پنجاب میں سکھ میرج ایکٹ کے قواعد 2 سال بعد بھی تیار نہیں کیے جاسکے

پنجاب اسمبلی نے مارچ 2018 میں کثرت رائے سے سکھ میرج ایکٹ منظور کیا تھا


آصف محمود June 21, 2020
(ن) لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد سکھ میرج ایکٹ کے رولز کی تیاری بھی التوا کا شکار ہوگئی فوٹو: فائل

پنجاب میں 2018 میں منظور کئے گئے سکھ میرج ایکٹ کے قواعد بیوروکریسی کی نااہلی کی وجہ سے 2 سال گزرجانے کے بعد بھی تیارنہیں کیے جاسکے ہیں۔

سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رمیشن سنگھ اروڑہ نے اس ایکٹ کا مسودہ اکتوبر 2017 میں اسمبلی میں پیش کیا تھا اور اسے مارچ 2018 میں منظور کرلیا گیا، تاہم مئی 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ختم ہوگئی جس کے بعد اس ایکٹ کے رولز کی تیاری کا معاملہ بھی التوامیں چلاگیا۔اس ایکٹ کے مطابق سکھ جوڑوں کی شادیاں قانونی طورپررجسٹرڈہوسکتی ہیں اور اگرکوئی شادی شدہ جوڑا علیحدگی چاہے تو اس کی بھی اجازت ہوگی۔

حکمران جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے رکن او رپارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق سردار مہیندر پال سنگھ کا کہنا ہے گزشتہ برس نومبر میں رولز کی تیاری سے متعلق اہم اجلاس ہوا تھا لیکن اس وقت کرتارپورصاحب راہداری کھولنے کی تیاریوں کی وجہ سے رولز کی تیاری کا کام رک گیا، اس کے بعد رواں سال بھی اس حوالے سے ان کے محکمے کے متعلقہ حکام کا اجلاس ہوچکا ہے جبکہ ہوم ڈیپارٹمنٹ سے بھی رولز سے متعلق رہنمائی لی جارہی ہے لیکن اب کورونا وائرس کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔انہوں نے کہا ہماری کوشش ہے کہ اس سال یہ رولز بناکران کی منظوری لے لی جائے تاکہ صوبے میں اس کا نفاذ ہوسکے۔مہیندرپال سنگھ نے بتایا کہ پنجاب میں سکھ میرج قانون کے نفاذ کے بعد دیگرصوبوں میں اس کی تیاری اورنفاذ آسان ہوجائیگا، اس وقت سندھ میں سکھوں کی شادیاں ہندو میرج ایکٹ کے تحت رجسٹرڈکی جاتی ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی سرداررمیش سنگھ اروڑہ کہتے ہیں کہ دو سال بعد بھی سکھ میرج ایکٹ کے رولزتیارنہ ہونے پرانہیں افسوس ہے ، یہ کام جلدہوجانا چاہیے تھا۔ پاکستان میں بسنے والے سکھوں کی شادیاں پہلے بھی ہوتی تھیں اوراس ایکٹ کے منظور ہونے کے بعد بھی ہورہی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ شادیاں قانونی طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوپاتی ہیں جس کی وجہ سے وراثث کی تقسیم سمیت کئی قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی شادی شدہ سکھ جوڑے میں علیحدگی کی نوبت آجاتی ہے تواس کا بھی کوئی قانونی طریقہ موجود نہیں ہے ، کیونکہ جب شادی رجسٹرڈہی نہیں ہوتی توطلاق کیسے ہوگی ۔

مہیندرپال سنگھ نے بتایا کہ جب رولزبن جائیں گے تو پھر پنجاب میں مختلف گورودواروں کے گرنتھیوں کو رجسٹرڈ کیا جائیگا جو سکھ جوڑے کا نکاح پڑھائیں گے اورانہیں نکاح نامہ جاری کریں ،18 سال سے کم عمرسکھ لڑکے اورلڑکی کی شادی نہیں ہوسکے گی ، شادی کے موقع پر چارپھیرے لینا لازمی ہوں گے اورشادی گوروگرنتھ صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں انجام پائیگی۔ شادی کرنے والا جوڑا انند کراج فارم پرُ کرے گا جو انہیں شادی کے تیس دن کے اندر مجاز رجسٹرار کو جمع کروانا ہو گا جس کی ایک کاپی چیئرمین کو بھی ارسال کی جائے گی۔ چیئرمین یونین کونسل یا میونسپل کونسل کا چیئرمین ہو سکتا ہے یا کوئی بھی ایسا شخص جسے حکومت مقرر کرے گی۔ان ہی انند کراج رجسٹرار یا یونین کونسل کے دفاتر میں تمام شادیوں کا ریکارڈ رکھا جائے گا۔اگر میاں بیوی میں سے کوئی بھی شادی تحلیل کرنا چاہے گا تو اس کو چیئرمین کو لکھ کر نوٹس دینا ہو گا جس کی ایک کاپی دوسری پارٹی کو بھی فراہم کی جائے گی۔ نوٹس ملنے کے 30 روز میں چیئرمین ایک مصالحتی کمیٹی تشکیل دے گا۔اگر نوٹس کے 90 دن کے اندر مصالحت ممکن نہ ہو پائے تو شادی تحلیل تصور کی جائے گی اور اس کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جائے گا۔پاکستان میں اس بسنے والے سکھوں کی مجموعی تعداد 20 ہزار جبکہ صوبہ پنجاب میں ان کی تعداد تقریباً سات سے آٹھ ہزار کے قریب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں