بانو قدسیہ ایک عہد… اور سحر انگیز افسانے
قاری تادیر محو حیرت اور تجسس کی فضا میں گم رہتا ہے۔
گزشتہ دنوں کئی اہم کتابیں میرے زیر مطالعہ رہیں، انھی میں ایک خاص کتاب بعنوان ''بانو قدسیہ ایک عہد ایک داستان'' بھی شامل تھی، خوبصورت سرورق بالکل بانو قدسیہ کی پروقار شخصیت کی طرح، تالیف جناب رانا عامر رحمن محمود کی ہے، عامر محمود نے بے حد محبت عقیدت و احترام کے ساتھ کتاب کو منصہ شہود پر لانے کا اہتمام کیا ہے، اہم قلم کاروں سے مضامین لکھوائے اور انھیں یکجا کیا ہے۔ کتاب قلم فاؤنڈیشن سے شایع ہوئی ہے۔
دوسری کتاب افسانوں کی ہے ''دھوپ میں جلتے خواب'' اس کی مصنفہ نغمانہ شیخ ہیں، نغمانہ شیخ تقریباً دو دہائیوں سے قلم کا جادو جگا رہی ہیں ان کا یہ پہلا مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔ ''دیر آید درست آید'' والا معاملہ ہے ''ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا''نغمانہ کے افسانوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں، انھوں نے عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے بلکہ خون دل سے افسانے تخلیق کیے ہیں تحریریں وہی موثر ہوتی ہیں جو خون جگر سے لکھی جاتی ہیں۔ تجربات کا نچوڑ، حسن بیان نے انھیں دو آتشہ بنا دیا ہے۔
قاری تادیر محو حیرت اور تجسس کی فضا میں گم رہتا ہے۔ تیسری کتاب ''دنیا کے میلے میں'' اس میں پندرہ افسانے شامل ہیں اور اس کے مصنف توصیف چغتائی ہیں۔ توصیف صاحب نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں تقریباً پچاس برس سے کہانیاں لکھ رہا ہوں، میں کہانی نہیں لکھتا ہر کہانی مجھے لکھتی ہے۔
بے شک قلم کار حساس دل رکھتا ہے اسی بنا پر وہ لوگوں کے دکھوں کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور پھر اس اذیت اور ظلم کو اپنی تحریروں میں سلیقے سے ڈھالتا ہے۔ اور یہ واقعات افسانے، شاعری اور دوسری اصناف سخن میں ڈھل جاتے ہیں۔ مذکورہ کتابوں کے مختصراً تعارف کے بعد اس کی اہمیت، خصوصیات اور فن پر روشنی ڈالنے کے لیے بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں اسی ترتیب کے ساتھ جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا کہ بانو قدسیہ پر شایع ہونے والی کتاب اپنی تحریروں اور دلفریب ٹائٹل کے حوالے سے ایک بے مثال کتاب ہے اور بانو آپا کی ہستی بھی نایاب و بے مثال رہی ہے نیکی کے چرچے میں شہرت کے ڈنکے بجتے ہیں سادگی، انکساری اور شرافت کا بول بالا ہے، اس کے ساتھ تخلیقیت کے سنہرے رنگ نمایاں ہیں، الفاظ کی جدت و ندرت نے اور خیال آفرینی نے ان کی تحریروں میں بلا کی کشش اور معنویت بھر دی ہے۔
ان کے ناول ''راجہ گدھ'' کا شمار شہرہ آفاق ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہی ناول بانو آپا کی شناخت ٹھہرا۔ بانو آپا کی یادوں اور ان کے ادبی و علمی کارناموں، ذاتی زندگی کے اوراق سے کتاب مرصع ہے ان اعلیٰ حضرات کے مضامین شامل اشاعت ہیں جن کا تعلق بانو آپا سے بہت گہرا تھا اور جو انھیں قریب سے جانتے تھے ان کے گھرانے اور حالات زیست سے اچھی طرح واقف تھے، پہلا مضمون رانا عامر الرحمن محمود صاحب کا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ آپا جی بانو قدسیہ 3 فروری2017 کو بھرپور علمی، ادبی، روحانی زندگی گزارنے کے بعد ایک دنیا سے دوسری دنیا میں چلی گئیں۔
بانو آپا نے تعلیم، ادب اور روحانیت کی دنیا میں بلند مقام پایا اور اپنے کام سے ایک عہد کو متاثر کیا ''راجہ گدھ'' ان کی ایسی باکمال اور لازوال کتاب ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے اعلیٰ ترین نصاب میں شامل ہے۔ جناب ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ خدا کی قسم وہ پاکستان کی سب سے بڑی خاتون تھیں ان سے زیادہ احترام کے قابل کوئی نہ تھا وہ اس نسل کا آخری چراغ تھیں جس میں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد شامل تھے۔
