اسمارٹ لاک ڈاؤن عوام نے تعاون نہ کیا تو سختی کی جائے گی

کورونا وائرس مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ۔


حکومتی ترجمان اور ماہرین صحت کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

بدقسمتی سے ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کے پیش نظر حکومت نے گزشتہ دنوں ملک کے مختلف مقامات پر سمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور اب تک بیشتر علاقوں میں اس پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔

ملک میں اس وقت کورونا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق رواں ماہ یہ تعداد 3 لاکھ تک پہنچنے کا خطرہ ہے جبکہ عالمی اداروں کے اعداد و شمار اس سے بھی خوفناک ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ''کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کا لائحہ عمل'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی ترجمان اور ماہرین صحت نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مسرت جمشید چیمہ (ترجمان پنجاب حکومت)

سمارٹ لاک ڈاؤن خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری میں کر رہے ہیں۔ یہ لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے لہٰذا اگر اب بھی عوام نے ساتھ نہ دیا تو سختی کرنا پڑے گی۔ ابھی ٹیسٹ زیادہ نہیں ہورہے۔ ہم روزانہ 10 ہزار ٹیسٹ کر رہے ہیں جن کے نتائج کی روشنی میں مختلف علاقوں میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا تاہم ڈاکٹر جاوید اکرم نے ''ڈرین سامپلنگ'' کی اچھی تجویز دی ہے ، ابتداء میں لاہور میں پائلٹ کرکے پورے پنجاب میں اس کو اپنایا جاسکتا ہے۔ اس بارے میں وزیراعلیٰ پنجاب کو تجویز دوں گی کہ واسا سے ''ڈرین سامپلنگ'' کرواکر سمارٹ لاک ڈاؤن کو مزید موثر بنایا جائے۔ کورونا وائرس کی گیم عوام کے ہاتھ میں ہے اور اس میں جیت یا ہار ان کے رویوں کی محتاج ہے۔ اگر لوگ ماسک نہیں پہنیں گے اور احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کریں گے تو حکومتی اقدامات ناکافی ہوںگے۔ ہم سمارٹ لاک ڈاؤن کے بجائے مکمل لاک ڈاؤن بھی کر دیں تو جب تک عوام اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے فائدہ نہیں ہوگا لہٰذا سب کو ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت اور حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن لگانے پر بعض لوگوں کی جانب سے واویلا مچایا جا رہا ہے حالانکہ یہ تو ہے ہی عوام کی زندگیوں کی حفاظت کیلئے۔ اگر تھوڑے عرصے کیلئے رہائشی علاقہ بند ہوجاتا ہے اور کمرشل علاقوںمیں مزدور کا روزگار جاری رہتا ہے تو اس میں کسی کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ چھوٹے دیہاڑی دار لوگوں کو باہر نکلنے کی اجازت دینے کی وجہ غربت ہے۔ یہ تو قربانی کا وقت ہے۔جم، ریستوران اور بڑے شاپنگ مالز کھولنے جیسے مطالبات عجیب ہیں، اشرافیہ کو چاہیے کہ ملک کے لیے قربانی دے۔کورونا کے پھیلاؤ کی رفتار تیز ہے جس کے لیے ہمیں سپیڈ بریکرز کی ضرورت ہے اور یہ سپیڈ بریکرز احتیاطی تدابیر ہیں جو عوام نے ہی کرنی ہیں۔ حکومت ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے، امید ہے جلد اس پر قابو پالیں گے۔ حکومت عوام کو سہولت اور ریلیف دینے کیلئے بھی کام کر رہی ہے۔جب کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو قوم کا مجموعی رویہ سامنے آتا ہے۔ پہلے ایک خاص طبقہ کو مافیا کہا جاتا تھا مگر اب جس کے پاس جو کرنے کا اختیار ہے وہ اپنی سطح پر اپنی ذات میں ایک مافیا ہے۔ کورونا کی ادویات، ٹیسٹ و دیگر حوالے سے معاملات خراب ہیں، حکومت ان مافیاز کے خلاف ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی قیمت کے حوالے سے نوٹس لے لیا ہے،بہت جلد اس کی قیمت کو یکساں کیا جارہا ہے۔ عوام میں احساس ذمہ داری نظر نہیں آرہا۔ جس کا جو کردار ہونا چاہیے وہ ادا نہیں کر رہا ، جب تک سب مل کر کام نہیں کریں گے تب تک کورونا جیسے چیلنج سے نمٹنا مشکل ہوگا۔ میری اپیل ہے کہ عوام حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم (وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)

