جعلی ڈومیسائل ایشو
اس معاملے پر بڑے طویل عرصہ سے سندھ میں آوازیں اُٹھتی رہی ہیں
یہ مقدمہ ہے اُس سندھ نامی خطے کا جو ہزاروں سال سے ایک پُر امن و جمہوری آزاد ملک رہنے کے بعد اپنی قلبی رضا سے خطے کی کچھ دیگر پڑوسی ریاستوں کے ساتھ ملکر برابری و سراسری سے ایک ساتھ رہنے کے لیے ایک اتحاد کرکے ایک نئے ملک کی بنیاد رکھتا ہے ۔
اس اُمید پر کہ شاید یہ اتحاد برصغیر کے اس ہمیشہ بیرونی لٹیروں کے نشانے پر رہنے والے خطے کو مثالی و لازوال ترقی و تحفظ کا ماحول میسر ہوسکے ۔ پھر ہوا یوں کہ اتحاد بھی ہوگیا اور اس کی بدولت دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان بھی بن گیا لیکن سندھ کی اُمیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا جب اُس کی کوششوں کو جھٹلادیا گیا ، اُس کی منتخب و غیر منتخب تمام سیاسی قیادت کو دیوار سے لگا کر اُس کی ریاستی حیثیت کو محض ایک بے اختیار صوبہ کی حیثیت تک محدود کردیا گیا ۔ اُس کی قیادت کی جگہ دیگر صوبوں حتیٰ کہ دیگر ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کو یہاں کے فیصلوں میں شراکت بلکہ امتیازی حیثیت دی گئی ۔
جس وجہ سے سندھ کی اُن اُمیدوں و آرزوؤں پر پانی پھیر دیا گیا ، جو انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلسل 100سال تک محوئے جنگ رہنے کے بعد ایک بڑی سیاسی و جمہوری تحریک کے تحت پاکستان قائم کرنے سے اُن کے دل میں اُمنڈ آئی تھیں۔
متحدہ ریاست ہائے پاکستان یا صوبائی خود مختاری کا جو وعدہ جو قائد اعظم نے ان سے کیا تھا ، اُس کے حصول کے لیے گذشتہ سات عشروں سے وہ محوئے جدوجہد ہیں ۔ زرعی اصلاحات کی بناء پر سندھ میں کسانوں و کاشتکاروں کی خوشحالی اورزمینوں کی زرخیزی کو بڑھانے ، صوبہ کے صحرائی علاقوں : تھر ، اچھڑو تھر اور کوہستان کو کینالز کے ذریعے پینے اور کاشت کے لیے پانی کی فراہمی ، سمندری تجارت میں اضافے سے صوبہ کے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی ، مقامی تاجروں و ماہی گیروں کے لیے بین الاقوامی مواقع میں اضافہ اور تربیت کے وسیع مواقع کی فراہمی ، صنعتوں میں اضافے سے مزدور و نوکری پیشہ افراد کی نئی کھیپیں تیار کرنا ، صوبہ کی آمدن کو صوبہ کی ترقی و تعمیر پر خرچ کرنا ، صوبہ کے روزگار کے مواقع پر پہلا حق یہاں کے مقامی لوگوں کا آئینی طور پر تسلیم کرکے اُن کو اولیتی بنیادوں پر وہ حق عملی طور پر دینا وغیرہ وغیرہ ، کے لیے وہ ایوانوں سے اداروں تک اشاعتی اداروں سے شاہراہوں تک مسلسل آواز حق بلند کرتا رہا ۔
پھر جاکر کہیں یہ سب کسی حد تک آئینی دستاویز میں درج تو کیا گیا لیکن عملی طور پر اُس کے برخلاف صوبہ کے مقامی لوگوں کو زبردستی یا سازشوں سے ان مواقع سے دور رکھا جاتا رہا جس سے غیر مقامی لوگوں کو یہاں آسانی سے settleہونے کے مواقع میسر آئے ۔ بات یہاں بھی نہیں رُکی بلکہ اُن آنیوالے لوگوں کو روزگار کے ساتھ ساتھ یہاں کے دستاویزات جیسے شناختی کارڈ ، ڈومیسال اور حتی ٰ کہ پی آر سیز بھی دی جانے لگی ۔ جو بات بڑھتے بڑھتے اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ صوبہ کے مقامی تعلیم یافتہ لاکھوں نوجوان ڈگریاں لیے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں جب کہ غیر مقامی لوگ یہاں کے سرکاری و نجی اداروں میں ملازمت کے مزے لُوٹ رہے ہیں ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بالائی گریڈوں و فنی عہدے تو چھوڑیں اب گریڈ 1، 2 اور 3کی مالی ، چوکیدار ، خاکروب ، مؤذن اور پیش امام جیسی اسامیوں پر بھی غیر مقامی لوگ قابض ہو گئے ہیں۔
