دھول ہٹا کر دیکھیں

1995 میں سنا تھا کہ ہم کرپٹ ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ صرف کرپشن ہی نہیں ہمارے یہاں لا...

wabbasi@yahoo.com

1995 میں سنا تھا کہ ہم کرپٹ ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ صرف کرپشن ہی نہیں ہمارے یہاں لا اینڈ آرڈر سے لے کر تعلیم تک ہر چیزکا ڈبہ گول ہے۔ جب بین الاقوامی رپورٹس میں ہمیں سچ کا آئینہ دکھایا گیا تو بڑا دکھ اور حیرت ہوئی، جگہ جگہ لوگ،اخبارات،اس وقت کے ایک آدھ ٹی وی چینلز اور واحد ریڈیو اسٹیشن اس مسئلے پر بات کرتے نظر آئے لیکن پھر اگلے سال اور اس کے اگلے سال بھی اس کرپٹ ملکوں کی دوڑ میں خود کو دوسروں سے آگے دیکھ کر سب کو اس چیز کی شاید عادت سی ہوگئی اور اب اس سچ کا آئینہ دیکھ کر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوتی۔

وہ 1995 کہ جب ہمیں لگتا تھا کہ اس سے برے حالات ملک کے نہیں ہوسکتے۔ آج سوچو تو لگتا ہے واہ! کیا اچھا وقت تھا۔ سب کچھ آج سے کتنا بہتر تھا ہم ہر سال کرپشن کی سیڑھی اوپر سے اوپر چڑھتے گئے اور سچ کا آئینہ دیکھنا تو دور کی بات اسے بند کرکے اس صندوق میں رکھ دیا جس میں سامان بھرنے کے بعد کوئی کھول کر نہیں دیکھتا۔

ہندوستان جب پچھلی بار ورلڈ کپ جیتا تھا تو اپنی جیت سے زیادہ خوشی پاکستان کو ہرانے کی منا رہا تھا اسی طرح کچھ دن پہلے گلوبل کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے سروے کے نتائج آنے پر ہندوستان اس بات کی خوشی منا رہا تھا کہ وہ کرپشن کے ریٹ میں پاکستان سے بہتر ہے۔

ہم کئی سال پہلے حالات کی وجہ سے اپنی پاکستانی فلم انڈسٹری کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ ہمارے یہاں پورے ملک میں اتنے سینما گھر نہیں ہیں جتنے صرف ویسٹ ممبئی میں ہیں اب اگر ہندوستان فلموں میں ہم سے مقابلہ کرے تو ایسا ہی ہوگا جیسے بیس سال کا لڑکا کسی دو سال کے بچے سے مقابلہ کر رہا ہو۔

اسی طرح وہ سچ کا آئینہ جسے ہم صندوق میں رکھ کر بھول چکے ہیں اسے بار بار اپنی خبروں میں اچھالنا اس لیے غلط ہے کیوں کہ انڈیا کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن سے پاکستان پچھلے کئی سال سے دوچار ہے۔

انڈیا کے ہر اخبار میں ''انڈیا پاکستان کے مقابلے میں کم کرپٹ ہے۔۔۔۔نئے سروے کے مطابق''

''177 ملکوں کی لسٹ میں انڈیا 94 اور پاکستان 127th نمبر پر ہے''

چلیے اس سچ کے آئینے کو باہر نکالتے ہیں جسے ہم کئی سال پہلے صندوق میں رکھ کر بھول گئے تھے اور اس پر سے ان برسوں کی جمع دھول صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سروے کے مطابق دنیا کے سب سے کم کرپٹ ملک ڈنمارک اور نیوزی لینڈ ہیں جنھوں نے ایک سے سو کی ریٹنگ میں 91 نمبر حاصل کیا جب کہ لسٹ کے سب سے نیچے یعنی 177th پوزیشن پر صومالیہ، نارتھ کوریا اور افغانستان آتے ہیں جنھوں نے سو میں سے صرف آٹھ نمبر حاصل کیے جب کہ انڈیا اس وقت ہر طرح خود کو ٹاپ ملکوں کی فہرست میں دکھانے کی کوشش کرتا ہے اس کے باوجود جرمنی، یوکے، جاپان، ہانگ کانگ سے وہ اس لسٹ میں بہت زیادہ پیچھے ہے۔


سی پی آئی سروے سب سے زیادہ اہمیت رشوت، بجلی کی چوری اور غیر قانونی کاموں کو دیتا ہے اور یہ چیزیں صرف پبلک سیکٹر میں نہیں گورنمنٹ لیول پر بھی دیکھی جاتی ہیں۔

