عوام مافیاز کے انجام کے منتظر

ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصرکے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ عوامی ہے اوراس مطالبے کو پورا کرنا حکومت پر فرض ہے۔


Editorial June 22, 2020
ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصرکے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ عوامی ہے اوراس مطالبے کو پورا کرنا حکومت پر فرض ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل اور رپورٹ کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے کمیشن کی سفارشات پر حکومت کی جانب سے کارروائی کو درست قرار دیدیا ہے۔ یہ ایک انتہائی صائب فیصلہ ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہونگے، اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ چینی بحران میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا آغازکردیا ہے، شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

یہ المیہ ہے کہ ملک میں قانون کی مکمل حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مافیاز نے جنم لیا اور وہ کسی قسم کی گرفت یا احتساب کے خوف سے بالاتر ہو کر اپنا مذموم کھیل کھیلتے رہے۔افسوسناک امر تو یہ ہے کہ یہ مافیاز یا تو اقتدار کا حصہ رہے یا انھیں اہل اقتدار کی آشیر باد حاصل رہی۔مختصر سے عرصہ میں ملک کا آٹا،چینی اور اب پٹرول بحران میں گھرنا چہ معنی دارد؟

چینی بحران کی رپورٹ آنے کے بعد کارروائی میں جو تاخیر ہوئی اس سے عوام میں اس تاثر کو مہمیز ملی کہ حسب روایت کہیں یہ معاملہ بھی اہل اقتدار کے ہاتھوں دم نہ توڑ جائے، لیکن وزیراعظم کے واضح موقف کے بعد اس تاثرکو زائل کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں بنیادی اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت مافیاز ذخیرہ اندوزی کرکے پیدا کر رہی ہے۔

ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصرکے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ عوامی ہے اوراس مطالبے کو پورا کرنا حکومت پر فرض ہے۔عوام منتظر ہیں کہ ملک کو مختلف بحرانوں کی لپیٹ میں لینے والے کرداروں کو کب ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔

کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈائون نے ملکی معیشت کو انتہائی مشکلات سے دوچارکردیا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے رواں سال کے پہلے دس ماہ میں بڑی صنعتوں کی کارکردگی کے بارے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی پیداوارمیں اکتالیس فیصد اور ٹیکسٹائل میں8.68 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ الیکٹرونکس کی پیداوار میں بیس فیصد کمی ہوئی، پیٹرولیم اکیس فیصد، لوہے اور اسٹیل کی پیداوار پندرہ فیصد گرگئی، انجینئرنگ مصنوعات14.55 فیصد، لیدرکی پیداوارمیں 4.50فیصد کمی ہوئی ، فارماسیوٹیکل5.31 فیصد اورکیمیکلز میں 3.71 فیصد کمی بتائی جا رہی ہے۔

اس رپورٹ کے مندرجات کمزور ملکی معاشی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں، حکومتی معاشی بزرجمہروں کو اس جانب توجہ دینا ہوگی کہ جب تک صنعتیں مکمل طور پر نہیں چلیں گی، اس وقت تک ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں نہیں ہوسکے گا۔ ملکی معاشی منظر نامہ یہ ہے کہ پاکستان رواں مالی سال کے دوران سعودی عرب سے مؤخرادائیگیوں پرطے شدہ 3.2 ارب ڈالر کے بجائے 90 کروڑ ڈالر سے بھی کم کا تیل خرید سکا ہے۔

مؤخرادائیگیوں پر کم خریداری کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی بوجھ پڑا جسے اسٹیٹ بینک نے باہر سے آنے والے زرمبادلہ سے پورا کیا ہے، لیکن اب تو ہزاروں پاکستانی بیرون ملک سے واپس آرہے ہیں اورجو قیمتی زرمبادلہ ملک کو حاصل ہوتا تھا اس میں بھی واضح کمی کے خدشات ابھر رہے ہیں۔آنے والے دن بہت مشکل اورکڑے ہیں ہمیں ایک ایک قدم اچھی طرح سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔

ملک میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ اب تک تین ہزار پانچ سو افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، روزانہ اموات کی شرح بھی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے، ہزاروں کی تعداد اب ڈیڑھ لاکھوں مریضوں تک جا پہنچی ہے۔ ہم خطروں کی حدود پارکرچکے اور احتیاط کا دامن چھوڑنے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ ہمارا ہیلتھ اسٹراکچر بیٹھتا چلا جا رہا کیونکہ وہ ہزاروں مریضوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔

سرکاری اور نجی اسپتالوں میں صرف کورونا ٹیسٹ کی فیس ہزاروں روپے میں ہے، جو عام آدمی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس جانب حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔حال تو یہ ہوچلا ہے کہ وٹامن سی کی گولیاں بھی مارکیٹ میں نایاب ہو چکی ہیں،کورونا وائرس سے بچائو میں جو ادویات معاون ثابت ہورہی ہیں انھیں مافیاز نے مہنگے داموں فروخت کرنے کی غرض سے ذخیرہ کرنا شروع کردیا ہے۔ ادویات کی سپلائی کو یقینی بنانا محکمہ صحت کی اولین ذمے داری ہے اوراسے ہر صورت اس فرض کو ادا بھی کرنا چاہیے تاکہ عوام کی مشکلات میں کمی واقع ہو۔

پنجاب حکومت نے صوبے بھرمیں عوامی مقامات پرماسک پہننے، منہ ڈھانپنے کی پابندی لگا دی ہے۔ تمام سروسزکے حصول کو ماسک پہننے سے مشروط کیا گیا ہے کہ منہ ڈھانپے بغیر آئے گاہکوں کوکسی قسم کی سروس فراہم نہ کی جائے۔ یہ ایک انتہائی مستحسن فیصلہ ہے جس کی پیروی دیگر صوبوں کو بھی کرنی چاہیے۔ملک میں کورونا وائرس کے پھیلائو کے ساتھ ہی نئے، پرانے آکسیجن سلنڈرز اورآکسیجن گیس کے فروخت کنندگان نے بھی مافیا بن کر لوٹ مارکا بازارگرم کردیا ہے۔

سلنڈرمافیا کے اسٹاک ہولڈرز نے آکسیجن سیلنڈرکی قیمتیں تین گنا مہنگی کرکے کورونا سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے جینا مشکل اور موت کو آسان بنا دیا ہے۔ عوامی فلاح کی دعویدار حکومت کے زیر سایہ یہ سب کیا ہورہا ہے ؟ اسے اس کے سدباب کے لیے فوری اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔ ڈبلیو ایچ او نے تجویز دی ہے کہ14دن قرنطینہ کے بعد متاثرہ مریض اپنے دوٹیسٹ کروائے، اگر وہ نیگٹو آئیں تو قرنطینہ ختم کردیا جائے، ڈبلیو ایچ اوکے مطابق اگر28دن کے لیے قرنطینہ مکمل کرنے کے بعد، ایس اوپیز کو اختیارکرلیاجائے تو متاثرہ مریض خود اور ارد گرد کے بہت سے لوگوںکو محفوظ رکھ سکتا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران امور صحت کے معاون خصوصی ظفرمرزا نے کہا ہے کہ تقریباً 72 فیصد جاں بحق افراد کی عمر 50 سال سے زائد تھی، 70سے 75 فیصد افراد پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا تھے، کورونا سے جاں بحق افراد کو بلڈ پریشر ، ذیابطیس یا دل کے عارضے تھے۔ ان کے مطابق بیمارافرادکے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو کورونا وائرس سے بچائو کے لیے بزرگوں اور بیمار افراد کا ہمیں خاص خیال رکھنا ہے، ڈاکٹرز ہمیں جو احتیاطی تدابیر بتا رہے ہیں ، انھیں نظر انداز کرکے ہم سب بڑی مشکل میں گرفتارہوچکے ہیں۔