جناب مستنصر حسین تارڑ نے اپنے مضمون بعنوان ''صاحباں کے مرنے پر کل خدائی آگئی'' میں بانو قدسیہ کے سفر آخرت کا نقشہ جس دردمندی کے ساتھ کھینچا ہے، اس سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے بانو قدسیہ ہر خاص و عام کی محبوب ترین ہستی تھیں۔
وقت الوداع کا منظر ملاحظہ فرمائیے ''ایک مرتبہ پھر ماڈل ٹاؤن کے گھر ''داستان سرائے'' کی جانب جتنی گلیاں جاتی تھیں، جتنی سڑکیں اس سرائے کی طرف اترتی تھیں وہ سب کی سب لوگوں کے ہجوم سے اٹی پڑی تھیں، نوجوان عورتیں اور بوڑھیاں جیسے گھر سے کسی ماتم کدہ کی جانب رواں ہوں ان کے چہرے الم کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے صرف ان کی آنکھیں تھیں جو آنسوؤں سے روشن ہوتی تھیں کتاب میں 53 مضامین شامل ہیں، تمام مضامین بانو قدسیہ کی زندگی کا مکمل طور پر احاطہ کرتے ہیں اس قدر دل فریب کتاب شایع کرنے پر میں خلوص دل کے ساتھ پبلشر رانا عامر رحمن محمود کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
''دھوپ میں جلتے خواب'' جیساکہ نام سے ظاہر ہے مذکورہ مجموعہ میں وہی افسانے شامل ہیں جن کے کرداروں نے تپتی دھوپ میں زندگی کا امرت پیا ہے اور ارمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ہے تمناؤں کی چتا اپنے ہاتھوں سے جلائی ہے کہ وقت کا یہی تقاضا تھا، کشتی کو ڈوبنا ہی تھا سو وہ ڈوب گئی لیکن ایک داستان ایک کہانی طشت از بام کرگئی کہ اے قلم کارو! لکھو کہ ہم جیسے لوگ کس قدر بے بس اور دنیا کے بازار میں اس پنچھی کی مانند پھینک دیے جاتے ہیں جس کے بال و پر کاٹ دیے گئے ہوں۔
جی ہاں نغمانہ شیخ کے افسانے اسی قبیل کے ہیں، تنہا عورت رات کی سیاہی، بہکتے اور بھٹکتے ہوئے قدم اور پھر شیطان کی آمد اور اس کی فتنہ پروری اور پھر عمر بھر کا پچھتاوا دل کے بوجھ اور تڑپتے ضمیر کو لوریاں دینے کے لیے گھر میں درس و تدریس اور قرآن خوانی کا ورد، اگربتی کا پاکیزہ دھواں مولوی صاحب کی آمد۔ نغمانہ شیخ کے افسانے ''تنہائی'' میں ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے افسانہ ہم عمر، سپردگی کا ملال، خود فریبی، ان افسانوں میں خواتین کے معاشرتی مسائل، ذہنی کرب اور نفسیاتی الجھنوں سے پیدا ہونے والے دکھوں، غموں، یاسیت اور کرب نے کہانیوں کی شکل اختیار کرلی ہے، نغمانہ شیخ کہانی لکھنے اور انھیں افسانوں کے قالب میں ڈھالنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں وہ ایک بہترین تخلیق کار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اللہ انھیں فن افسانہ نگاری میں مزید عروج سے نوازے آمین۔
''دنیا کے میلے میں'' اس کتاب سے میں نے کئی افسانے پڑھے اور بار بار پڑھے، لکھنے کا انداز بہت دل نشیں ہے واقعے کو کہانی میں ڈھالنے اور اسے افسانے کا رنگ دینے کے ہنر سے اچھی طرح واقف ہیں، مصنف کے افسانے سماج کے غموں، افلاس اور وطن کے لیے جان قربان کرنے والے فوجی جوانوں کے گرد گھومتے ہیں، جب کہ ان حقائق کے برعکس کئی افسانے ایسے بھی ہیں جو بھٹکتی ہوئی روحوں کا المیہ بیان کرتے ہیں اور ایک خوف و تحیر کی فضا جنم لیتی ہے، ''گولر کا پیڑ''، ''اپنی نعش'' اسی طرح کے افسانے ہیں جب کہ ''دس پیسے کا سکہ''غریب، بے بس اور بے سہارا پانچ سالہ بچے کی زندگی کی نقاب کشائی کرتا ہے اس افسانے کو پڑھ کر اس بات کا احساس شدت سے اجاگر ہوتا ہے کہ پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے کبھی زندگی بھوک پر غالب آجاتی ہے اور کبھی زندگی پر موت کے سائے لہرانے لگتے ہیں۔
