انھیں تنہائی سے نکالیے
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے انٹرنیٹ پر معلومات اور خبریں تلاش کرتی میری نظریں ایک دل ہلادینے والی...
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے انٹرنیٹ پر معلومات اور خبریں تلاش کرتی میری نظریں ایک دل ہلادینے والی خبر پر جاکر رک گئیں۔ یہ ایک پورے خاندان کی خودکشی کی خبر تھی، جی ہاں پورا کنبہ، باپ اور اس کی چار بیٹیاں۔ افلاس کی انتہا کو چھوتے علاقے جنوبی پنجاب کے قصبے میلسی سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد راجپوت کی پانچ بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک کی بھی وہ شادی نہ کرسکا تھا۔ سب سے چھوٹی اکتیس سال کی تھی اور سب سے بڑی بہن کی عمر کا پینتالیسواں سال تھا۔ بشیر کے پاس اپنی بیٹیوں کو دینے کے لیے جہیز نہیں تھا، سو کسی رشتے نے اس گھرکے دروازے پر دستک نہیں دی۔ غریب باپ لاکھ جتن کرکے بھی اپنی بیٹیوں کر رخصت کرنے کے لیے ایک رتی سونا چاندی بھی نہ لاسکا۔ ان کی عمریں ڈھلتی رہیں، بالوں میں وقت کی چاندی اور آنکھوں میں مایوسی کا سُونا پن اترتا رہا۔ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب مجبور، مایوس اور دکھی باپ بیٹیوں نے ایک ساتھ مرجانے کا فیصلہ کیا اور بشیر اپنی بیٹیوں سمیت نہر میں کود گیا۔ سب ڈوب گئے، صرف سب سے چھوٹی بہن فاطمہ کی جان بچائی جاسکی۔
ہماری ساری جدوجہد کا محور زندگی ہی تو ہے۔ اسے خوش گوار بنانے کے لیے ہم خوشیاں سمیٹنے کی ہر کاوش کرتے ہیں۔ اسے آسان بنانے کے لیے ہم دن رات ایک کردیتے ہیں، اسے سہولتوں سے آراستہ کرنے کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجاتے ہیں، اسی کے لیے دوستیاں ہوتی ہیں اسی کی محبت میں دشمنیاں پالی جاتی ہیں۔ معاشرت، ثقافت، سیاست اور معیشت کی ساری چہل پہل ساری ترقی محض اس بنیاد پر ہے کہ فرد زندہ رہنا چاہتا ہے۔ اب یہ کتنی خوف ناک حقیقت ہے کہ اسی زندگی کو اپنے ہاتھوں ختم کردیتا ہے! آخر کرب، اذیت اور درد کی وہ کون سی منزل ہوتی ہے جہاں پہنچ کر زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے اور سکون پانے کی واحد امید موت بن جاتی ہے۔ یہ منزل مایوسی کی ہے، ایسی مایوسی جہاں فرد اندھیروں میں تنہا رہ جاتا ہے۔
ایک رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ صرف بارہ سال کے دوران پاکستان میں 23 ہزار762 افراد نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کیا اور بیتے سال کے صرف چھے ماہ کے دوران 312 مرد، 303 خواتین اور 136بچے خود کشی کرچکے ہیں۔ ان اموات کا ذمے دار کون ہے؟ اگرچہ ایسی کسی موت کے رونما ہونے پر قانوناً حکم رانوں کو کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا نہ ہی ایسی کوشش کبھی کی گئی ہے، لیکن اگر ہم ان عوامل کا جائزہ لیں جو خودکشی کی بنیاد بنتے ہیں تو کسی طور حکومت کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ قطرہ قطرہ زہر پلاتا افلاس ہو یا جان کا روگ بن جانے والی بے روزگاری،گھریلو تشدد کے واقعات ہوں یا جنسی زیادتی کے سانحات، چاہے امن وامان کی صورت حال، جس کے باعث پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل بڑھتے جارہے ہیں، ایسے سب مسائل کا سدباب حکومت کی ذمے داری ہے۔
معیشت بہتر بناکر افلاس زدہ طبقے کو غربت کے گڑھے سے نکالنا، اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دے کر بے روزگاری کا انسداد، تشدد اور زیادتی کے شکار افراد کو انصاف کی فراہمی، یہ سب حکومت اور حکومتی اداروں کے بنیادی فرائض ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں کو اپنے فرائض سے دلچسپی ہے ہی کب۔ المیہ تو یہ ہے کہ حکومت ملک میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا نوٹس لینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ چناں چہ ایک خبر کے مطابق ہمارے یہاں خودکشی کے واقعات کی بابت سرکاری اعدادوشمار دستیاب ہی نہیں اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والوں کی صحیح شرح کیا ہے؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم پولیس کے تعاون سے خودکشی کو قدرتی موت بنادینے کا چلن اور دیگر عوامل کی بنا پر اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ سامنے آنے والی تعداد کے مقابلے میں ہر سال کہیں زیادہ افراد خودکشی کرتے ہیں۔
جس ملک میں ہر سال دو ہزار کے قریب افراد خود کشی کرلیتے ہوں اس کی حکومت کے لیے یہ ایشو اہم نہ ہونا خود ایک المیہ ہے۔ کیا حکومت اتنا بھی نہیں کرسکتی کہ ماہرین نفسیات اور ماہرین سماجیات پر مبنی ایک ہیلپ لائن بنادے، جو خودکشی کی طرف بڑھتے افراد کے لیے آخری امید ہو، جس سے رجوع کرکے وہ اپنا مسئلہ اپنا درد بیان کرسکیں۔ اس ہیلپ لائن کا کام صرف تسلی اور دلاسے تک محدود نہ ہو، بلکہ اسے پولیس سمیت مختلف حکومتی اداروں اور صوبائی حکومتوں سے مربوط کیا جائے، تاکہ خودکشی پر کمربستہ شخص کا مسئلہ حل یا اس کی دادرسی کی جاسکے۔ میرے کالموں کا مقصد معاشرے کی اصلاح ہے، اور یہ فریضہ میں اپنی ذمے داری سمجھ کر ادا کرتی ہوں، ورنہ ہیلپ لائن کی تجویز دیتے ہوئے مجھے کوئی توقع نہیں کہ حکمراں اس پر توجہ دیں گے، جن کا یہ حال ہے کہ 10 ستمبر کو دنیا بھر میں منایا جانے والا ''خودکشی کے تدارک'' کا دن ہمارے یہاں خاموشی سے گزر گیا۔
کسی شخص میں خود کشی کا رجحان ہونے کی بابت ماہرین نفسیات بہ آسانی جان لیتے ہیں، اور اگر کسی نے اپنی جان لینے کی کوشش کی ہو تو اسے اس رجحان سے نجات دلانا ضروری ہوجاتا ہے، ورنہ اگلی کوشش کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 325کے تحت خود کشی کی کوشش کی سزا ایک سال قید اور جرمانہ یا دونوں ہیں، جس کی وجہ سے خود کشی کی کوشش کرکے بچ جانے والا اور اس کے اہل خانہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس حوالے سے کسی کو علم نہ ہوسکے۔ چناں چہ اکثر ماہرین نفسیات سے بھی رجوع نہیں کیا جاتا۔ اگر یہ سزا ختم کردی جائے تو یہ خدشہ دور ہوجائے گا اور یہ رجحان رکھنے والے افراد کی ماہرین نفسیات تک رسائی بلاخوف وخطر ممکن بنائی جاسکے گی۔
اپنی جان لینے کے خوف ناک عمل کے اسباب میں معیشت کے علاوہ بھی دیگر کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ نفسیاتی مسائل، تحقیر آمیز رویے، کسی ظلم وزیادتی کا نشانہ بن کر بے بسی اور تذلیل کی تصویر ہوجانا، ایسے عوامل ہیں جو فرد کو تنہا کرکے اسے خودکشی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ میرے اور آپ کے ارد گرد ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جن کے چہروں پر چھائی اداسی اور آنکھوں کی ویرانی ہم سے دو حرف تسلی کے اور ذرا سی امید کی طلب گار ہوتی ہیں، لیکن ہمیں فرصت کہاں کہ ہم کسی کا دکھ بانٹ سکیں۔ ہم تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں، تو آس پڑوس اور گلی محلے میں بسنے والوں کی فکر کسے ہوگی۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت جاننا چاہیے کہ جس تنہائی میں دوسرا جی رہا ہے وہ کل ہمارا مقدر بھی ہوسکتی ہے۔ تو آئیے، اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، اپنے الفاظ اور عمل سے بس ایک زندگی بچالیں، امید کا صرف ایک دیا روشن کردیں، یوں ہمارا سماج اور ہمارے خاندان ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچ جائیں گے۔ ورنہ ہم سب تنہا تنہا جیتے اور مرتے رہیں گے۔
ہماری ساری جدوجہد کا محور زندگی ہی تو ہے۔ اسے خوش گوار بنانے کے لیے ہم خوشیاں سمیٹنے کی ہر کاوش کرتے ہیں۔ اسے آسان بنانے کے لیے ہم دن رات ایک کردیتے ہیں، اسے سہولتوں سے آراستہ کرنے کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجاتے ہیں، اسی کے لیے دوستیاں ہوتی ہیں اسی کی محبت میں دشمنیاں پالی جاتی ہیں۔ معاشرت، ثقافت، سیاست اور معیشت کی ساری چہل پہل ساری ترقی محض اس بنیاد پر ہے کہ فرد زندہ رہنا چاہتا ہے۔ اب یہ کتنی خوف ناک حقیقت ہے کہ اسی زندگی کو اپنے ہاتھوں ختم کردیتا ہے! آخر کرب، اذیت اور درد کی وہ کون سی منزل ہوتی ہے جہاں پہنچ کر زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے اور سکون پانے کی واحد امید موت بن جاتی ہے۔ یہ منزل مایوسی کی ہے، ایسی مایوسی جہاں فرد اندھیروں میں تنہا رہ جاتا ہے۔
ایک رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ صرف بارہ سال کے دوران پاکستان میں 23 ہزار762 افراد نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کیا اور بیتے سال کے صرف چھے ماہ کے دوران 312 مرد، 303 خواتین اور 136بچے خود کشی کرچکے ہیں۔ ان اموات کا ذمے دار کون ہے؟ اگرچہ ایسی کسی موت کے رونما ہونے پر قانوناً حکم رانوں کو کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا نہ ہی ایسی کوشش کبھی کی گئی ہے، لیکن اگر ہم ان عوامل کا جائزہ لیں جو خودکشی کی بنیاد بنتے ہیں تو کسی طور حکومت کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ قطرہ قطرہ زہر پلاتا افلاس ہو یا جان کا روگ بن جانے والی بے روزگاری،گھریلو تشدد کے واقعات ہوں یا جنسی زیادتی کے سانحات، چاہے امن وامان کی صورت حال، جس کے باعث پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل بڑھتے جارہے ہیں، ایسے سب مسائل کا سدباب حکومت کی ذمے داری ہے۔
معیشت بہتر بناکر افلاس زدہ طبقے کو غربت کے گڑھے سے نکالنا، اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دے کر بے روزگاری کا انسداد، تشدد اور زیادتی کے شکار افراد کو انصاف کی فراہمی، یہ سب حکومت اور حکومتی اداروں کے بنیادی فرائض ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں کو اپنے فرائض سے دلچسپی ہے ہی کب۔ المیہ تو یہ ہے کہ حکومت ملک میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا نوٹس لینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ چناں چہ ایک خبر کے مطابق ہمارے یہاں خودکشی کے واقعات کی بابت سرکاری اعدادوشمار دستیاب ہی نہیں اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والوں کی صحیح شرح کیا ہے؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم پولیس کے تعاون سے خودکشی کو قدرتی موت بنادینے کا چلن اور دیگر عوامل کی بنا پر اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ سامنے آنے والی تعداد کے مقابلے میں ہر سال کہیں زیادہ افراد خودکشی کرتے ہیں۔
جس ملک میں ہر سال دو ہزار کے قریب افراد خود کشی کرلیتے ہوں اس کی حکومت کے لیے یہ ایشو اہم نہ ہونا خود ایک المیہ ہے۔ کیا حکومت اتنا بھی نہیں کرسکتی کہ ماہرین نفسیات اور ماہرین سماجیات پر مبنی ایک ہیلپ لائن بنادے، جو خودکشی کی طرف بڑھتے افراد کے لیے آخری امید ہو، جس سے رجوع کرکے وہ اپنا مسئلہ اپنا درد بیان کرسکیں۔ اس ہیلپ لائن کا کام صرف تسلی اور دلاسے تک محدود نہ ہو، بلکہ اسے پولیس سمیت مختلف حکومتی اداروں اور صوبائی حکومتوں سے مربوط کیا جائے، تاکہ خودکشی پر کمربستہ شخص کا مسئلہ حل یا اس کی دادرسی کی جاسکے۔ میرے کالموں کا مقصد معاشرے کی اصلاح ہے، اور یہ فریضہ میں اپنی ذمے داری سمجھ کر ادا کرتی ہوں، ورنہ ہیلپ لائن کی تجویز دیتے ہوئے مجھے کوئی توقع نہیں کہ حکمراں اس پر توجہ دیں گے، جن کا یہ حال ہے کہ 10 ستمبر کو دنیا بھر میں منایا جانے والا ''خودکشی کے تدارک'' کا دن ہمارے یہاں خاموشی سے گزر گیا۔
کسی شخص میں خود کشی کا رجحان ہونے کی بابت ماہرین نفسیات بہ آسانی جان لیتے ہیں، اور اگر کسی نے اپنی جان لینے کی کوشش کی ہو تو اسے اس رجحان سے نجات دلانا ضروری ہوجاتا ہے، ورنہ اگلی کوشش کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 325کے تحت خود کشی کی کوشش کی سزا ایک سال قید اور جرمانہ یا دونوں ہیں، جس کی وجہ سے خود کشی کی کوشش کرکے بچ جانے والا اور اس کے اہل خانہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس حوالے سے کسی کو علم نہ ہوسکے۔ چناں چہ اکثر ماہرین نفسیات سے بھی رجوع نہیں کیا جاتا۔ اگر یہ سزا ختم کردی جائے تو یہ خدشہ دور ہوجائے گا اور یہ رجحان رکھنے والے افراد کی ماہرین نفسیات تک رسائی بلاخوف وخطر ممکن بنائی جاسکے گی۔
اپنی جان لینے کے خوف ناک عمل کے اسباب میں معیشت کے علاوہ بھی دیگر کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ نفسیاتی مسائل، تحقیر آمیز رویے، کسی ظلم وزیادتی کا نشانہ بن کر بے بسی اور تذلیل کی تصویر ہوجانا، ایسے عوامل ہیں جو فرد کو تنہا کرکے اسے خودکشی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ میرے اور آپ کے ارد گرد ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جن کے چہروں پر چھائی اداسی اور آنکھوں کی ویرانی ہم سے دو حرف تسلی کے اور ذرا سی امید کی طلب گار ہوتی ہیں، لیکن ہمیں فرصت کہاں کہ ہم کسی کا دکھ بانٹ سکیں۔ ہم تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں، تو آس پڑوس اور گلی محلے میں بسنے والوں کی فکر کسے ہوگی۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت جاننا چاہیے کہ جس تنہائی میں دوسرا جی رہا ہے وہ کل ہمارا مقدر بھی ہوسکتی ہے۔ تو آئیے، اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، اپنے الفاظ اور عمل سے بس ایک زندگی بچالیں، امید کا صرف ایک دیا روشن کردیں، یوں ہمارا سماج اور ہمارے خاندان ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچ جائیں گے۔ ورنہ ہم سب تنہا تنہا جیتے اور مرتے رہیں گے۔