صحافتی اقدار اور آج کا عہد
گزشتہ پیر کی شام جیسے ہی گھر واپس آیا تو معلوم ہواکہ نامعلوم افراد نے ایکسپریس کے دفتر پر ہینڈگرنیڈ سے حملے کے...
گزشتہ پیر کی شام جیسے ہی گھر واپس آیا تو معلوم ہواکہ نامعلوم افراد نے ایکسپریس کے دفتر پر ہینڈگرنیڈ سے حملے کے ساتھ قریبی پل سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ ظاہر ہے کہ اس خبر کے ملتے ہی مختلف چینل تبدیل کر مکمل معلومات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔اس خبر کے حوالے سے افسوسناک بلکہ تشویشناک پہلویہ ہے کہ دیگر چینلز نے ایکسپریس نیوز کا نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے صرف یہ خبر دی کہ ایک چینل پر حملہ ہواہے۔ بعض نے جائے وقوعہ کوبھی ڈیفنس ویو کے بجائے قیوم آباد بتاکرناظرین کی توجہ ایکسپریس نیوز سے ہٹانے کی کوشش کی۔یہ عمل عوام کی صحیح اطلاعات اور معلومات تک رسائی کے اصول کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
اخباری ونشریاتی اداروں کے درمیان باہمی یکجہتی اس پیشے سے وابستہ افراد کی کارکردگی اور قارئین وناظرین کی معلومات تک بہتر رسائی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ایک اخبار میں کسی دوسرے اخبار کا نام شایع ہوجانے یا کسی ایک چینل پر دوسرے چینل کا نام نشر ہوجانے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑتی،بلکہ یہ صحافتی اداروں کے مضبوط تعلقات کی آئینہ دار روش ہے۔اس کے علاوہ کوئی حادثہ، سانحہ یازیادتی کا واقعہ جو کسی ایک اخباری یا نشریاتی گروپ کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ کسی بھی وقت کسی دوسرے گروپ کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ اس لیے نام شایع یا نشر نہ کرنے سے کسی کی اہمیت بڑھتی ہے اور نشر نہ کیے جانے سے اہمیت میں کمی نہیں آتی۔ اسی طرح مجھے اخبارات میں کئی دہائیوں سے جاری اس رجحان پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ اگر کوئی تقریب کسی ہوٹل میں منعقد ہوتو اس کا نام دینے کے بجائے مقامی ہوٹل لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔حالانکہ نام بتادینے سے نہ تو اس ہوٹل کی تشہیرہوتی ہے اور نہ اخبار کو کوئی نقصان پہنچتا ہے،بلکہ قارئین کوتقریب کے مقام کے بارے میں آگہی ہوجاتی ہے۔لہٰذا یہ محض ایک بچکانہ سوچ اور فروعی نوعیت کے تصورات ہیں،جن سے اب نکلنے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس نیوز نے کشادہ دلی کی نئی روایت قائم کی ہے اور اس نے دیگر اخبارات میں لکھنے والوں کوبھی اپنے ٹیلی ویژن مذاکروں میں بلاکر ان کا قد مزید بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
سیاست اور صحافت کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طورپرایک سے زائد مرتبہ ان صفحات پر اظہار کیا ہے کہ بیشک ذرایع ابلاغ کو گزشتہ دس برسوں کے دوران اپنی بات مختلف پیرائے میںکہنے کے مواقعے ضرور حاصل ہوئے ہیں، مگر جسے آزادیِ اظہار کہا جاتاہے،وہ ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔ دوسرے اس پورے عرصے کے دوران صحافتی اقدار پر عمل درآمدہر لحاظ سے کمزور ہوا ہے۔جس کی وجہ سے ذرایع ابلاغ کااعتماد رفتہ رفتہ مجروح ہورہاہے۔اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نشریاتی ذرایع ابلاغ آج جس آزادی سے مستفیض ہورہے ہیں،وہ اشاعتی ذرایع ابلاغ کی پانچ دہائیوں پر محیط طویل جدوجہد کا ثمر ہے۔اگر ایک طرف صحافیوں نے قید وبند اور کوڑوں کی سزا بھگتی ہے،تو وہیںدوسری طرف اخبارات اوررسائل وجرائد سنسر کے توہین آمیز اورطویل بندشوں کے تکلیف دہ مراحل سے گذرے ہیں ۔مگرکسی بھی سطح پر صحافتی اقدار سے روگردانی نہیں کی گئی۔مگرگزشتہ دس برسوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صحافتی اقدار ضعف کا شکار ہوئی ہیں۔