اس معاملے پر بڑے طویل عرصہ سے سندھ میں آوازیں اُٹھتی رہی ہیں لیکن رواں سال کے اپریل میں ان آوازوں میں اُس وقت شدت آگئی جب لاڑکانہ سے 700دیگر صوبوں کے لوگوں کو جاری ہونے والے جعلی ڈومیسائل کا بھانڈا پُھوٹا ۔ پھر سندھ کا نوجوان ڈومیسائل کی بناء پر صوبہ کے روزگار اور تعلیمی مواقع پر قابض غیر مقامی لوگوں معاملے پر سلگ رہا تھا وہ اچانک ایک بلند شعلہ کی طرح بھڑک اُٹھا ۔ مختلف شہروں میں سڑکوں ، پریس کلب اور عمومی و سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر بس یہی آگ برساتی بحث تھی ۔
یہاں تک کہ سماجی رابطوں کی میڈیا کے دنیا کے سب سے مقبول ترین پلیٹ فارم Twitter پر "Sindh Rejects Bogus Domicile" کے نام سے یہ مطالبہ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عالمی سطح پر دوسرا بڑا ''ہیش ٹیگ'' بن کر سامنے آیا ۔ جس میں 11لاکھ سے زائد لوگوں نے ٹیگ کیے ۔ یہ اب کسی سیاسی یا قوم پرست جماعت کا نعرہ نہیں رہا بلکہ سندھ کے لوگ اب اسے اپنا قومی نعرہ سمجھنے لگے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی روک تھام سے باہر سے ہونے والی یلغار کو کسی قدر روکا جاسکے گا اور مقامی لوگوں کو صوبہ کے وسائل اور مواقع پر حق حاکمیت حاصل ہوگا ۔
ڈومیسائل کے اس ایشو کے کئی آئینی ، سیاسی و انتظامی پہلو ہیں ۔ سب سے پہلے آئینی پہلو کا جائزہ لیتے ہیں :قیام ِ پاکستان سے لے کر سندھ میں آج تک غیر مقامی آبادکاری ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے ۔ یہی وہ معاملہ ہے جس پر قیام ِ پاکستان کے ایک سال کے اندر 1948میں مرکز نے سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کی زبردستی حکومت ختم کرکے صوبہ میں 2سال کے لیے گورنر راج لاگو کیا اور غیر مقامی آبادی کو یہاں آباد کیا گیا اور یہاں کے وسائل اور روزگار کے مواقع پراُنہیں اختیار دیا گیا ۔ اسی دوران 1951کا سٹیزن شپ ایکٹ لاگو کیا گیا ،جو کہ انڈیا سے آنیوالوں کی آبادکاری کے لیے لاگو کیا گیا تھا ، جس کے مطابق ڈومیسائل کے حصول کی میعاد صوبہ میں ایک سال رہائش کی شرط رکھی گئی ۔ جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غیر مقامی لوگوں نے سندھ کا ڈومیسائل بنواکر وفاقی حکومت میں سندھ کے کوٹہ پر ملازمتیں حاصل کیں ۔
2011میں سپریم کورٹ نے اس عمل کو غلط قرار دیااور یہ فیصلہ دیا کہ ملازمتیں پی آرسی کی بنیاد پر دی جائیں جب کہ ڈومیسائل کا ملازمت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، لیکن وفاق کی جانب سے آج تک ڈومیسائل پر ملازمت کی روش کو جاری رکھا گیا ہے اور وفاق اسے قائم رکھنے کے لیے بضد ہے ۔ اسی کی وجہ سے جنرل غلام محمد کے دور ، جنرل ایوب خان کی مارشل لا ، ون یونٹ اور جنرل یحیٰ کے دور میں بڑے پیمانے پر سرکاری سرپرستی میں سندھ میں غیر مقامی آبادکاری کا کام کیا گیا ۔ یہی وہ وجہ ہے جس پر سندھ اور مرکز ہمیشہ آمنے سامنے رہے ۔
اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے ملک کے پہلے آئین 1973 کے آئین میں آرٹیکل 27شامل کیا گیا ۔ جس میں دیگر قواعد کے ساتھ ساتھ یہ رولز بھی لاگو کیے گئے کہ کسی بھی صوبہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ صوبائی ملازمتوں میں تقرریوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے صوبہ کا رہائشی ہونے کا شرط رکھے ۔
