آنے والے خطرناک دن
کورونا سے موت کے منہ میں جانے والوں کے لواحقین یقیناً بے روزگار ہونے والوں سے زیادہ حکومتی توجہ کے مستحق ہیں۔
زندگی میں بعض وقت ایسا آتا ہے کہ ذرا سی غلطی، ذرا سی کوتاہی سے زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ایسا وقت ہماری زندگی میں آگیا ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سنگین نتائج کی حامل ہو رہی ہے۔
حکومتوں کی طرف سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ خدارا ایس او پیز پر عمل کریں، ماسک لگائیں، ایک دوسرے سے تین یا چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں ،کسی حوالے سے بھی ہجوم نہ کریں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری نادان عوام ایس او پیزکی کسی شق پر عمل نہیں کر رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک بھر میں جانی نقصان اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا اور بے احتیاطی کرنے والے عوام کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔
اب بات صرف عوام سے درخواست کرنے کی نہیں ہے بلکہ ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ہے ہماری صوبائی حکومتیں عوام سے درخواست پر درخواست کر رہی ہیں کہ خدارا احتیاط کریں لیکن نادان عوام حکومتوں کی باتوں پر دھیان دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری حکومتیں قدم قدم پر غلطیوں کا مظاہرہ کر رہی ہیں جس کا عوام کو نوٹس لینا چاہیے لیکن ظالم کورونا سے بچنے کے لیے حکومتیں جو اپیلیں کر رہی ہیں اگر اسی طرح اپیلوں کو نظرانداز کیا جاتا رہا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
بلاشبہ ہمارے عوام دولت مند نہیں ہے، لیکن پچیس، تیس روپے کا ماسک تو بہرحال لے سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بار بار وارننگ دی جارہی ہے کہ جولائی اور اگست کے مہینے بہت خطرناک ہیں ان دنوں میں وبا اپنی انتہا کو پہنچے گی اور لاکھوں انسانوں کی جانوں کے زیاں کا خطرہ ہے۔ ہمارے خاندانوں میں عموماً ایک ہی کمانے والا ہوتا ہے اگر خدانخواستہ گھرکا واحد کفیل زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تو پورا خاندان معاشی تباہی کا شکار ہو جائے گا اور اب تک کئی خاندانوں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے پورا خاندان سربراہ سے محروم ہوجانے کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہے۔ عوام ان سنگین حقائق سے واقف ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی عقل ماری گئی ہے۔
ایس او پیزکوئی مشکل یا تکلیف دہ عمل نہیں بلکہ ذرا سی احتیاط کا مسئلہ ہے، اس ذرا سی احتیاط سے انسان جانی نقصان سے بچ سکتا ہے ذرا دنیا پر نظر ڈالیں انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جا رہے ہیں ہزاروں خاندان اپنے سربراہوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ اسکول جانے والے بچے تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں وہ خاندان جن کے سربراہ کورونا کی نذر ہوچکے ہیں ان کے لواحقین در درکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں قیامت کی اس گھڑی میں کوئی کسی کی مدد نہیں کر پا رہا۔
دنیا میں ایسے ملک موجود ہیں جن کے عوام نے احتیاط کرکے اس وبا ہی سے نجات حاصل کرلی ہے اور ایک مطمئن زندگی گزار رہے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں زندگی کی اہمیت کا پتا ہے اپنے بال بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کا خیال ہے۔ جو وبا عوام کے سروں پر کھڑی ہوئی ہے وہ اس قدر ظالم ہے کہ جب وہ کسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو اس کی جان لے کر ہی چھوڑتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں عوام کو اس خطرے سے آگاہ کر رہی ہیں لیکن ابھی تک یہ کوششیں مہم کی شکل اختیار نہیں کرسکیں۔
جن خاندانوں کے سربراہ اس وبا کی نذر ہوگئے ہیں ان کے مظلوم ورثا جن مصائب سے گزر رہے ہیں اس کی فلمیں بنا کر عوام کو دکھائی جائیں تاکہ عوام کو احساس ہو کہ بغیر سربراہ کے خاندان کیسی کیسی بھیانک مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔اس قسم کی کوششوں سے یقیناً عوام سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اس وبا کا شکار ہونے والے خاندان کیسی کیسی بھیانک زندگیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ آج کل موبائل فونز پر کورونا کے خلاف ایک مسلسل مہم چلائی جا رہی ہے لیکن اس مہم پر توجہ دینے کے بجائے عوام اس مہم سے نالاں اور بے زار ہیں، کیونکہ وہ جس سے بات کرنا چاہتے ہیں نہیںکر پاتے۔
شہروں میں محلہ کمیٹیاں بنائی جائیں جو گھر گھر جا کر اس بھیانک وبا کے نقصانات سے شہریوں کو واقف کرائیں ایس او پیزکوئی مشکل کام نہیں بلکہ روزکی روٹین کا حصہ ہے۔ جن پر عمل کرنا مشکل نہیں ہم نے ایک بار پہلے بھی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تھی کہ جن خاندانوں کے کفیل اس وبا کے شکار ہوگئے ہیں ان خاندانوں کے ورثا کی دو طرح مدد کی جائے ایک مالی مدد ، دوسرے زیر تعلیم بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے میں مدد دینا تاکہ تعلیم یافتہ بچے اپنے خاندان کی مالی مدد کرنے کے قابل ہوسکیں۔
مرکزی حکومت نے بے روزگار ہونے والے لاک ڈاؤن کے شکار لوگوں کو تین مرتبہ بارہ بارہ ہزار روپوں سے مدد کرکے ان کا بوجھ کم کرنے کی ایک عادلانہ کوشش کی۔ کورونا سے موت کے منہ میں جانے والوں کے لواحقین یقیناً بے روزگار ہونے والوں سے زیادہ حکومتی توجہ کے مستحق ہیں۔ اس حوالے سے ایک مناسب تجویز یہ ہے کہ جن خاندانوں کے کفیل کورونا کے شکار ہوگئے ہیں ایسے خاندانوں کے کسی ایک فرد کو ملازمت دے کر ان کی مستقل اعانت کا اہتمام کیا جائے ہم خاص طور پر اس بات پر زور دیں گے کہ کورونا کا شکار ہونے والوں کے لواحقین میں سے کسی ایک فرد کو روزگار فراہم کیا جائے۔