چھٹی عالمی اردو کانفرنس
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ چیئرمین ادبی کمیٹی سحر انصاری اور تمام عہدیداران بجا...
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ چیئرمین ادبی کمیٹی سحر انصاری اور تمام عہدیداران بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مسلسل چھٹے سال بھی عالمی اردو کانفرنس انتہائی کامیابی کے ساتھ کچھ اس طرح منعقد کی کہ پچھلی کانفرنسوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ اس بار کا جوش وخروش، ولولہ، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، مصور، گلوکار، موسیقار سبھی کے چہرے گلاب گلاب نظر آئے۔
میں انکم ٹیکس کا چھوٹا سا وکیل بھی ہوں اور انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 30 نومبر تھی، سو دم لبوں پر تھا ، مگر کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شریک ہوا۔ تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھا اور پھر بھاگم بھاگ اپنے دفتر پہنچا اورجمع تفریق کے چکر میں مصروف ہوگیا۔ 28 نومبر بروز جمعرات کانفرنس شروع ہوئی تھی۔ بھلا ہو مرکزی حکومت کا جس نے گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ 15 دسمبر کردی۔ بس یہ خبر سننا تھی کہ میں نے وکالت کا دفتر بندکیا اورآرٹس کونسل کراچی میں ڈیرا ڈال دیا۔ چائے،کھانا سب وہیں ہوتا اور رات گئے سونے کے لیے گھر آتا۔ کانفرنس کے دوران کیا کیا باتیں سنیں، کیسے کیسے پیارے لوگ ملے، کیا بیان کروں۔ اک کیف و سرور کا سماں تھا اور میں تھا۔ دسمبر تو خود سراپا رومان اور ایسے میں عبداللہ حسین کی اداسیاں بھی کہیں دور جا بسی تھیں، گو ان کے سدا بہار ناول ''اداس نسلیں'' کا پچاس سالہ جشن منایا گیا، ایک خصوصی بزم سجائی گئی۔ صدارت ہندوستان سے آئے شمیم حنفی نے کی۔
صحافی محمد حنیف اور احمد شاہ نے اداس نسلیں کے خالق سے بڑی شگفتہ گفتگو کی اور عبداللہ حسین بھی اسی شگفتگی سے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ شاہکار ناول کیسے شروع ہوا۔ عبداللہ حسین بتا رہے تھے ''میں ڈیڑھ سال کا تھا جب میری ماں کا انتقال ہوا۔ میں نے ہوش سنبھالا تو گھر میں رسالہ تہذیب نسواں کے شمارے نظر آئے۔ پتا چلا کہ والدہ صاحبہ کا شوق تھا شاید اسی وجہ سے اردو لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی ہو۔ پھر بارہ جماعتیں پڑھ کر ایک سیمنٹ فیکٹری میں نوکری مل گئی۔ شہر سے دور ویرانے میں یہ فیکٹری تھی، وہاں آٹھ گھنٹے نوکری، آٹھ گھنٹے سونا اور باقی آٹھ گھنٹے فارغ۔ سو میں نے فراغت کے آٹھ گھنٹوں میں لکھنا شروع کردیا۔ ابتدا میں یہی سوچا تھا کہ افسانہ ہوجائے گا مگر کام پھیلتا ہی گیا اور ''اداس نسلیں'' بن گیا''۔ایک زمانہ کہتا ہے کہ قراۃالعین کے ''آگ کا دریا'' کے بعد عبداللہ حسین کا ناول ''اداس نسلیں'' بھی بڑا ناول ہے۔ ایسے عہد آفریں کام انجام دینے والے خدا کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ عبداللہ حسین آج بھی ادبی حلقوں اور عوام میں روز اول کی طرح مقبول ہیں، دائیں بائیں دونوں نظریے والے آپ کو مانتے ہیں۔
چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں کل 22 سیشن ہوئے۔ افتتاحی اجلاس اور اختتامی اجلاس میں کانفرنس ہال بھرا ہوا تھا۔ فلمی موسیقی کے سو سال اور ضیا محی الدین والے پروگرام میں ہال کی تمام نشستیں بھری ہوئی تھیں۔ شعر و ادب کے اجلاسوں میں سب سے بڑا مجمع حبیب جالب کے حصے میں آیا۔ ''بیاد جالب'' کے لیے صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ، تربت کے سیاسی کارکن، ڈاکٹر عبدالمالک تشریف لائے تھے۔ پروگرام شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی عوامی وزیر اعلیٰ آگئے تھے اور کانفرنس ہال کی لابی میں دوست احباب کے ساتھ بیٹھے رہے۔ اس پروگرام کو مجاہد بریلوی نے ترتیب دیا تھا اور وہی پروگرام کی نظامت کے فرائض ادا کر رہے تھے۔ پروگرام کی ابتدا کرتے ہوئے احمد شاہ نے اعلان کیا کہ ہم حبیب جالب کی نظم سے آغاز کریں گے اور پھر اسٹیج کی بتیاں بجھا دی گئیں اور اسٹیج پر پھیلے اندھیرے میں حبیب جالب کی آواز اجالے بکھیر رہی تھی، اسکرین پر حبیب جالب نظر آرہے تھے وہ کہہ رہے تھے دیپ جس کا محلات ہی میں جلے' چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے' وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے' ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا' میں نہیں مانتا۔
امجد اسلام امجد نے بھی ایک مشاعرے سے واپسی اور رات کے آخری پہر میں سڑک کنارے بنے ہوئے ہوٹل اور وہاں جالب کے شاداب ترنم میں غزل کا ذکر کیا۔ فہمیدہ ریاض نے جالب کے لیے لکھی اپنی نظم پیش کی۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے اعلان کیا کہ ہم مارچ 2014 میں حبیب جالب بین الاقوامی کانفرنس منعقد کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان حبیب جالب کا مقروض ہے۔ ڈاکٹر مالک نے حبیب جالب کے اہل خانہ کے لیے پانچ لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔
چھٹی عالمی اردو کانفرنس کے موقعے پر آرٹس کونسل آف پاکستان نے رجحان ساز شاعر عزیز حامد مدنی کی کلیات شایع کرکے بہت بڑا اور اہم ادبی فریضہ انجام دیا ہے۔ عزیز حامد مدنی ہمارے عہد کے انتہائی اہم شاعر ہیں۔ انھیں انگریزی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ اس یادگار پروگرام کی صدارت ڈاکٹر اسلم فرخی نے کی۔ عزیز حامد مدنی کے بھتیجے اور سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ظفر سعید سیفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدنی چچا نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرے انتقال کے 22 سال بعد میری شاعری کی کتاب شایع کرنا۔ سو اب ان کی کلیات شایع ہوگئی ہے۔ ظفر سعید سیفی نے اپنے چچا عزیز حامد مدنی کی یادوں کے چراغ روشن کیے۔ سحر انصاری کا کہنا تھا کہ عزیز حامد مدنی تشہیر کے قائل نہیں تھے، مگر وہ بڑی شاعری کرگئے ''جدید اردو شاعری'' ان کی بڑی اہم کتاب ہے۔ صدر مجلس ڈاکٹر اسلم فرخی نے کہا کہ عزیز حامد مدنی ادبیات کے بلند پایہ عالم تھے۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھی مزاجاً وہ بڑے سادہ انسان تھے۔
اور اب ایک اور یادگار پروگرام کا احوال بھی سن لیجیے اور یہ پروگرام تھا ''علمی موسیقی کے سو سال'' اس پروگرام کو کانفرنس میں سب سے زیادہ سامع نصیب ہوئے۔ کانفرنس ہال کا حال یہ تھا کہ تمام نشستوں پر فلمی موسیقی کے شائقین بیٹھے تھے اور ہال کی سیڑھیاں بھی شیدائیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اسٹیج کے عین سامنے فرش پر بھی بیٹھنے کا انتظام کیا گیا اور ہال کے باہر اسکرین پر بھی ہزار ڈیڑھ ہزار لوگ یہ پروگرام دیکھ اور سن رہے تھے۔ اس پروگرام کی ابتدا ریڈیو پاکستان کراچی کی سینئر گلوکارہ اور امریکن سینٹر کراچی کی ڈائریکٹر اسماء احمد نے یہ لازوال گیت گا کر کی ''پنچھی بانورا'' اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور تالیوں کی یہ گونج پروگرام کے اختتام تک سنائی دیتی رہی کہ جب شوقیہ گلوکار و گلوکاراؤں نے پنکھج ملک، کے ایل سہگل، ثریا، شمشاد بیگم، کے سی ڈے، گیتا دت، مناڈے، ایس ڈی برمن، نور جہاں، رفیع، لتا منگیشکر، کشور کمار، مکیش، سلیم رضا، عنایت حسین بھٹی، شرافت علی، کوثر پروین، زبیدہ خانم، احمد رشدی، مہدی حسن کے لازوال گیت اس مہارت سے گائے کہ شائقین موسیقی مبہوت سنتے رہ گئے۔
اس پروگرام کی تاریخ جناب سلطان ارشد نے تحریر کی تھی جسے بڑے سلیقے سے غزل گائیک سلمان علوی نے اپنی عمدہ کمپیئرنگ سے چار چاند لگا دیے۔ اس پروگرام کی کامیابی کی وجہ صرف ایک ہی تھی کہ شوقیہ گانے والے یہ گانے گا رہے تھے۔ جس طرح گیت گائے جا رہے تھے لگتا تھا کہ بہت تیاری کی گئی ہے۔ سازکاروں کو موسیقار زیڈ ایچ فہیم کنٹرول کر رہے تھے۔ سبھی سازکاروں نے اتنے عمدہ فن کا مظاہرہ کیا کہ سامعین میں بیٹھے سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے ان کو ایک لاکھ روپے کا خصوصی انعام دیا۔ اس پروگرام میں جن گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے گیت گائے ان کے نام ہیں سہیل قدیر، زریں حیدر، فلورنس تھامس، ماہ رخ خان، کامران، نعیم عزیز،، فتح عباس، امیر علی، سویرا علی، حمیرہ کنول، پیام خرم، عمرانہ نعیم اور سلمان علوی۔
''اس شہر خرابی میں'' مسلسل چھٹی عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد دہشت گردوں کے ہاتھوں لہولہان کراچی کے باسیوں کی جانب سے کھلا پیغام ہے کہ ہم کبھی بھی سر نہیں جھکائیں گے۔ حبیب جالب کا لکھا ہوا گیت فلم ساز و آواز، موسیقار حسن لطیف ملک اور گلوکار انور جہاں (گانے سے اقتباس)
لاکھ چلتی رہے یہ ہوائے ستم
دیپ بجھنے نہ دیں گے محبت کا ہم
دیکھنا بیت جائے گی شام الم
جی رہے ہیں یہی آس دل میں لیے
دکھ ہمیں جو دیے اس جہاں نے دیے
میں انکم ٹیکس کا چھوٹا سا وکیل بھی ہوں اور انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 30 نومبر تھی، سو دم لبوں پر تھا ، مگر کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شریک ہوا۔ تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھا اور پھر بھاگم بھاگ اپنے دفتر پہنچا اورجمع تفریق کے چکر میں مصروف ہوگیا۔ 28 نومبر بروز جمعرات کانفرنس شروع ہوئی تھی۔ بھلا ہو مرکزی حکومت کا جس نے گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ 15 دسمبر کردی۔ بس یہ خبر سننا تھی کہ میں نے وکالت کا دفتر بندکیا اورآرٹس کونسل کراچی میں ڈیرا ڈال دیا۔ چائے،کھانا سب وہیں ہوتا اور رات گئے سونے کے لیے گھر آتا۔ کانفرنس کے دوران کیا کیا باتیں سنیں، کیسے کیسے پیارے لوگ ملے، کیا بیان کروں۔ اک کیف و سرور کا سماں تھا اور میں تھا۔ دسمبر تو خود سراپا رومان اور ایسے میں عبداللہ حسین کی اداسیاں بھی کہیں دور جا بسی تھیں، گو ان کے سدا بہار ناول ''اداس نسلیں'' کا پچاس سالہ جشن منایا گیا، ایک خصوصی بزم سجائی گئی۔ صدارت ہندوستان سے آئے شمیم حنفی نے کی۔
صحافی محمد حنیف اور احمد شاہ نے اداس نسلیں کے خالق سے بڑی شگفتہ گفتگو کی اور عبداللہ حسین بھی اسی شگفتگی سے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ شاہکار ناول کیسے شروع ہوا۔ عبداللہ حسین بتا رہے تھے ''میں ڈیڑھ سال کا تھا جب میری ماں کا انتقال ہوا۔ میں نے ہوش سنبھالا تو گھر میں رسالہ تہذیب نسواں کے شمارے نظر آئے۔ پتا چلا کہ والدہ صاحبہ کا شوق تھا شاید اسی وجہ سے اردو لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی ہو۔ پھر بارہ جماعتیں پڑھ کر ایک سیمنٹ فیکٹری میں نوکری مل گئی۔ شہر سے دور ویرانے میں یہ فیکٹری تھی، وہاں آٹھ گھنٹے نوکری، آٹھ گھنٹے سونا اور باقی آٹھ گھنٹے فارغ۔ سو میں نے فراغت کے آٹھ گھنٹوں میں لکھنا شروع کردیا۔ ابتدا میں یہی سوچا تھا کہ افسانہ ہوجائے گا مگر کام پھیلتا ہی گیا اور ''اداس نسلیں'' بن گیا''۔ایک زمانہ کہتا ہے کہ قراۃالعین کے ''آگ کا دریا'' کے بعد عبداللہ حسین کا ناول ''اداس نسلیں'' بھی بڑا ناول ہے۔ ایسے عہد آفریں کام انجام دینے والے خدا کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ عبداللہ حسین آج بھی ادبی حلقوں اور عوام میں روز اول کی طرح مقبول ہیں، دائیں بائیں دونوں نظریے والے آپ کو مانتے ہیں۔
چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں کل 22 سیشن ہوئے۔ افتتاحی اجلاس اور اختتامی اجلاس میں کانفرنس ہال بھرا ہوا تھا۔ فلمی موسیقی کے سو سال اور ضیا محی الدین والے پروگرام میں ہال کی تمام نشستیں بھری ہوئی تھیں۔ شعر و ادب کے اجلاسوں میں سب سے بڑا مجمع حبیب جالب کے حصے میں آیا۔ ''بیاد جالب'' کے لیے صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ، تربت کے سیاسی کارکن، ڈاکٹر عبدالمالک تشریف لائے تھے۔ پروگرام شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی عوامی وزیر اعلیٰ آگئے تھے اور کانفرنس ہال کی لابی میں دوست احباب کے ساتھ بیٹھے رہے۔ اس پروگرام کو مجاہد بریلوی نے ترتیب دیا تھا اور وہی پروگرام کی نظامت کے فرائض ادا کر رہے تھے۔ پروگرام کی ابتدا کرتے ہوئے احمد شاہ نے اعلان کیا کہ ہم حبیب جالب کی نظم سے آغاز کریں گے اور پھر اسٹیج کی بتیاں بجھا دی گئیں اور اسٹیج پر پھیلے اندھیرے میں حبیب جالب کی آواز اجالے بکھیر رہی تھی، اسکرین پر حبیب جالب نظر آرہے تھے وہ کہہ رہے تھے دیپ جس کا محلات ہی میں جلے' چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے' وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے' ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا' میں نہیں مانتا۔
امجد اسلام امجد نے بھی ایک مشاعرے سے واپسی اور رات کے آخری پہر میں سڑک کنارے بنے ہوئے ہوٹل اور وہاں جالب کے شاداب ترنم میں غزل کا ذکر کیا۔ فہمیدہ ریاض نے جالب کے لیے لکھی اپنی نظم پیش کی۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے اعلان کیا کہ ہم مارچ 2014 میں حبیب جالب بین الاقوامی کانفرنس منعقد کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان حبیب جالب کا مقروض ہے۔ ڈاکٹر مالک نے حبیب جالب کے اہل خانہ کے لیے پانچ لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔
چھٹی عالمی اردو کانفرنس کے موقعے پر آرٹس کونسل آف پاکستان نے رجحان ساز شاعر عزیز حامد مدنی کی کلیات شایع کرکے بہت بڑا اور اہم ادبی فریضہ انجام دیا ہے۔ عزیز حامد مدنی ہمارے عہد کے انتہائی اہم شاعر ہیں۔ انھیں انگریزی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ اس یادگار پروگرام کی صدارت ڈاکٹر اسلم فرخی نے کی۔ عزیز حامد مدنی کے بھتیجے اور سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ظفر سعید سیفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدنی چچا نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرے انتقال کے 22 سال بعد میری شاعری کی کتاب شایع کرنا۔ سو اب ان کی کلیات شایع ہوگئی ہے۔ ظفر سعید سیفی نے اپنے چچا عزیز حامد مدنی کی یادوں کے چراغ روشن کیے۔ سحر انصاری کا کہنا تھا کہ عزیز حامد مدنی تشہیر کے قائل نہیں تھے، مگر وہ بڑی شاعری کرگئے ''جدید اردو شاعری'' ان کی بڑی اہم کتاب ہے۔ صدر مجلس ڈاکٹر اسلم فرخی نے کہا کہ عزیز حامد مدنی ادبیات کے بلند پایہ عالم تھے۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھی مزاجاً وہ بڑے سادہ انسان تھے۔
اور اب ایک اور یادگار پروگرام کا احوال بھی سن لیجیے اور یہ پروگرام تھا ''علمی موسیقی کے سو سال'' اس پروگرام کو کانفرنس میں سب سے زیادہ سامع نصیب ہوئے۔ کانفرنس ہال کا حال یہ تھا کہ تمام نشستوں پر فلمی موسیقی کے شائقین بیٹھے تھے اور ہال کی سیڑھیاں بھی شیدائیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اسٹیج کے عین سامنے فرش پر بھی بیٹھنے کا انتظام کیا گیا اور ہال کے باہر اسکرین پر بھی ہزار ڈیڑھ ہزار لوگ یہ پروگرام دیکھ اور سن رہے تھے۔ اس پروگرام کی ابتدا ریڈیو پاکستان کراچی کی سینئر گلوکارہ اور امریکن سینٹر کراچی کی ڈائریکٹر اسماء احمد نے یہ لازوال گیت گا کر کی ''پنچھی بانورا'' اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور تالیوں کی یہ گونج پروگرام کے اختتام تک سنائی دیتی رہی کہ جب شوقیہ گلوکار و گلوکاراؤں نے پنکھج ملک، کے ایل سہگل، ثریا، شمشاد بیگم، کے سی ڈے، گیتا دت، مناڈے، ایس ڈی برمن، نور جہاں، رفیع، لتا منگیشکر، کشور کمار، مکیش، سلیم رضا، عنایت حسین بھٹی، شرافت علی، کوثر پروین، زبیدہ خانم، احمد رشدی، مہدی حسن کے لازوال گیت اس مہارت سے گائے کہ شائقین موسیقی مبہوت سنتے رہ گئے۔
اس پروگرام کی تاریخ جناب سلطان ارشد نے تحریر کی تھی جسے بڑے سلیقے سے غزل گائیک سلمان علوی نے اپنی عمدہ کمپیئرنگ سے چار چاند لگا دیے۔ اس پروگرام کی کامیابی کی وجہ صرف ایک ہی تھی کہ شوقیہ گانے والے یہ گانے گا رہے تھے۔ جس طرح گیت گائے جا رہے تھے لگتا تھا کہ بہت تیاری کی گئی ہے۔ سازکاروں کو موسیقار زیڈ ایچ فہیم کنٹرول کر رہے تھے۔ سبھی سازکاروں نے اتنے عمدہ فن کا مظاہرہ کیا کہ سامعین میں بیٹھے سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے ان کو ایک لاکھ روپے کا خصوصی انعام دیا۔ اس پروگرام میں جن گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے گیت گائے ان کے نام ہیں سہیل قدیر، زریں حیدر، فلورنس تھامس، ماہ رخ خان، کامران، نعیم عزیز،، فتح عباس، امیر علی، سویرا علی، حمیرہ کنول، پیام خرم، عمرانہ نعیم اور سلمان علوی۔
''اس شہر خرابی میں'' مسلسل چھٹی عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد دہشت گردوں کے ہاتھوں لہولہان کراچی کے باسیوں کی جانب سے کھلا پیغام ہے کہ ہم کبھی بھی سر نہیں جھکائیں گے۔ حبیب جالب کا لکھا ہوا گیت فلم ساز و آواز، موسیقار حسن لطیف ملک اور گلوکار انور جہاں (گانے سے اقتباس)
لاکھ چلتی رہے یہ ہوائے ستم
دیپ بجھنے نہ دیں گے محبت کا ہم
دیکھنا بیت جائے گی شام الم
جی رہے ہیں یہی آس دل میں لیے
دکھ ہمیں جو دیے اس جہاں نے دیے