معاشرے کی اخلاقی پستی ذمے دار کون
ہمارے معاشرے کا یہ رواج ہے کہ لوگ حکومت کو برا بھلا کہہ کر خود کو تمام تر اخلاقیات سے بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے وفاقی وزرا سے لے کر ریڑھی والے تک ہر شخص اخلاقیات سے عاری ہے۔ ہر شخص کو اپنی فکر ہے، ہر ایک اپنے مفاد کےلیے دوسروں کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
عوام کے تمام طبقات میں کثیر تعداد میں مفاد پرست لوگ موجود ہ ہیں۔ جس معاشرے کی یہ حالت ہو کہ وہاں ہر شخص مفادپرست، دھوکا دہی کو درست سمجھنے والا ہو تو وہاں نیک سیرت حکمرانوں کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ حکمران بھی تبھی نیک ہوتے ہیں جب عوام نیک ہوں، کیونکہ حکمران عوام میں سے ہی آتے ہیں۔ دس چوروں کا سردار یقینی طور پر وہی بنے گا جو سب سے بڑا چور ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ چوروں کا سردار کوئی نیک شخص بن جائے گا۔ جن معاشروں میں حکمران انصاف پسند ہوتے ہیں، کرپشن سے دور رہنے والے ہوتے ہیں، ان معاشروں میں عوام کی بھی یہی روش ہوتی ہے۔
ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہر معاملے میں حکومت کو برا بھلا کہہ کر خود ایسے بری الذمہ ہوجاتے ہیں جیسے ہمیں تو کسی قسم کی اخلاقیات کی ضرورت ہی نہیں۔ عوام میں ایسے افراد کثیر تعداد میں موجود ہیں جو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لمبے لمبے ہاتھ مارنے سے گریز نہیں کرتے۔ حکمرانوں کو موقع زیادہ ملتا ہے یا ان کی رسائی زیادہ ہوتی ہے تو وہ زیادہ کرپشن کرتے ہیں لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمیں جتنا موقع ملتا ہے اتنا ہم بھی کرتے ہیں۔ بس ہمیں موقع ذرا کم ملتا ہے اور ہماری رسائی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک ہے، اس لیے ہم خود کو پاک صاف سمجھ کر حکمرانوں کے سر ہر ایک گناہ ڈال دیتے ہیں۔
ٹھیک ہے حکومت بہت سے امور کی ذمے دار ہے لیکن عوام کی بھی تو کچھ ذمے داریاں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ عوام سب کچھ حکومت پر چھوڑ کر خود ہر ذمے داری سے بری ہوجائیں۔
یہ عوام ہی ہیں جو منافع خوری کے چکر میں دوسروں کو مصیبت میں ڈالے رکھتے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی پھل، سبزیاں اور دیگر اشیائے خور و نوش مہنگی ہوگئیں۔ کیا یہ سب بھی حکومت کے کہنے پر ہوا یا عوام نے خود ہی موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ایسا کیا ہے؟ یہاں ہر فرد ظالم ہے صرف حکومتوں سے کیا شکوہ کرنا؟
ہمارا تعلیمی نظام بھی اخلاقیات کے فقدان کا ذمے دار ہے۔ ہم بچوں کو پڑھاتے تو ہیں لیکن سکھاتے نہیں ہیں۔ بچے بس رٹے لگا کر امتحانات میں نمبر لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے علاوہ انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں؟ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کا مضمون لازمی طور پر رکھنا ہوگا۔ اسلامیات کا مضمون تو ہے جس میں تھوڑا بہت اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے لیکن وہ بہت ناکافی ہے۔ کیونکہ ایک تو اسلامیات کی کتاب بہت ننھی سی ہوتی ہے، جو بہت سے مضامین کا احاطہ نہیں کرسکتی، اوپر سے بچے بلکہ اساتذہ بھی اسے آسان سی کتاب سمجھ کر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے۔ زیادہ توجہ دوسرے مضامین کی طرف دی جاتی ہے تاکہ امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کیے جاسکیں۔ اس لیے اخلاقیات کے نام سے ایک باقاعدہ مضمون رکھنے اور اس میں معاشرتی آداب، دوسروں کا احساس وغیرہ سکھائے جائیں اور طلبا کو عملی طور پر مشق بھی کرائی جائے۔
ایسے ہی معاشرے کی درستی کےلیے ہر فرد کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے۔ ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ وہ کتنا ایماندار ہے؟ دوسروں پر طعن و تشنیع کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اپنے اندر کی غلطیوں کو ڈھونڈنا ذرا مشکل ہے۔ لہٰذا ہر فرد اپنی اصلاح کی فکر کرے۔ جب معاشرے کی غالب اکثریت درست ہوجائے گی تو حکمران بھی خودبخود ٹھیک ہوجائیں گے۔ جب ہر فرد اپنی اصلاح کی فکر کرے گا تو پھر کسی حاکم کو برا بھلا کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