جس کے لیے ڈومیسائل کے ساتھ ساتھ مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ (پی آر سی) ہونا لازم ہے ۔ لیکن آج تک سندھ اسمبلی اس پر مزید قانونسازی کرکے یہ شرط رائج نہیں کراسکی ہے ۔ جب کہ ڈومیسائل معاملے کی غلط تشریح کی وجہ سے مرکزی ملازمتوں سے صرف ڈومیسائل کی شرط منسلک ہے ۔آگے چل کر صوبوں سے ناانصافیوں کے تدارک کے لیے 18ویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 38میں ترمیم کی گئی ۔ جس کے مطابق '' مرکزی حکومت اپنی سروسز ، کارپوریشنز اور اپنے تمام خودمختار اداروں یا ذیلی اداروں میں صوبے کے حصے کو یقینی بنائے گی، اور ماضی کے حصے کو بھی پورا کرے گی''۔
اب جب سندھ میں لاکھوں جعلی ڈومیسائل بننے کی شکایات ثابت ہوچکی ہیں تو صوبہ کے عوام بالخصوص نوجوان یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ غیر مقامی تمام لوگوں کے سندھ صوبہ سے بننے والے ڈومیسائل منسوخ کرکے اُنہیں اپنے صوبوں سے ڈومیسائل بنوانے کا پابند کیا جائے اور ساتھ ہی سندھ اسمبلی سے نئی قانونسازی یا کابینہ سے قرارداد کے ذریعے وفاقی حکومت سے صوبہ کے حقوق کے لیے رابطہ کیا جائے۔
آئین کے مطابق کسی بھی شہری کے جائز حقوق سے نسلی بھید بھاؤ ایک جرم ہے ، لیکن ایک تو یہ جائز حقوق سے مشروط ہے دوسرا یہ کہ کسی بھی قوم کے اجتماعی حقوق کو نسلی بھید بھاؤ کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا ۔ پھر مرکز سندھ کے اس مطالبے کو نسلی رنگ دیکر سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، جس کے لیے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ سندھ انسانی حقوق کا علمبردار ہے اس کے مزاج اور یہاں دیگر اقوام کی بڑے پیمانے پر موجودگی اور امن و سکون سے خوشحال زندگی بسر کرنا اس کا کھلا ثبوت ہے ، اس لیے مرکزکو اس طرح کے نسلی ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور مرکز میں سندھ کے مستقل رہائشیوں کو پی آرسی کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے اور ماضی کی کمی کو پورا کیا جائے ، جب کہ وفاق پی آر سی کی صوبہ سندھ سے تصدیق کروائے ، کیونکہ پی آرسی کی تصدیق صوبے کا استحقاق ہے ۔
یوں تو سندھ حکومت کی جانب سے جعلی ڈومیسائل کے ایشو پر ایک 3رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو صوبہ بھر میں ڈومیسائل کا جائزہ لے رہی ہے ، جب کہ دوسری کمیٹی صوبائی وزیر اطلاعات ناصر شاہ کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے جو جعلی ڈومیسائل ایشو کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ پی آرسی قانون پر عمل نہ ہوسکنے اور اس قانون میں موجود خامیوں کا بھی جائزہ لے گی ۔ جب کہ ڈومیسائل جعلی ثابت ہونے پر ملازمتیں یا داخلے ختم کرنے کے لیے متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا جائے گا۔ حالانکہ ان کمیٹیوں پر صوبہ کے نوجوانوں اور قانونی ماہرین کو تحفظات ہیں ، بقول اُن کے یہ کمیٹیاں بے اختیار ہیں ۔ اس لیے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک بااختیار کمیشن قائم کیا جائے، لیکن اُن کا کہنا یہ بھی ہے کہ جب تک کمیشن قائم ہو ان کمیٹیوں کو کام کرتے رہنا چاہیے ۔ اور انھیں چاہیے کہ صوبہ بھر کے اے ڈی سیز اور ڈومیسائل سیکشن عملے کو تبدیل کرکے شفاف جانچ پڑتال کی جائے۔
سندھ کے ڈومیسائل پر سندھ اور وفاقی اداروں میں ملازمت کرنے والے غیر مقامی لوگوں کی اکثریت تو ایسی ہے جو اپنے اصل صوبے کا بھی ڈومیسائل رکھتی ہے ۔ دوہرے ڈومیسائل رکھنے کی یہ اُن کی روش خود اُن کی جعلسازی اور فراڈ کو ظاہر کرتی ہے جس پر ملکی قانون کا اطلاق واجب ہوجاتا ہے مگر شاید ایسی ہی صورتحال پر ارسطو نے کہا تھا کہ ''قانون مکڑی کے جالے کی مانند ہے ، جس میں مچھر اور مکھیاں تو پھنس جاتی ہیں مگر بیل اُسے ٹکر مار کر نکل جاتا ہے ''۔ اور ہمارے ملک میں ایسے کئی شواہد سڑکوں پر عملی طور پر پیش بھی ہوتے رہتے ہیں ۔
یہی صورتحال آج کل ڈومیسائل ایشو پر سندھ کے لوگوں کو بھی درپیش ہے ۔ ڈومیسائل کا یہ ایشو شروع ہوا تھا دیگر صوبوں کے لوگوں اور افغانیوں کے صوبہ سندھ میں غیر قانونی ڈومیسائل بنوانے پر مگر وفاقی حکومت اور اُس کی اتحادی جماعتیں و ادارے اس ایشو کا رخ سندھ میں موجود غیر مقامی افراد سے موڑ کر سندھ کے عوام کے خلاف ہی استعمال کرنے کے لیے تمام سرکاری اداروں کو متحرک کرکے دیگر صوبوں حتی ٰ کہ غیر قانونی تارکین وطن لوگوں کو تحفظ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔
بہرحال تمام سیاسی اُمور کو بالائے طاق رکھ کر اگر جعلی ڈومیسائل معاملے پر صاف و شفاف جانچ پڑتال کی جائے تو بہت بڑے برج گرنے کا امکان ہے ، سیکڑوں جعلی ملازمین کو گھر جانا پڑے گا اور یہ ملکی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل ثابت ہوگا ۔
صوبہ کے انتظامی اُمور چونکہ کسی حد تک سندھ حکومت کی ذمے داری ہیں تو اس معاملے میں کوتاہی بھی اُسی کی تصور کی جائے گی ۔ اور جعلی ڈومیسائل ایشو میں صوبہ میں سندھ حکومت کی انتظامی کارکردگی مایوس کن نظر آتی ہے کیونکہ یہ مہم تو سندھ سے شروع ہوئی اور وہیں زور شور سے جاری ہے لیکن وہاں اب تک کوئی بھی انتظامی کارروائی عمل میں نہیں آسکی ہے جب کہ بلوچستان میں اب تک دیگر صوبوں کے ملازمت کرنے والے 8افراد کو ملازمت سے فارغ کیا جاچکا ہے ۔
پھر سندھ میں جہاں وفاقی حکومت کی پالیسیوں میں جھول بلکہ تضاد موجود ہے وہیں سندھ حکومت کے خود بھی اس معاملے میں ہاتھ رنگے ہوئے ہیں، پھر سندھ حکومت کی نااہلی کی بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سندھ کے اہم اداروں میں بھی غیر قانونی 22 افغانی جعلی دستاویزات کی بنیاد پر ملازمت کررہے ہیں ۔پھر اس ایشو میں جو انتظامی طور پر جھول نظر آتا ہے وہ اس طرح ہے کہ ڈومیسائل بنانے کے عمل میں درخواست گذار کو جو دستاویزات چاہیے ہوتے ہیں اُن میں شناختی کارڈ ، ووٹ لسٹ سرٹیفکٹ تو رہے وفاقی انتظام میں لیکن پرائمری تعلیمی سند، پراپرٹی سرٹیفکیٹ اور رہائشی سرٹیفکیٹ تو براہ راست سندھ حکومت کی ذمے داری ہے جسے وہ بجا طور پر مانیٹر نہیں کرپائی ہے ۔
اب کراچی سمیت سندھ بھر کے تمام بڑے شہروں کی حالت یہ ہے کہ یہاں نہ پولیس میں مکمل طور پر مقامی لوگ ہیں ، نہ ٹرانسپورٹر مقامی ہیں ، نہ ریلوے اسٹیشنز پر قلی مقامی ہیں اور نہ ہی یہاں کے کارخانوں میں مزدور مقامی ہیں ، حد تو یہ ہے کہ صوبہ کی سرکاری اراضی پربھی غیر مقامی لوگ قابض ہیں ۔ سندھ کے مستقل اصل رہائشی سندھی اور اردو بولنے والے بیروزگاری کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں ۔ کئی عشروں سے صوبہ کے ان حقیقی وارث نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلا جارہا ہے بلکہ کھلواڑ کیا جارہا ہے ۔
اور اس بات پر طویل عرصہ سے چیخ چیخ کر اب سندھ کا نوجوان اپنے حق پر پڑنے والے ڈاکے اور اس کا مناسب تدارک نہ کرنے پر وہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی اپنا دشمن سمجھنے لگا ہے ۔ اور اصل پریشانی و فکر کی بات یہی ہے کہ سندھ کے نوجوانوں کا سرکار ، سرکاری اُمور اور ریاستی اداروں پر سے اُٹھتا ہوا اعتماد ملک کے لیے کس بڑے خطرے سے کم نہیں ، لیکن پھر بھی ریاست کی جانب سے اس ضمن میں کوئی سنجیدہ کوششیں نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