تشدد کی حمایت اور مخالفت کا تضاد
مجھے یاد ہے ایوب خان کے زمانے میں جب ترقی پسند جماعتوں کے کارکن امریکا، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام...
مجھے یاد ہے ایوب خان کے زمانے میں جب ترقی پسند جماعتوں کے کارکن امریکا، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف وال چاکنگ کرتے تھے تو ایک مذہبی طلبا تنظیم کے کارکن ڈنڈے اور سریے لے کر ترقی پسند کارکنوں پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ ترقی پسند کارکن غیر مسلح ہوتے تھے اور وہ مسلح ہوتے تھے ۔ آج تک ملک کے ہر علاقے ہر شہر میں ترقی پسند سیاسی کارکن ٹریڈ یونینسٹ طالب علم غیر مسلح اور تشدد کی سیاست سے دور ہیں۔ اس کے برخلاف مذہبی جماعتوں کی طلبا سمیت ذیلی تنظیمیں مسلح بھی ہیں اور تشدد کے راستے پر بھی چل رہے ہیں۔
آج اس موضوع پر اس لیے قلم اٹھانا پڑ رہا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں بعض طلبا نے اساتذہ کی پٹائی کی' انھیں کمروں میں بند کیا ۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایف آئی آر درج کروائی تو طلبا سڑکوں پر نکل آئے۔جس کی تفصیل تمام ٹی وی چینلوں پر پیش کی جا رہی ہے ۔
طلبا کے درمیان لڑائی جھگڑے مار پیٹ ہمارے ملک میں ایک عام بات سمجھی جاتی ہے اور اسے اس لیے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ نوجوانوں میں غصہ ہوتا ہے برداشت کا مادہ نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایوب خان کے دور کی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اب ایک منظم اور مسلح جنگ میں بدل گئی ہیں اور اس جنگ میں اب تک 50 ہزار سے زیادہ وہ بے گناہ مسلمان اور پاکستانی قتل کیے جا چکے ہیں جن کا نہ کسی نظریاتی لڑائی سے کوئی تعلق تھا نہ وہ کسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے ان کا جرم ان کی بے گناہی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکا ہے ایک حصہ مذہب کے نام پر اپنے ہم مسلکوں ہم مذہبوں کا قتل عام کر رہا ہے اور میڈیا کو پیغام بھیج رہا ہے کہ ''یہ کارنامہ'' ہم نے انجام دیا ہے دوسرا حصہ پاکستان کے عوام کے درمیان امن اور محبت کی تلقین کر رہا ہے اور غریب طبقات کو معاشی استحصال کرنے والوں کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے یہ حصہ بہت کمزور اس لیے ہے کہ اس کے پاس نہ وسائل ہیں نہ مسلح کارکن نہ بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان، منشیات اور اسلحے کی تجارت کے اربوں روپے۔ لیکن اس کے پاس غریبوں کے بہتر مستقبل، غریبوں کے حقوق، غریبوں کو منظم کرنے کا پروگرام ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو نہ ہتھیاروں سے چھینی جا سکتی ہے نہ بڑی سے بڑی طاقت اسے فتح کر سکتی ہے۔
اقتدار پر قابض رہنے اور اقتدار حاصل کرنے کی خواہش دنیا کے ہر سیاست دان میں ہوتی ہے لیکن اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر کے سیاستدان جمہوریت کا پرامن راستہ اختیار کرتے ہیں اور یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ ہمارے بڑے بڑے مذہبی رہنما برملا کہہ رہے ہیں کہ وہ عوام کی حمایت سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ عوام کے سر کاٹ کر عوام کو خودکش حملوں سے قتل کر کے اقتدار میں نہیں آنا چاہتے جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے مخالف ہیں جو تشدد اور عوام کو دہشت زدہ کر کے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ یہ بڑے نیک خیالات ہیں اور ان نیک خیالوں کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ تشدد پسندوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں لیکن یہ کیسا نظریہ ہے کہ ایک طرف تشدد کی سیاست کی مذمت کی جا رہی ہے دوسری طرف تشدد کی حمایت اور سرپرستی کی جا رہی ہے۔
اس خون خرابے سے پریشان عوام حکومت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ حکومت ملکی آئین کے تابع ہے لیکن حکومت یا تو پراسرار خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہے یا پھر نیم دلانہ اقدامات کے ذریعے اس خوفناک جنگ کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کو جن لوگوں نے ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا ہے ان کی خواہش یہ ہے کہ ملک میں دس سال سے جاری خون خرابے کو روکا جائے۔ دہشت گردوں، ٹارگٹ کلروں کی ناک میں نکیل ڈالی جائے۔ عوام کو مہنگائی بے روزگاری بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائی جائے لیکن حکمران مہنگائی بے روزگاری بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وکالت کر رہے ہیں اور دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ہیں۔
جمعیت طلبا کی لاہور میں سرگرمیوں کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ایک معروف رہنما اور سابق وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں جو سیاسی جماعتیں پیش پیش رہی ہیں۔ انھیں 2013ء کے انتخابات میں انتخابی مہم چلانے سے دہشت گردوں کے ذریعے روکا گیا اور بعض جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کی مکمل آزادی اور تعاون دیا گیا۔ اس تقسیم کے دو حصوں کی نشان دہی کرتے ہوئے قمر الزماں کائرہ نے کہا، ایک طرف پیپلز پارٹی متحدہ اور اے این پی تھی جس کے کارکنوں اور رہنماؤں کو قتل کر کے ان جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور مذہبی جماعتیں تھیں جنھیں دہشت گردوں کی مکمل حمایت حاصل تھی اور انتخابی مہم چلانے کی مکمل آزادی تھی۔ قمر الزماں کائرہ کی اس تقسیم کو جھٹلانا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ کائرہ کی بتائی گئی تقسیم کو اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حیرت زدہ رہ گئے۔
یہ تقسیم محض قمر الزماں کائرہ کے ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا مشاہدہ دس برسوں سے عوام کر رہے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں اگر عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کے قول و عمل میں زمین آسمان کا یہ فرق اس لیے ہے کہ 66 سال کی لگاتار جمہوری جدوجہد کے باوجود عوام کی طرف سے مذہبی جماعتوں کو مسترد کرنے کی مایوسی نے مذہبی جماعتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے راستے پر چلنے والوں کی عملاً حمایت کریں اور قولاً مخالفت کریں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار کی خواہش کیا انسانوں کو اس قدر اندھا کر دیتی ہے کہ انھیں خیبر سے کراچی تک رزق خاک ہوا 50 ہزار بے گناہوں کا خون اور بکھرے ہوئے اعضا اور ان کے بے سہارا لواحقین کی گریہ و زاری نظر نہیں آتی؟ یہ کوئی افسانہ یا ہارر فلم نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہمارے محترم لوگ ہر روز کر رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر خیبر سے کراچی اور کراچی سے کوئٹہ تک وہ قتل عام کے مناظر دکھائے جا رہے ہیں جنھیں دیکھ کر نہ ہماری غیرت ایمانی جاگ رہی ہے نہ ہمارا ضمیر ہمیں جگا پا رہا ہے۔
اب تو اہل علم اہل دانش یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اس حوالے سے حکومت کی خاموشی کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جس طرح انتخابات جیتنے میں ہمارے حکمرانوں نے دہشت گردوں سے مدد لی اب وہ اپنے اقتدار کو طول دینے میں بھی دہشت گردوں سے مدد اور تعاون حاصل کر رہے ہیں۔ یہ مفروضہ اس لیے نہیں کہ یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور اسے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام حیرت اور خوف سے دیکھ رہے ہیں۔ البتہ قمر الزماں کائرہ سے عوام ایک سوال ضرور کرنا چاہتے ہیں کہ اس تقسیم کا ایک حصہ اس قدر منظم اور طاقتور کیوں ہے؟ تقسیم کا دوسرا حصہ غیر منظم بکھرا ہوا اور فروعی اختلافات کا شکار کیوں ہے جب کہ اس کی پشت پر 18 کروڑ عوام کی طاقتور حمایت کھڑی ہوئی ہے؟