دوسری خرابی جو گزشتہ ایک دہائی کے دوران ذرایع ابلاغ میں تیزی سے پھیلی ہے، وہ دیگراداروں کی طرح اس میں بھی میرٹ سے انحراف اور علاقائی اور لسانی بنیادوں پر تعصب کا فروغ ہے۔ایک زمانے میں ذرایع ابلاغ میں میرٹ کو جو مقام حاصل تھا، اس کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ سندھ کے شہر کراچی آتے اور یہاں صحافت اور وکالت میں اپنا نام پیدا کرتے ۔ مگر یہ باتیں اب قصہ پارینہ ہوئیں۔آج وفاقی دارالحکومت میں دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے صحافت کے میدان میں قدم رکھنا اور پھر آگے بڑھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔کیونکہ ان صوبوں سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافیوں تک کوہر سطح پر نظراندازکیا جاتا ہے۔ مجھے اس کی وجہ یہ لگتی ہے کہ نسلی ولسانی عصبیت کا زہر اس شعبہ میں بھی سرائیت کررہا ہے۔خاص طورپروفاقی دارلحکومت سے مختلف چینلوں پر ٹاک شوز کرنے والے اینکرز اس قدر خود نمائی اور تنگ نظری میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ ان کی نظر میں چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اورتجزیہ نگاروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ہرصوبے میں موجود ماہرین کی رائے عوام تک پہنچانے کے بجائے اسلام آباد میں مقیم منظورنظر صحافیوں کی ایک مخصوص لابی کے اراکین کو ہرفن مولا سمجھتے ہوئے ہر موضوع پر گفتگو کے لیے ہر چینل پر مدعو کیا جانا ایک فیشن بن چکا ہے۔ جب کہ سندھ اور بلوچستان میں ایسے ان گنت صحافی اور تجزیہ نگار ہیں جو بہتر علم اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔خاص طورپر سندھی اخبارات میںلکھنے والے کسی بھی طور عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں سے کم معلومات نہیں رکھتے۔ مگر بقول ہمارے دوست ذوالفقار ہالیپوٹو،اسٹبلشمنٹ کی طرح شایدصحافت میں بھی یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ایک ہی صوبے کی ہر طرح جائز اور ناجائز بالادستی قائم رکھی جائے ۔
صحافتی اداروں کی باہمی کشمکش اور ان میں بیٹھے ذمے داروں کے غیر مناسب بلکہ غیر جمہوری رویے کی وجہ سے عوام کا صحافت پر سے اعتماد کم ہورہا ہے۔لہٰذا ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ میڈیا ہائوسز اپنے رویوں پرنظرثانی کریں۔ عوام کا اعتماد اور اعتبار برقرار رکھنے کے لیے خبر کا درست اور تصدیق شدہ ہوناضروری ہے۔درست خبر ، اطلاع اورمعلومات کے علاوہ صحیح تجزیہ اسی وقت مل سکتا ہے،جب میرٹ کے اصولوں کو مدنظر رکھاجائے اور ہر قسم کی عصبیت سے اجتناب برتا جائے۔دارالحکومت کے چند بوجھ بھجکڑقسم کے صحافیوںکی لاف گزاف دانشوری نہیں ہے۔اس لیے موضوع کے اعتبار سے ہر صوبے کے صحافیوں کی ماہرانہ رائے کو فوقیت دی جانی چاہیے۔ اگر موجودہ روش تبدیل نہیں ہوئی تو اس کا نقصان آزادیِ اظہارکے علاوہ قومی یکجہتی کو بھی پہنچ سکتا ہے۔
اخباری ونشریاتی اداروں کے درمیان باہمی یکجہتی اس پیشے سے وابستہ افراد کی کارکردگی اور قارئین وناظرین کی معلومات تک بہتر رسائی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ایک اخبار میں کسی دوسرے اخبار کا نام شایع ہوجانے یا کسی ایک چینل پر دوسرے چینل کا نام نشر ہوجانے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑتی،بلکہ یہ صحافتی اداروں کے مضبوط تعلقات کی آئینہ دار روش ہے۔اس کے علاوہ کوئی حادثہ، سانحہ یازیادتی کا واقعہ جو کسی ایک اخباری یا نشریاتی گروپ کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ کسی بھی وقت کسی دوسرے گروپ کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ اس لیے نام شایع یا نشر نہ کرنے سے کسی کی اہمیت بڑھتی ہے اور نشر نہ کیے جانے سے اہمیت میں کمی نہیں آتی۔ اسی طرح مجھے اخبارات میں کئی دہائیوں سے جاری اس رجحان پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ اگر کوئی تقریب کسی ہوٹل میں منعقد ہوتو اس کا نام دینے کے بجائے مقامی ہوٹل لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔حالانکہ نام بتادینے سے نہ تو اس ہوٹل کی تشہیرہوتی ہے اور نہ اخبار کو کوئی نقصان پہنچتا ہے،بلکہ قارئین کوتقریب کے مقام کے بارے میں آگہی ہوجاتی ہے۔لہٰذا یہ محض ایک بچکانہ سوچ اور فروعی نوعیت کے تصورات ہیں،جن سے اب نکلنے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس نیوز نے کشادہ دلی کی نئی روایت قائم کی ہے اور اس نے دیگر اخبارات میں لکھنے والوں کوبھی اپنے ٹیلی ویژن مذاکروں میں بلاکر ان کا قد مزید بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