یہی المیہ اور معاشرتی تضاد ہے۔ اس افسانے کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں یہ خیال جاگتا ہے کہ یتیم و نادار سڑکوں پر گھومتے پھرتے، در در کی ٹھوکریں کھانے والے بچوں کے لیے حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے انھیں تعلیم، سہارا اور محبت کا ستون میسر آجائے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مدینے کی ریاست ایک بار پھر وجود میں آگئی ہے۔
دوسری کتاب افسانوں کی ہے ''دھوپ میں جلتے خواب'' اس کی مصنفہ نغمانہ شیخ ہیں، نغمانہ شیخ تقریباً دو دہائیوں سے قلم کا جادو جگا رہی ہیں ان کا یہ پہلا مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔ ''دیر آید درست آید'' والا معاملہ ہے ''ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا''نغمانہ کے افسانوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں، انھوں نے عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے بلکہ خون دل سے افسانے تخلیق کیے ہیں تحریریں وہی موثر ہوتی ہیں جو خون جگر سے لکھی جاتی ہیں۔ تجربات کا نچوڑ، حسن بیان نے انھیں دو آتشہ بنا دیا ہے۔
قاری تادیر محو حیرت اور تجسس کی فضا میں گم رہتا ہے۔ تیسری کتاب ''دنیا کے میلے میں'' اس میں پندرہ افسانے شامل ہیں اور اس کے مصنف توصیف چغتائی ہیں۔ توصیف صاحب نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں تقریباً پچاس برس سے کہانیاں لکھ رہا ہوں، میں کہانی نہیں لکھتا ہر کہانی مجھے لکھتی ہے۔
بے شک قلم کار حساس دل رکھتا ہے اسی بنا پر وہ لوگوں کے دکھوں کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور پھر اس اذیت اور ظلم کو اپنی تحریروں میں سلیقے سے ڈھالتا ہے۔ اور یہ واقعات افسانے، شاعری اور دوسری اصناف سخن میں ڈھل جاتے ہیں۔ مذکورہ کتابوں کے مختصراً تعارف کے بعد اس کی اہمیت، خصوصیات اور فن پر روشنی ڈالنے کے لیے بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں اسی ترتیب کے ساتھ جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا کہ بانو قدسیہ پر شایع ہونے والی کتاب اپنی تحریروں اور دلفریب ٹائٹل کے حوالے سے ایک بے مثال کتاب ہے اور بانو آپا کی ہستی بھی نایاب و بے مثال رہی ہے نیکی کے چرچے میں شہرت کے ڈنکے بجتے ہیں سادگی، انکساری اور شرافت کا بول بالا ہے، اس کے ساتھ تخلیقیت کے سنہرے رنگ نمایاں ہیں، الفاظ کی جدت و ندرت نے اور خیال آفرینی نے ان کی تحریروں میں بلا کی کشش اور معنویت بھر دی ہے۔
ان کے ناول ''راجہ گدھ'' کا شمار شہرہ آفاق ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہی ناول بانو آپا کی شناخت ٹھہرا۔ بانو آپا کی یادوں اور ان کے ادبی و علمی کارناموں، ذاتی زندگی کے اوراق سے کتاب مرصع ہے ان اعلیٰ حضرات کے مضامین شامل اشاعت ہیں جن کا تعلق بانو آپا سے بہت گہرا تھا اور جو انھیں قریب سے جانتے تھے ان کے گھرانے اور حالات زیست سے اچھی طرح واقف تھے، پہلا مضمون رانا عامر الرحمن محمود صاحب کا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ آپا جی بانو قدسیہ 3 فروری2017 کو بھرپور علمی، ادبی، روحانی زندگی گزارنے کے بعد ایک دنیا سے دوسری دنیا میں چلی گئیں۔
بانو آپا نے تعلیم، ادب اور روحانیت کی دنیا میں بلند مقام پایا اور اپنے کام سے ایک عہد کو متاثر کیا ''راجہ گدھ'' ان کی ایسی باکمال اور لازوال کتاب ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے اعلیٰ ترین نصاب میں شامل ہے۔ جناب ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ خدا کی قسم وہ پاکستان کی سب سے بڑی خاتون تھیں ان سے زیادہ احترام کے قابل کوئی نہ تھا وہ اس نسل کا آخری چراغ تھیں جس میں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد شامل تھے۔
جناب مستنصر حسین تارڑ نے اپنے مضمون بعنوان ''صاحباں کے مرنے پر کل خدائی آگئی'' میں بانو قدسیہ کے سفر آخرت کا نقشہ جس دردمندی کے ساتھ کھینچا ہے، اس سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے بانو قدسیہ ہر خاص و عام کی محبوب ترین ہستی تھیں۔