حکومت سمارٹ لاک ڈاؤن کر رہی ہے مگر ٹیسٹ کم ہونے کی وجہ سے درست ڈیٹا موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ بعض علاقوں سے ردعمل آرہا ہے۔ کورونا وائرس پیشاب اور پاخانے کے راستے بھی خارج ہوتا ہے لہٰذا میری تجویز ہے کہ واسا کے ذریعے مختلف علاقوں کی ''ڈرین سامپلنگ'' کی جائے اور جہاں وائرس زیادہ ہو، وہاں لاک ڈاؤن کر دیا جائے۔ کورونا وائرس کی بیماری سے صحت یاب ہونے والے 60 ہزار مریض ہیں مگر پلازمہ ڈونرز تقریباََ ڈھائی ہزار ہیں۔ ملک میں اب تک 313کورونا مریضوں کی پلازمہ تھراپی کی جاچکی ہے اور ابھی اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ میرے نزدیک صحت یاب مریضوں کے پاس یہ نایاب موقع ہے کہ وہ دوسرے مریضوں کو پلازمہ دے کر رب کو راضی کریں اور اپنی زندگی کا صدقہ دیں۔ شاید انہیں زندگی عطا کر کے اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کریں۔ کورونا وائرس اللہ کی آزمائش ہے کہ ہم بطور مسلمان اس میں کیا کر دار ادا کرتے ہیں۔ اللہ ہم سے ناراض ہے مگر ساتھ ہی ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم حقوق العباد سے اس کو منائیں۔ اس صورتحال میں کون کیا کردار ادا کرتا ہے، یہ سب اللہ کے پاس نوٹ ہورہا ہے لہٰذا ہمیں اس کی رحمتیں سمیٹنی چاہئیں اور جس طرح بھی دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں، کرنی چاہیے۔ پلازمہ تھراپی کوئی نیا علاج نہیں ہے مگر کورونا وائرس کے علاج کیلئے یہ نیا طریقہ ہے اور ابھی تجرباتی بنیادوں پر ہی تھراپی کی جارہی ہے۔ پلازمہ تھراپی کے فائدے کا چانس زیادہ ہے لہٰذا اس لیے یہ طریقہ اپنایا جارہا ہے۔ میرا ادارہ مفت پلازمہ تھراپی کر رہا ہے اور میرے دفتر کا سب سے اچھا کمرہ پلازمہ اکٹھا کرنے کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ پلازمہ عطیہ کرنے والے ہیرو ہیں اور ہم انہیں مکمل عزت دیتے ہیں۔ پلازمہ ہر ہفتے دیا جاسکتا ہے لہٰذا کورونا کے صحت مند مریضوں کے پاس بہت اچھا موقع ہے کہ وہ انسانی زندگیوں کو بچائیں اور رب کو راضی کریں۔ ہمارا ادارہ پلازمہ تھراپی سے بھی اگلے لیول کا طریقہ علاج اپنا رہا ہے، ہم پلازمہ میں سے IVIG نکال کر مریضوں کو 500 سی سی کے ٹیکے لگارہے ہیں۔ پلازمہ کے لیے انسانوں پر انحصار کو ختم کرنے کیلئے ہم ہیومن ہائبرڈوما ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں، اس کیلئے چوہے اور خرگوش پر تجربے کیے جارہے ہیں۔ ہم دنیا کی دوسری یونیورسٹی ہیں جو یہ ریسرچ کر رہی ہے اور یہ خطرناک تحقیق ہے۔اگر کامیاب ہوگئے تو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ ہم نے اینٹی باڈیز کو جانچنے کا طریقہ بھی نکال لیا ہے کہ اگر آپ کورونا سے ریکور کر گئے ہیں تو آپ میں اینٹی باڈیز موجود ہیں بھی یا نہیں اور ان کی مقدار کتنی ہے۔ اس کے علاوہ ہم سوزش والے مالیکولز کی بھی سٹڈی کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم15 عالمی یونیورسٹیاں جن میں آکسفورڈ، ہاورڈ، شنگھائی یونیورسٹی و دیگر شامل ہیں کے ساتھ روزانہ آن لائن میٹنگز کرتے ہیں۔ ہم نے کورونا کے حوالے سے بے شمار تربیتی پروگرامز بھی کروائے ہیں جن سے لوگوں کو بہت فائدہ ہوا۔ ہمارے ادارے نے کورونا وائرس کے حوالے سے 44 منصوبے کیے جن میں پلازمہ تھراپی،کورونا ٹیسٹ، PPE کٹس، ماسک، سینی ٹائرز، پروٹیکٹ سٹڈی، ریسرچ و دیگر شامل ہیں، اس حوالے سے ہم اب تک 13 کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں، یہ حکومت کا نہیں بلکہ ادارے کا پیسہ ہے جو ہم نے مخیر حضرات سے اکٹھا کیا جبکہ کٹس و دیگر سامان اس کے علاوہ ہے۔