سیاست اور صحافت کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طورپرایک سے زائد مرتبہ ان صفحات پر اظہار کیا ہے کہ بیشک ذرایع ابلاغ کو گزشتہ دس برسوں کے دوران اپنی بات مختلف پیرائے میںکہنے کے مواقعے ضرور حاصل ہوئے ہیں، مگر جسے آزادیِ اظہار کہا جاتاہے،وہ ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔ دوسرے اس پورے عرصے کے دوران صحافتی اقدار پر عمل درآمدہر لحاظ سے کمزور ہوا ہے۔جس کی وجہ سے ذرایع ابلاغ کااعتماد رفتہ رفتہ مجروح ہورہاہے۔اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نشریاتی ذرایع ابلاغ آج جس آزادی سے مستفیض ہورہے ہیں،وہ اشاعتی ذرایع ابلاغ کی پانچ دہائیوں پر محیط طویل جدوجہد کا ثمر ہے۔اگر ایک طرف صحافیوں نے قید وبند اور کوڑوں کی سزا بھگتی ہے،تو وہیںدوسری طرف اخبارات اوررسائل وجرائد سنسر کے توہین آمیز اورطویل بندشوں کے تکلیف دہ مراحل سے گذرے ہیں ۔مگرکسی بھی سطح پر صحافتی اقدار سے روگردانی نہیں کی گئی۔مگرگزشتہ دس برسوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صحافتی اقدار ضعف کا شکار ہوئی ہیں۔
دوسری خرابی جو گزشتہ ایک دہائی کے دوران ذرایع ابلاغ میں تیزی سے پھیلی ہے، وہ دیگراداروں کی طرح اس میں بھی میرٹ سے انحراف اور علاقائی اور لسانی بنیادوں پر تعصب کا فروغ ہے۔ایک زمانے میں ذرایع ابلاغ میں میرٹ کو جو مقام حاصل تھا، اس کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ سندھ کے شہر کراچی آتے اور یہاں صحافت اور وکالت میں اپنا نام پیدا کرتے ۔ مگر یہ باتیں اب قصہ پارینہ ہوئیں۔آج وفاقی دارالحکومت میں دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے صحافت کے میدان میں قدم رکھنا اور پھر آگے بڑھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔کیونکہ ان صوبوں سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافیوں تک کوہر سطح پر نظراندازکیا جاتا ہے۔ مجھے اس کی وجہ یہ لگتی ہے کہ نسلی ولسانی عصبیت کا زہر اس شعبہ میں بھی سرائیت کررہا ہے۔خاص طورپروفاقی دارلحکومت سے مختلف چینلوں پر ٹاک شوز کرنے والے اینکرز اس قدر خود نمائی اور تنگ نظری میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ ان کی نظر میں چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اورتجزیہ نگاروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ہرصوبے میں موجود ماہرین کی رائے عوام تک پہنچانے کے بجائے اسلام آباد میں مقیم منظورنظر صحافیوں کی ایک مخصوص لابی کے اراکین کو ہرفن مولا سمجھتے ہوئے ہر موضوع پر گفتگو کے لیے ہر چینل پر مدعو کیا جانا ایک فیشن بن چکا ہے۔ جب کہ سندھ اور بلوچستان میں ایسے ان گنت صحافی اور تجزیہ نگار ہیں جو بہتر علم اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔خاص طورپر سندھی اخبارات میںلکھنے والے کسی بھی طور عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں سے کم معلومات نہیں رکھتے۔ مگر بقول ہمارے دوست ذوالفقار ہالیپوٹو،اسٹبلشمنٹ کی طرح شایدصحافت میں بھی یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ایک ہی صوبے کی ہر طرح جائز اور ناجائز بالادستی قائم رکھی جائے ۔
صحافتی اداروں کی باہمی کشمکش اور ان میں بیٹھے ذمے داروں کے غیر مناسب بلکہ غیر جمہوری رویے کی وجہ سے عوام کا صحافت پر سے اعتماد کم ہورہا ہے۔لہٰذا ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ میڈیا ہائوسز اپنے رویوں پرنظرثانی کریں۔ عوام کا اعتماد اور اعتبار برقرار رکھنے کے لیے خبر کا درست اور تصدیق شدہ ہوناضروری ہے۔درست خبر ، اطلاع اورمعلومات کے علاوہ صحیح تجزیہ اسی وقت مل سکتا ہے،جب میرٹ کے اصولوں کو مدنظر رکھاجائے اور ہر قسم کی عصبیت سے اجتناب برتا جائے۔دارالحکومت کے چند بوجھ بھجکڑقسم کے صحافیوںکی لاف گزاف دانشوری نہیں ہے۔اس لیے موضوع کے اعتبار سے ہر صوبے کے صحافیوں کی ماہرانہ رائے کو فوقیت دی جانی چاہیے۔ اگر موجودہ روش تبدیل نہیں ہوئی تو اس کا نقصان آزادیِ اظہارکے علاوہ قومی یکجہتی کو بھی پہنچ سکتا ہے۔