وقت الوداع کا منظر ملاحظہ فرمائیے ''ایک مرتبہ پھر ماڈل ٹاؤن کے گھر ''داستان سرائے'' کی جانب جتنی گلیاں جاتی تھیں، جتنی سڑکیں اس سرائے کی طرف اترتی تھیں وہ سب کی سب لوگوں کے ہجوم سے اٹی پڑی تھیں، نوجوان عورتیں اور بوڑھیاں جیسے گھر سے کسی ماتم کدہ کی جانب رواں ہوں ان کے چہرے الم کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے صرف ان کی آنکھیں تھیں جو آنسوؤں سے روشن ہوتی تھیں کتاب میں 53 مضامین شامل ہیں، تمام مضامین بانو قدسیہ کی زندگی کا مکمل طور پر احاطہ کرتے ہیں اس قدر دل فریب کتاب شایع کرنے پر میں خلوص دل کے ساتھ پبلشر رانا عامر رحمن محمود کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
''دھوپ میں جلتے خواب'' جیساکہ نام سے ظاہر ہے مذکورہ مجموعہ میں وہی افسانے شامل ہیں جن کے کرداروں نے تپتی دھوپ میں زندگی کا امرت پیا ہے اور ارمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ہے تمناؤں کی چتا اپنے ہاتھوں سے جلائی ہے کہ وقت کا یہی تقاضا تھا، کشتی کو ڈوبنا ہی تھا سو وہ ڈوب گئی لیکن ایک داستان ایک کہانی طشت از بام کرگئی کہ اے قلم کارو! لکھو کہ ہم جیسے لوگ کس قدر بے بس اور دنیا کے بازار میں اس پنچھی کی مانند پھینک دیے جاتے ہیں جس کے بال و پر کاٹ دیے گئے ہوں۔
جی ہاں نغمانہ شیخ کے افسانے اسی قبیل کے ہیں، تنہا عورت رات کی سیاہی، بہکتے اور بھٹکتے ہوئے قدم اور پھر شیطان کی آمد اور اس کی فتنہ پروری اور پھر عمر بھر کا پچھتاوا دل کے بوجھ اور تڑپتے ضمیر کو لوریاں دینے کے لیے گھر میں درس و تدریس اور قرآن خوانی کا ورد، اگربتی کا پاکیزہ دھواں مولوی صاحب کی آمد۔ نغمانہ شیخ کے افسانے ''تنہائی'' میں ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے افسانہ ہم عمر، سپردگی کا ملال، خود فریبی، ان افسانوں میں خواتین کے معاشرتی مسائل، ذہنی کرب اور نفسیاتی الجھنوں سے پیدا ہونے والے دکھوں، غموں، یاسیت اور کرب نے کہانیوں کی شکل اختیار کرلی ہے، نغمانہ شیخ کہانی لکھنے اور انھیں افسانوں کے قالب میں ڈھالنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں وہ ایک بہترین تخلیق کار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اللہ انھیں فن افسانہ نگاری میں مزید عروج سے نوازے آمین۔
''دنیا کے میلے میں'' اس کتاب سے میں نے کئی افسانے پڑھے اور بار بار پڑھے، لکھنے کا انداز بہت دل نشیں ہے واقعے کو کہانی میں ڈھالنے اور اسے افسانے کا رنگ دینے کے ہنر سے اچھی طرح واقف ہیں، مصنف کے افسانے سماج کے غموں، افلاس اور وطن کے لیے جان قربان کرنے والے فوجی جوانوں کے گرد گھومتے ہیں، جب کہ ان حقائق کے برعکس کئی افسانے ایسے بھی ہیں جو بھٹکتی ہوئی روحوں کا المیہ بیان کرتے ہیں اور ایک خوف و تحیر کی فضا جنم لیتی ہے، ''گولر کا پیڑ''، ''اپنی نعش'' اسی طرح کے افسانے ہیں جب کہ ''دس پیسے کا سکہ''غریب، بے بس اور بے سہارا پانچ سالہ بچے کی زندگی کی نقاب کشائی کرتا ہے اس افسانے کو پڑھ کر اس بات کا احساس شدت سے اجاگر ہوتا ہے کہ پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے کبھی زندگی بھوک پر غالب آجاتی ہے اور کبھی زندگی پر موت کے سائے لہرانے لگتے ہیں۔
یہی المیہ اور معاشرتی تضاد ہے۔ اس افسانے کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں یہ خیال جاگتا ہے کہ یتیم و نادار سڑکوں پر گھومتے پھرتے، در در کی ٹھوکریں کھانے والے بچوں کے لیے حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے انھیں تعلیم، سہارا اور محبت کا ستون میسر آجائے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مدینے کی ریاست ایک بار پھر وجود میں آگئی ہے۔