ایک کمپنی نے ہمیں 7 وینٹی لیٹرز دیے۔ اخوت فاؤنڈیشن نے ہمیں کٹس فراہم کی ہیں اور ہم مفت PCR کرتے ہیں اور دنیا کا سب سے درست رزلٹ ہمارا ہے کیونکہ ہماری رپورٹ پر تین پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کے دستخط ہوتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں لیبارٹری اسسٹنٹ کے سائن ہوتے ہیں۔ ہم PCR سے ریسرچ بھی کر رہے ہیں اور غرباء کے مفت ٹیسٹ بھی کر رہے ہیں۔ ہم نے لاکھوں لوگوں میں ماسک و کٹس تقسیم کی ہیں۔ ہمارا مشن ہے کہ ہم ایک کروڑ افراد میں مفت ماسک تقسیم کریں۔ ہم فرنٹ لائن ڈاکٹرز کے تحفظ کیلئے بھی کام کر رہے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں 13 میڈیکل یونیورسٹیاں ہیں۔ اگر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اتنا کام خود کر سکتی ہے تو باقی بھی کر سکتی ہیں، ان کے پاس PCR کی مشینیں موجود ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ان سے کام لے، اس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔ہم پروٹیکٹ سٹڈی کر ر ہے ہیںجس میں مختلف ادویات کا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ یہ سٹڈی 9 ہزار 500 مریضوں پر کی جائے گی اور اب تک ڈیڑھ ہزار مریض اس میں انرول ہوچکے ہیں جنہیں 6 گروپوں میں تقسیم کرکے مختلف ادویات دی جارہی ہیں، ان میں ایک گروپ ایسا بھی ہے جسے کوئی دوا نہیں دی جاتی۔ اس حوالے سے ملک بھر میں ہمارے 27 سینٹرز ہیں جہاں یہ کام ہورہا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے علاج کے حوالے سے کونسی ادویات کارگر ہیں اور کونسی نہیں۔ اس ریسرچ کے بعد کورونا کے علاج میں بڑی پیش رفت ہوگی۔ آج کل ''ڈیکسا میتھا سون'' کی بات ہو رہی ہے، یہ ریکوری ٹرائل ہے۔ یہ ٹرائل برطانیہ کے 43 ہسپتالوں میں ہو رہا ہے اور ہم بھی کر رہے ہیں۔ ہم ایکٹمرا اور اس کی سسٹر ادویات کے حوالے سے بھی تحقیق کر رہے ہیں۔ جو لوگ وینٹی لیٹر پر ہیں، ہم ان کے حوالے سے بھی ریسرچ کر رہے ہیں۔ ہمارا ٹیلی میڈیسن پورٹل بھی کامیاب ترین ہے۔ اس وقت ہمارے 49 ٹیلی میڈیسن سینٹر موجود ہیں۔ ہمارا ''بائیو میڈیکا'' کا جنرل شائع ہوتا ہے، ہم نے اس مرتبہ اسے کورونا وائرس کے نام کر دیا ہے۔ اس میں ہمارے 150 کے قریب ریسرچ پیپرز شائع ہورہے ہیں۔ اس سے پہلے ہمارے ادارے کے ریسرچ پیپرز بین الاقوامی جنرلز میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس وقت بدقسمتی سے کورونا بہت زیادہ پھیل چکا ہے۔ لاہور میںا ٓبادی زیادہ اور گنجان ہے لہٰذا یہاں پھیلاؤ زیادہ ہے۔ اس کے پیش نظر حکومت اب سمارٹ لاک ڈاؤن کر رہی ہے لیکن جب تک عوام ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے تب تک یہ جنگ جیتنا ناممکن ہے۔ حکومت نے اچھا کام کیا ہے لہٰذا اب اس کا ساتھ دیں تاکہ کورونا وائرس کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عوام کے تعاون کے بغیر دنیا کا کوئی بھی ملک اس سے نہیں نمٹ سکتا۔ کورونا وائرس ایپی ڈیمک سے اینڈیمک بن گئی ہے، اب ٹیسٹ نہیں بلکہ کلینکل تشخیص کی جانب جانا چاہیے، علامات سے مرض کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا جس کو بھی علامات ظاہر ہوں وہ خود کو قرنطینہ کرلے اور عبادت کرے۔ ہماری یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں وینٹی لیٹر پر موجود 9 مریض صحت یاب ہوکر گھر چلے گئے جن میں ایک مریض کی عمر 95 سال ہے۔