ہم نے مانا کہ اس ریس میں ہم انڈیا کے ساتھ اورکئی ملکوں سے بھی بہت پیچھے ہیں لیکن 2013 کرپشن کو لے کر پاکستان کے لیے ایک بہتر سال ہے۔ دیکھا جائے تو ہم اب بھی 127th نمبر پر ہیں لیکن غور کریں تو 2011 میں 152 اور 2012 میں 139 نمبر پر تھے یعنی اس سال ہم نے بہتری کی طرف بارہ قدم لیے جب کہ انڈیا میں پچھلے دو سالوں سے کرپشن میں کوئی فرق نہیں آیا۔

یہ بات غور طلب ہے کہ ہماری گنتی پہلے سریا، ایران اور لیبیا کے ساتھ آ رہی تھی۔ ہم نے بہتری کی طرف قدم بڑھایا جب کہ باقی تمام ملکوں میں کرپشن مزید بڑھ گئی، پاکستان دنیا میں وہ واحد ملک ہے جو کرپشن میں کمی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کی بہتری اس انڈیکس پر اس لیے ایک اچھی خبر ہے کیوں کہ ہمارے یہاں کوئی باقاعدہ اقدام نہیں کیے گئے ہیں کرپشن کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے جب کہ مغرب میں ملین آف ڈالرز اس انڈیکس کو بہتر کرنے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں، درجنوں فیڈرل اور اسٹیٹ لیولز پر ایجنسیوں میں لوگ اس پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں بہتری کے لیے آفیشل لیول پر کہیں کوئی کام نہیں ہو رہا ہے لیکن کہیں نہ کہیں ہماری سوسائٹی یہ سمجھ گئی ہے کہ چیزوں کو بہتر کرنے کا وقت آگیا ہے۔

ہم سب میں تھوڑا بہت اچھا بدلاؤ آیا ہے جس کی وجہ سے چیزیں خودبخود ہی بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔ انڈیا کے سپر اسٹار عامر خان نے تقریباً دو سال پہلے ایک ٹی وی چینل پر درجن بھر سے زیادہ پروگرام کرپشن کے خلاف کر دیے، بجلی کی چوری، رشوت، بچوں پر ظلم جیسی ہر بات پر مدعا اٹھایا، ریٹنگ بھی بہت آئی اس کے باوجود سی پی آئی انڈیکس بتاتی ہے کہ انڈیا کی کرپشن میں ایک فیصد فرق نہیں آیا لیکن ہمارے یہاں جب اینکرز ایکسپریس چینل سمیت دوسرے پرائیویٹ چینلز میں مسائل اٹھاتے ہیں خود جا جا کر غیر قانونی کاموں کو روکنے کے لیے کیمرہ ٹیموں کے ساتھ چھاپے مارتے ہیں تو قوم خودبخود ان سے انسپائر ہوتی ہے جو ہماری اس سال کی سی پی آئی رپورٹ دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔

ٹرینڈ دیکھ کر آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ آیندہ کچھ برسوں میں پاکستان انشاء اللہ ٹاپ پچیس (25) ملکوں میں آسکتا ہے اور ہاں انڈیا سے بہت آگے۔

پاکستان کی پچھلے سال سے سی پی آئی میں بہتری کی اہم وجہ مئی گیارہ 2013 کو ہماری حکومت بدلنا بھی ہے جس سے قوم میں نئی امید جاگی ہے ساتھ ہی شریف حکومت کے آنے کے بعد سے ملک میں کوئی بڑا کرپشن اسکینڈل نہیں ہوا ہے جو ہمارے امیج کے لیے بہت اچھا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا ہی چلتا رہے۔

پچھلے کئی سالوں سے سچائی کے آئینے میں اپنی بری تصویر دیکھ دیکھ کر خود کو برا کہنے کو اتنی عادت ہوگئی ہے کہ جب چیزیں بہتری کی طرف جا رہی ہوتی ہیں تو ہم کو نظر نہیں آتیں۔ ذرا اس دھندلے سے آئینے کی دھول ہٹا کر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ یہ تصویر بہتر ہو رہی ہے، جب کچھ بھی پاکستان میں برا ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے سے پاکستان کی برائی کرتے تھکتے نہیں۔ ہمارے یہاں کرپشن کم ہو رہی ہے۔۔۔۔ چلیے آج پاکستان کے بارے میں کوئی اچھی بات کرکے دیکھیں۔
Load Next Story