جیسا کہ بتایا جارہا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاوَ کے لیے چند چیزوں کا خیال رکھنا لازم ہے، پرہجوم جگہ پر ماسک پہننا ، گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے گریزکرنا، دوسروں سے کم ازکم 6 فٹ کا فاصلہ رکھنا اور ہاتھوں کو 20سیکنڈ تک بار بار دھونا تو لازمی امر ہے۔ قوم کا ہر فرد پوری سچائی سے جائزہ لے کہ آیا وہ ان ہدایات پر عمل کررہا ہے یا نہیں ؟اگر نہیں کررہا ہے تو اسے اب اپنی اور اہل خانہ کی فکرکرنی چاہیے کیونکہ بے احتیاطی کا چلن ہم سب کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ قوم کے ہر فرد نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آیا زندگی چاہتا ہے یا موت۔ اگر زندگی چاہتے ہیں تو پھر بے احتیاطی کی روش ترک کرکے احتیاط کا دامن تھام لیجیے اسی میں ہماری بقا کا راز مضمر ہے۔

دوسری جانب عالمی بینک نے 2.4 ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج پاکستان کو دیا ہے، جب کہ اقوام متحدہ ، متعدد افریقی ممالک اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے قرض ادائیگی کے ریلیف پروگرام کو دو سال کے لیے بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ متاثرہ ممالک وبائی بحران کی زد میں آئی اپنی معیشتوں کو سنبھال سکیں۔ امید ہے عالمی مالیاتی ادارے ترقی پذیر اور غریب ممالک کے مسائل پر ہمدردانہ غورکریں گے تاکہ ان ممالک کی معیشت تباہی سے بچ جائے۔ اس برس سعودی عرب سے مؤخرادائیگیوں پرتیل کی درآمد کا تخمینہ 89کروڑ ڈالرتک رہنے کی توقع تھی لیکن وزارت اقتصادی امورکی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق اس سال جولائی سے اپریل تک 76کروڑ80 لاکھ ڈالر کا تیل مؤخرادائیگیوں پر سعودی عرب سے درآمد کیا گیا ہے۔

ایک طرف ملکی معیشت کو مشکلات درپیش ہیں اور دوسری جانب تاحال پٹرول کے بحران پر قابو پانے میں حکومت ناکام نظر آرہی ہے۔ پاکستان کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں میں ضلعی انتظامیہ ریٹس کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ بیشتر پٹرول پمپوں نے ''پٹرول ختم ہے ''کے پوسٹر آویزاں کر دیے ہیں جب کہ پٹرول بلیک میں فروخت ہورہا ہے۔ اکثر جگہوں پر پٹرول 110تا 150میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

افسوسناک امر ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے سے عام آدمی کو ذرا برابر ریلیف نہیں ملا ہے بلکہ اس کے مسائل میں دگنا اضافہ ہوا ہے، نہ ہی اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم ہوئیں اور نہ ہی پٹرول مل رہا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے اور حکمران طبقہ صبح وشام صرف کورونا پر پریس کانفرنسیں کر کے ملکی نظام چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانا بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ذمے داری ہے۔

مالی سال 2019-20ء کے اختتام پر ادائیگیوں کے دباؤ، گھٹتی ہوئی ترسیلات زر اور برآمدات میں کمی کے رجحان کے سبب زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں گزشتہ ہفتے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر تنزلی سے دوچار رہی۔ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 166 روپے اور اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالرکی قدر 167 روپے سے تجاوزکرگئی ہے۔ جیسے جیسے ڈالر کی اڑان اونچی ہوتی جائے گی ہماری ملکی معیشت پر بوجھ بڑھتا جائے گا ، کیونکہ ہمارے ملک پر پہلے ہی غیرملکی سودی قرضوں کا بوجھ ہے۔ حکومت کو ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دینا ہوگی جس سے ملکی معیشت کو سہارا مل سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