ڈاکٹر فریدون جواد احمد ( پلازمہ تھراپی ایکسپرٹ و پروفیسر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)

پلازمہ تھراپی گزشتہ 125 برس سے مستند طریقہ علاج ہے۔ 18 ویں صدی کے آخر میں ٹیٹنس کے علاج کیلئے یہ طریقہ پہلی مرتبہ اپنایا گیا اور اب تک پلازمہ تھراپی سے بے شمار بیماریوں کا کامیاب علاج کیا جاچکا ہے۔ جب کوئی ایسا جراثیم یا ذرہ ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے جو ہمارا حصہ نہیں ہے تو ہماری قوت مدافعت اس کے خلاف کیمیکل پیدا کرتی ہے جسے اینٹی باڈیز کہتے ہیں۔ جو شخص بیماری سے صحت یاب ہوجاتا ہے اس کے پلازمہ میں یہ اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔ ایسے شخص کا پلازمہ، جو خون کا پانی والا حصہ ہوتا ہے، وہ نکال کر دوسرے مریض کو لگایا جاتا ہے، اس طرح اینٹی باڈیز بیمار شخص میں منتقل ہوجاتی ہیں اور بیماری کا مقابلہ کرتی ہیں۔ جس طرح ایک تالے کو ایک ہی چابی لگتی ہے، اسی طرح کورونا کے مریضوں کو کورونا کے صحت یاب مریضوں کا ہی پلازمہ لگایا جاتا ہے، کسی اور مریض کا پلازمہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پلازمہ تھراپی، پیسیو امیونائزیشن ہے اور یہ طریقہ بہت سی بیماریوں کے حوالے سے کارگر ہے۔ پلازمہ تھراپی کیلئے دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ مرض کی یا صورتحال ہے، یہ کتنا بگڑ چکا ہے۔ بیماری کے ابتدائی مراحل میں پلازمہ تھراپی کارگر ہے، کورونا وائرس کی ایک خاص حد تک ہی پلازمہ لگایا جاسکتا ہے، اگر مرض زیادہ بگڑ جائے تو یہ طریقہ زیادہ موثر نہیں ہوگا۔ہماری قوت مدافعت سوزش پیدا کرتی ہے۔ جب مچھر کاٹتا ہے تو اس جگہ جسم پر چھوٹی سی سوزش ہوجاتی ہے، یہ مچھر کے زہر کی وجہ سے نہیں بلکہ وہاں موجود قوت مدافعت کے خلیے ایسے کیمیکل خارج کرتے ہیں جن کی وجہ سے سوزش ہو جاتی ہے تاکہ اس زہر سے مقابلہ کیا جاسکے۔ یہی صورتحال کورونا وائرس کے حوالے سے بھی ہے۔ جب یہ وائرس پھیپھڑوں میں جاتا ہے تو جسم اسی قسم کے کیمیکل خارج کرتا ہے جس سے پھیپھڑوں میں سوزش ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے مریضوں کو سانس کی تکلیف ہوجاتی ہے اور جیسے جیسے یہ وائرس بڑھتا ہے تو سوزش بھی بڑھ جاتی ہے۔ کورونا وائرس کا حل احتیاط ہے۔ اسے لگنے سے پہلے ہی روکنا ہے، ایک بار یہ لگ جائے تو پھر مسائل پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ پھیپھڑوں میں جب سوزش ہوتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے تو پھیپھڑے اپنا کام نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے تو دیگر اعضاء بھی اپنا کام نہیں کرپاتے اور ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ ہمارا ادارہ کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج پلازمہ تھراپی سے کر رہا ہے،اب تک ہم 4 درجن سے زائد مریضوں کی پلازمہ تھراپی کر چکے ہیں۔ اس وقت پلازمہ ڈونرز کی شدید قلت ہے۔ ہمیں لوگوں کو شعور دینا چاہیے کہ کورونا وائرس کے ہر مریض کو پلازمہ نہیں لگایا جاسکتا لہٰذا اس کی ضد نہ کریں اور ڈاکٹرز کو اپنا کام کرنے دیں۔ ہمارے ڈاکٹرز قابل ہیں اور محنت سے کام کر رہے ہیں لہٰذا ان پر اعتماد کیا جائے اور افواہوں پر کان نہ دھڑے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں