاکا طیارے، ٹینک، توپیں، جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں بنانے کی ٹیکنالوجی پر اجارہ دار بن گئی تھیں لیکن چین، ترکی اور پاکستان خاص طور پر مل جل کر مغربی اسلحہ ساز کپمنیوں کی اجارہ داری توڑنے کی سعی کررہے ہیں۔

یہ ایک انقلابی اور امید افزا تبدیلی ہے۔ پاکستان اور ترکی کے ماہرین عسکریات اشتراک اور مساعی جمیلہ سے یقینا ایسے جدید ترین ہتھیار بناسکتے ہیں جو مغربی ساختہ اسلحہ کا کم از کم مقابلہ ضرور کرلیں گے۔ یوں اسلامی ممالک پھر امریکی و یورپی ہتھیاروں کے محتاج نہیں رہیں گے۔ فی الوقت تمام اسلامی ممالک امریکہ یا کسی یورپی ملک سے جدید ہتھیار خریدنے پر مجبور ہیں۔

منڈلاتے خطرات

بحیرہ عرب کو دشمن سے پاک رکھنے کی ذمے دار پاک بحریہ ہے۔یہ سمندر بحر ہند کا حصہ ہے۔بدلتے عالمی حالات میں ابھرتی طاقت چین کے لیے بحر ہند اور کشمیر اہم اور تدبیراتی جغرافیائی مقامات بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے، جب بھارت نے کشمیر کے علاقے لداخ میں اپنی چودھراہٹ دکھانی چاہی تو چین نے منہ توڑ جواب دے کر اسے بتادیا کہ وہاں بھارتی توسیع پسندی کے عزائم پورے نہیں ہوسکتے۔اُدھر بحیرہ جنوبی چین اور بحرالکاہل میں چین اور امریکا کے مابین کشمکش بڑھ رہی ہے۔ علاقے میں امریکا اپنے اتحادیوں کو ایک صف میں لانے کی سعی کررہا ہے تاکہ چین کا مقابلہ ہوسکے۔

بھارت اور آسٹریلیا کا بڑھتا عسکری اشتراک اسی حکمت عملی کی کڑی ہے۔ چین اپنی بیشتر عالمی تجارت بحری جہازوں کے ذریعے انجام دیتا ہے۔ لہٰذا اب وہ بحیرہ عرب کو متبادل سمندری راستے کے طور پر دیکھنے لگا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ مستقبل میں امریکی عسکری اتحاد نے بحرالکاہل، بحرہند اور بحیرہ جنوبی چین کی ناکہ بندی کردی تو وہ بحریہ عرب (گوادر) کے راستے اپنی عالمی تجارت کسی حد تک بحال رکھ سکے۔

یہی وجہ ہے، چین بحیرہ عرب میں بحری دفاع مضبوط تر بنانے کے لیے پاکستان کی بھی مدد کررہا ہے۔ پاک بحریہ پہلے ہی اپنے پانیوں میں متحرک و سرگرم تھی۔ اب چین اور ترکی کے اشتراک سے اس کی عسکری قوت میں اضافہ ہورہا ہے۔اگلے چند برس میں دونوں دوست ممالک کے تعاون سے وہ اس قابل ہوجائے گی کہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن، بھارت کی بحری قوت کا سامنا کرسکے۔

مڈگیٹ کیا ہے؟

آبدوز بحری دفاع کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے، پاکستان نے 2015ء میں چین کے ساتھ آٹھ ٹائپ 039B آبدوزیں خریدنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان میں سے چار چینی اور پاکستانی ماہرین پاکستان میں تیار کریں گے۔ یوں پاکستانی ہنرمندوں کو آبدوز تیار کرنے کی جدید عسکری ٹکنالوجی سیکھنے اور جاننے کا موقع ملے گا۔

2016ء میں پاکستان نے اپنی اگوسٹا 90B آبدوزوں کو زیادہ جدید اور مؤثر بنانے کا ٹھیکہ ترک اسلحہ ساز کمپنی، ایس ٹی ایم کوعطا کیا۔ طے پایا کہ ترک کمپنی آبدوزیں بنانے کے سلسلے میںٹیکنالوجی بھی پاکستان کو فراہم کرے گی۔ بعض مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے اشتراک عمل ہی سے پاکستان کی نئی چھوٹی آبدوز بھی تیار ہورہی ہے۔



مڈگیٹ آبدوز ایس ایس جی کے کمانڈوز کو ٹارگٹ تک پہنچانے میں استعمال ہوتی ہے۔ تاہم اس سے چھوٹی اقسام کے تارپیڈو بھی چھوڑے جاسکتے ہیں۔ نیز یہ سمندر میں بارودی سرنگیں بچھانے میں بھی کام آتی ہے۔ غرض بحری جنگ میں میڈگیٹ آبدوز کا اپنا ایک اہم کردار ہے۔ یہ دفاع کے ساتھ ساتھ حملے میں بھی کام آتی ہے۔ خاص طور پر اس کے ذریعے دشمن کی عسکری سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جاسکتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس نے بھارتی بحریہ اور مودی سرکار میں بے چینی کی لہر دوڑا دی۔

پاکستان کی نئی میڈگیٹ آبدوز ایک سربستہ راز ہے۔ کسی کو خبر نہیں کہ اس میں کیسے جدید ترین آلات نصب ہیں۔ امریکی ماہر عسکریات، ایچ آئی سٹن نے رسالہ فوربس میں پاکستان ساختہ مڈگیٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ''اس کا ڈیزائن مقامی ہے۔ گویا اسے کسی بیرون ملک سے مستعار نہیں لیا گیا۔'' یوں اس نے پاکستانی ماہرین کو خراج تحسین پیش کیا جو جدت اور ترقی کے خواہاں ہیں۔

بھارتی بحریہ کے پالیسی سازوں کو خطرہ ہے کہ اگر پاکستان نے جدید ترین مڈگیٹ آبدوزیں بنالیں تو وہ خصوصاً سرکریک، گجرات حتیٰ کہ ممبئی تک کے علاقوں میںاس کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ یوں بھارتی بحریہ اچانک حملہ کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھے گی۔ وجہ یہ ہے کہ مڈگیٹ آبدوزوں کی دیکھ بھال پر زیادہ خرچ نہیں آتا اور ان کا استعمال بھی بڑی آبدوزوں کی نسبت آسان ہے۔ لہٰذا انہیں طویل عرصہ زیر آب رکھنا ممکن ہے۔

بہترین عسکری حکمت عملی

ڈاکٹرپرکاش پینرسلوان بنگلور میں واقع ایک عسکری تھنک ٹینک، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایڈاونسڈ سٹڈیز سے وابستہ ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ پاکستان اب زیادہ سے زیادہ آبدوزیں حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بھارتی جنگی جہازوں کو بحیرہ عرب سے دور رکھنے کی صلاحیت حاصل کرلی جائے۔ (یہ حکمت عملی عسکری اصطلاح میں ''anti-access and area-denial (A2/AD)''کہلاتی ہے)۔ گویا مستقبل میں آبدوزیں کسی بحری جنگ کی صورت میں پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہیں۔

پاکستان کی نئی مڈگٹ آبدوز تقریباً 60 فٹ لمبی ہے۔ اس کی دیگر خصوصیات ابھی پردہ اخفا میں ہیں۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ وہ کارکردگی میں ریٹائر کی جانے والی ایکس کرافٹ سے بہتر ہوں گی۔اطالوی کمپنی کی ساختہ ایکس کرافٹ سطح آب پر 9 ناٹ (17 کلومیٹر فی گھنٹہ) اور زیر آب 6 ناٹ (11 کلو میٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ بیس دن مسلسل زیر آب رہ سکتی ہے۔ اس کا وزن 102 ٹن ہے۔ سمندر کی 110 میٹر (360 فٹ) گہرائی تک جاسکتی ہے۔ اس میں چودہ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ نئی پاکستانی مڈگٹ آبدوز بھی انہی خصوصیات کی حامل ہوگی۔

بحریہ کی اصطلاح میں مڈگٹ وہ آبدوز ہے جس کا وزن 150 ٹن سے کم ہو۔ یہ آبدوز ایک یا دو افراد چلاسکتے ہیں۔ دنیا کی اولین مڈگٹ آبدوزیں برطانیہ میں بنائی گئیں۔ مقصد بندرگاہوں کی حفاظت اور دفاع کرنا تھا۔ بعدازاں جرمنی اور جاپان نے ایسی مڈگٹ آبدوزیں ایجاد کرلیں جو حملے میں بھی کام آتی تھیں۔ ان کو دوسری جنگ کے دوران وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔

پاک بحریہ آبدوزوں کے علاوہ جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی سے لیس فریگیٹ، جنگی جہاز، ساحلوں کی نگرانی کرنے والی بڑی کشتیاں اور تیز رفتار میزائل بردار کشتیاں خریدنے کا بھی پروگرام رکھتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ نہ صرف قومی بحری دفاع مضبوط ترین ہوسکے بلکہ بحریہ عرب میں بھی اپنی سپرمیسی ثابت کردی جائے۔یوں دشمن حملہ کرنے سے قبل ہزار بار سوچنے پر مجبور ہوگا۔ ماہرین عسکریات کہتے ہیں ''دفاع کو بہتر سے بہتر بنالینا ایک بہترین عسکری حکمت عملی ہے کیونکہ اسے اپنا کر ایک ملک طاقتور حریف سے بھی شکست نہیں کھاسکتا۔''

ترک پاکستانی بھائی بھائی
پاکستان اور بردار اسلامی ملک ترکی کے مابین قدیم مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی رشتے استوار ہیں۔ اب بتدریج عسکری رشتہ بھی استوار ہورہا ہے۔ ترکی ماضی میں سپرپاور رہا ہے۔آج بھی وہ دنیا کے ان دس بڑے ممالک میں شامل ہے جو بری، فضائی اور بحری افواج کے لیے تقریباً ہر قسم کا چھوٹا بڑا اسلحہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چناں چہ پاکستان ترکوں کے عسکری تجربے و مہارت سے مستفید ہوسکتا ہے۔

2005ء میں ترک بحریہ نے ایک عظیم الشان عسکری منصوبہ'' ملّی جم ''(MILGEM project) شروع کیا تھا تاکہ درمیانے سائز کے جنگی جہاز (فریگیٹ) اور چھوٹے (کورویٹی) بنائے جاسکیں۔ جولائی 2018ء میں پاکستان اور ترکی کے مابین طے پایا کہ اسی منصوبے کے تحت پاک بحریہ کے لیے بھی چار کورویٹی تیار کیے جائیں گے۔خاص بات یہ ہے کہ دو ایسے جنگی جہاز پاک بحریہ اپنے کارخانے، کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس میں تیار کرے گی۔

یوں پاک بحریہ کے ماہرین کو جنگی جہاز تیار کرنے کا تجربہ اور عسکری ٹیکنالوجی میسر آئے گی۔ پچھلے دنوں کراچی شپ یارڈ میں ایک کورویٹی تیار کرنے کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جو باعث مسّرت امر ہے۔

بحری عسکری اصطلاح میں کورویٹی (corvette)ایسا چھوٹا جنگی جہاز ہے جس کا وزن 500 سے 2000 ٹن کے مابین ہو۔ ترکی اپنے منصوبے کے تحت ایڈا کلاس کورویٹی تیار کررہا ہے جو پاک بحریہ کو بھی دستیاب ہوگی۔ ایڈا کلاس کورویٹی کا وزن 2400 ٹن ہے۔



گویا اسے چھوٹا فریگیٹ کہنا ممکن ہے۔ایڈا کلاس کورویٹی ایک کثیر المقاصد (ملٹی رول) بحری جنگی جہاز ہے۔ اس میں ایک ہیلی کاپٹر پیڈ بھی ہے۔ یہ دشمن پر حملے کرنے میں کام آئے گا اور اس سے دفاع کرنا بھی ممکن ہے۔ جاسوسی اور نگرانی کے فرائض بھی انجام دیتا ہے۔ اسے تیار کرتے ہوئے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ دشمن کے ریڈار اسے ڈھونڈتے ہوئے دقت محسوس کریں گے۔ اس سے سمندر سے زمین پر مار کرنے والے میزائل چھوڑے جاسکتے ہیں۔ نیز یہ دشمن کے بحری جنگی جہازوں اور میزائلوں کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ غرض ایڈاکلاس کورویٹی ملنے سے پاک بحریہ کی قوت بڑھ جائے گی۔ ترکی یورپی عسکری اتحاد، نیٹو کا رکن ہے۔

اسی لیے نیٹو اپنی ملٹری ٹیکنالوجی ترکی کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔ اس باعث ترکی کے تیار کردہ ہتھیار قابل اعتماد اور جدید ہیں۔پاک بحریہ کو دیئے جانے والے چار کورویٹی ''جناح کلاس'' کے نام سے موسوم ہوں گے۔ ان میں ترک کمپنی، رااکسٹین کا تیارکردہ جدید ترین اینٹی شپ میزائل اتماکا (Atmaca) نصب ہوگا۔

800 کلو وزنی یہ میزائل 250 کلو میٹر کی مار رکھتا ہے۔ جناح کلاس کورویٹی میں دشمن کے میزائل کو نشانہ بنانے والاRIM-116 Rolling Airframe Missile میزائل بھی نصب ہوگا۔پاک بحریہ اس وقت 8 فریگیٹ رکھتی ہے۔

اس نے چار فریگیٹ آرڈر کررکھے ہیں۔ یہ چین کے بنے Type054AP فریگیٹ ہیں جو اگلے سال اواخر تک پاکستان کو مل جائیں گے۔ پاک بحریہ فی الوقت صرف ایک کورویٹی، پی این ایس یرموک رکھتی ہے۔ لیکن اس نے پانچ آرڈر کررکھے ہیں۔ چار تو ترکی کے اشتراک سے بن رہے ہیں۔ ایک کورویٹی ہالینڈ کی اسلحہ ساز کمپنی، ڈیمن تیار کررہی ہے۔ اسی کمپنی نے پی این ایس یرموک بنایا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں