سب جا رہے ہیں
میرے خیال میں ’’شمع بننے کے دعوے‘‘ سے پتنگا بن جانا زیادہ بہتر ہے۔
آہستہ آہستہ لیکن مسلسل چلنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ تکبرکرنے والا سر کے بل گرتا ہے اورانکساری میں ڈوب کر منازل سفر طے کرنے والاکامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے۔
یہ قدرت اور فطرت کا ایک متعین کردہ ضابطہ ہے اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جواس سے انحراف کرسکے۔اس لیے کہ ہم سب حالت سفر میں ہیں اور ہر موڑ پرغرور کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
ہاں! اُن ہی کاانجام جو اپنے ہاتھ اوراپنے ہتھیاروں کو زبان کی خواہشات کا تابع بنادیتے ہیں اور جس چیز میں اللہ نے عجلت نہیں رکھی اُس میں جلدی کرتے ہیں، یہ اپنی خواہشات کے اسیر اور اِسی میں امیر ہیںاورجو سوچتے ہیںاُسی کی تکمیل چاہتے ہیں اپنے ہر حکم کو کلمہ بنا کے اُس کی تعمیل چاہتے ہیں۔حالانکہ نہر جہالت میں غسل کرنے والے اِن متکبروں کو اس کا ادراک بھی ہے کہ کوئی ہے جو ''کن فیکون'' کی منزل پر اِن کی نخوت اورتمکنت کا مسلسل وزن کررہا ہے اورایک دن اِنہیں وزن کے حساب سے پورا مول ادا کیا جائے گا۔
لیکن اِس کے باوجوداِنہیں علم کے چشموں،سحر کے چراغوں، بوسیدہ لباس اور پاکیزہ قلوب والوں سے نفرت ہے۔یہ خوب جانتے ہیںکہ تاریک فتنوں کی راہیں کیسے کھولی جاتی ہیں اور گناہوں کے ''آبِ سیاہ'' سے حریری پوشاکیں کس طرح دھولی جاتی ہیں ۔میں جانتا ہوںکہ اس حقیقت سے انکارکیا ہی نہیں جاسکتا کہ انجامِ کار خاک ہونا ہے مگر افسوس کہ مٹی ہونے سے پہلے ہم مٹی نہیں بنتے۔
سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ''آگاہ ہوجاؤ کہ یہ دنیا جھلک دکھا کر منہ موڑنے والی چنڈال،منہ زوراڑیل،جھوٹی،خائن،ہٹ دھرم، ناشکری کرنے والی،سیدھی راہ سے منحرف اور کجرو پیچ و تاب کھانے والی ہے،اِس کا طریقہ انتقال ہے اور اِس کا ہر قدم زلزلہ انگیز ہے۔''اگر ہم سب پر صرف ایک لمحے کے لیے احوال برزخ منکشف ہوجائیں تو یقیناً ہم جھک جائیں اور پیکر عجز و وفا بن جائیں ۔
شاید زمین پر اکڑ کے نہ چلیں اور شاید اُس سرگوشی کو سن لیں جو اس محفلِ ہست و بود میں ازل سے موجود ہے کہ ''اے لوگو!جس پہ سینہ پھلائے اور نظریں اُٹھائے چل رہے ہواِسی زمین کی آغوش میں تمہیں ایک دن سما جانا ہے۔کفن میں لپٹ کرقبر کے سوا اور کہاں جانا ہے''۔ ہمارے ہونے کا احساس اگر یہ مٹی ہے تو پھرہمارے نہ ہونے کا احساس بھی یہی مٹی ہے ۔پھر بھی نہ جانے کس دل سے دل کی جگہ ہم پتھر رکھ لیتے ہیں گو کہ جانتے ہیںکہ پتھر میں عمل کی سلاخ کبھی نہیں دھنستی۔
جان بوجھ کر ہم اُن سے وابستہ ہوجاتے ہیں جو ہم سے کبھی وابستہ نہ تھے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ مطلبی اور خودغرضی نہ تو خون ہے اور نہ خویش لہذا اِس کی چمک دمک سے روشنی کا حصول کیسا؟یہ تو اندھیروں میں اندھیروںکوفروغ دینے والے اور وصل و فراق کی کشمکش میں مبتلا، سراب کے ایسے پُرفریب کنارے ہیںجن کے دامن میں مکر کے سنگریزوں کے سوا اور کچھ نہیں۔اور ہم برانگیختہ اِن ہی کے درمیان جی رہے ہیں۔یہ بڑاکٹھن دورہے۔
زبان،نگہداشت کی متقاضی ہے اورعلم رکھنے والے جانتے ہیں کہ زبان ہی وہ بنیاد ہے جو اچھائی اور برائی کے تاثر کی تعمیر کرتی ہے۔ میں اپنے گردوپیش ایسے بہت سے نفوس روز دیکھتا ہوںجنھیں حالات اور مصائب نے توڑ کراورزیست کے پراسرار نشیب و فراز نے جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے،اور اب وہ کسی نئی تکلیف کو جھیلنے کے لیے قطعاًتیار نہیں۔ مصائب ان کے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں۔ ایک ایسا خوف جو کسی اجگر کی طرح منہ کھولے انھیں نگلنے کے لیے تیار ہے جب کہ حالت سفرمیںہر نیامقام پچھلے سے زیادہ مصائب کو جنم دیتا ہے۔
زندگی کی رہ گذر میں جتنا آگے بڑھیں گے مصائب سے اتنا ہی قریب سے ملیں گے تو پھر اِن مصائب سے گھبرانا کیسا،ستارے تو اندھیرے ہی میں چمکتے ہیں۔توبس موت کو پیشِ نظراور مصائب کو ہمیشہ سہل خیال کرتے ہوئے لوگوں کی جفائیں برداشت کرنا ہوں گی اور نادانوں اور جاہلوں کی صحبت سے گریزکے فاقے کرنے ہوں گے۔
عاقلوں نے تو تکالیف برداشت کر کے سونا اور چاندی زمین سے نکالا تاکہ لوگ فائدہ اٹھائیں لیکن جاہل، بخیل اور تکالیف سے بھاگنے والے انھیں پھر مٹی اور پتھر میں دفن کردیتے ہیں،بالکل اپنے شعور کی طرح جس کی نعش وہ مدتوں اٹھائے پھرتے ہیں اور جب وہ گل سڑ کر تعفن زدہ ہوجاتی ہے تو اسے دفن کر کے ''مشوروں کی سیج''پر بیٹھ جاتے ہیں۔حالانکہ شعور کی تدفین کے بعد دیے جانے والے مشورے''عقل کے اعلانِ موت''کے سوا اورکچھ نہیں ہوتے۔
ایسے لوگ عمر بھر اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ ''ہم جو کچھ کررہے ہیں،جو حرف کہہ رہے ہیں بس وہ درست ہے''۔ہم نے کبھی غلط نہیں کیا۔ہم پر خدائی طاقتوں کا سایہ ہے ۔ہم سے بہتر ''اللہ اکبر'' کہنے والا اور کون ہے،ہم تو کامل ہیں۔مگر اب یہ جان لینا چاہیے کہ روح کے لیے اس سے زیادہ مہلک کوئی اورمرض نہیںکہ وہ اپنے آپ کو کامل سمجھنے لگے کیونکہ مکمل کبھی منتقل نہیں ہوتا۔جو شخص اپنی خطاؤں کو معلوم کر کے ان کا اعتراف کرتا ہے وہ کمال کی جانب بہ سرعت ہوتا ہے۔
میرے خیال میں ''شمع بننے کے دعوے'' سے پتنگا بن جانا زیادہ بہتر ہے مگر اپنے آپ کو بہتر سمجھ لینا جہالت ہے بلکہ ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھنا چاہیے اورپھرویسے بھی جہل کے ہاتھ اگر تلوار لگ جائے تو چہار جانب فساد پھیلتا ہے مگر علم کے ہاتھوں اسی تلوارسے فکرو شعور و نظر کا جہاد پھلتا ہے ۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ہر ایک چیز کا انجام زوال ہے اور اس کا ہمیشہ کسی کے پاس رہنا محال ہے بلکہ کسی کی کیا مجال ہے۔
موت ہر ایک کے سر پہ قائم ہے اور اس کا ذائقہ چکھنا سب پر لازم ہے ۔اتنا جان لیجیے کہ دنیا میں ہر شے فانی ہے۔ ہم جس سے پیار کرتے ہیں اور جس کے ساتھ رہتے ہیںوہ بھی فانی ہے، جس کی خواہش کرتے ہیں اوراپنی اور اپنے گھر کی آرائش کرتے ہیں وہ بھی فانی ہے یہاں تک کہ ہماری آنکھ ہمیں جو منظر دکھاتی ہے وہ فانی ہے اور شعور جسے محسوس کراتا ہے وہ احساس فانی ہے۔ نعمتوں میں غرق اور زندگی کی شادابیوں میں مزے اڑانے والے بھول جاتے ہیں کہ پہاڑ بھی ایک دن روئی کے گالوں کی طرح اُڑیں گے پھر فانی کی خاطر ہم کیوں فنا ہونے کے لیے تیار ہیں؟
کیسے فراموش کردیتے ہیں کہ زندگی کے دن بس صرف چار ہیں جن میں سے دواسی سوچ میں گذرجاتے ہیں کہ بقیہ دو کیسے گذاریں گے ۔آئیے کہ ''لافانی'' سے پیار کرنا سیکھیںکہ گر ہم ایسا کرگذرے تو ہر منزل سے با آسانی گذر جائیں گے ۔اس دنیا کے تمام تر لوازمات عارضی ہیںاور مومن کی شان نہیں کہ وہ اسی پر اکتفا کر کے بیٹھا رہے ۔خدا کی نعمتیں بے انتہا ہیں اور اس کا شکر ادا کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔اگرہم چاہتے ہیں کہ آسمانوں میں پہچانیں جائیں تو ریا کو اپنے اندر داخل نہ ہونے دیجیے۔
جب کوئی فیصلہ کیجیے،خلعت پہنائیے یاکسی کے سر سے ''تاجِ اختیار''اُتاریے تو یاد رکھیے کہ اللہ دیکھتا ہے۔جب بات کیجیے تو یاد رکھیے کہ اللہ سنتا ہے۔اور جب خاموش رہیے تو یاد رکھیے کہ وہ جانتا ہے کہ آپ کیوں چپ ہیں؟۔اور اسی یقین کے ساتھ ہم ایک دن منزل پالیں گے۔بس مایوس،دل گرفتہ اور افسردہ نہ ہوں اور ثابت قدمی سے میدان عمل میں کود جائیے۔میرے خیال میںہر انسان کے لیے بس یہی ''ریفرنس'' شافی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کے لیے کافی ہے باقی ہر ریفرنس اضافی اور دنیاوی ہے۔
ہم تومحبت کی کیاریوں میں اُگنے والے وہ تروتازہ عشاق ہیں جن کی خوشبو سے چمن نکہت افروز ہے،سو آنے والا وقت ہمارا ہے اور اس کے لیے ہمارا یقین ہی واحد سہارا ہے ۔کیونکہ ''آہستہ آہستہ لیکن مسلسل چلنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔''
یہ قدرت اور فطرت کا ایک متعین کردہ ضابطہ ہے اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جواس سے انحراف کرسکے۔اس لیے کہ ہم سب حالت سفر میں ہیں اور ہر موڑ پرغرور کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
ہاں! اُن ہی کاانجام جو اپنے ہاتھ اوراپنے ہتھیاروں کو زبان کی خواہشات کا تابع بنادیتے ہیں اور جس چیز میں اللہ نے عجلت نہیں رکھی اُس میں جلدی کرتے ہیں، یہ اپنی خواہشات کے اسیر اور اِسی میں امیر ہیںاورجو سوچتے ہیںاُسی کی تکمیل چاہتے ہیں اپنے ہر حکم کو کلمہ بنا کے اُس کی تعمیل چاہتے ہیں۔حالانکہ نہر جہالت میں غسل کرنے والے اِن متکبروں کو اس کا ادراک بھی ہے کہ کوئی ہے جو ''کن فیکون'' کی منزل پر اِن کی نخوت اورتمکنت کا مسلسل وزن کررہا ہے اورایک دن اِنہیں وزن کے حساب سے پورا مول ادا کیا جائے گا۔
لیکن اِس کے باوجوداِنہیں علم کے چشموں،سحر کے چراغوں، بوسیدہ لباس اور پاکیزہ قلوب والوں سے نفرت ہے۔یہ خوب جانتے ہیںکہ تاریک فتنوں کی راہیں کیسے کھولی جاتی ہیں اور گناہوں کے ''آبِ سیاہ'' سے حریری پوشاکیں کس طرح دھولی جاتی ہیں ۔میں جانتا ہوںکہ اس حقیقت سے انکارکیا ہی نہیں جاسکتا کہ انجامِ کار خاک ہونا ہے مگر افسوس کہ مٹی ہونے سے پہلے ہم مٹی نہیں بنتے۔
سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ''آگاہ ہوجاؤ کہ یہ دنیا جھلک دکھا کر منہ موڑنے والی چنڈال،منہ زوراڑیل،جھوٹی،خائن،ہٹ دھرم، ناشکری کرنے والی،سیدھی راہ سے منحرف اور کجرو پیچ و تاب کھانے والی ہے،اِس کا طریقہ انتقال ہے اور اِس کا ہر قدم زلزلہ انگیز ہے۔''اگر ہم سب پر صرف ایک لمحے کے لیے احوال برزخ منکشف ہوجائیں تو یقیناً ہم جھک جائیں اور پیکر عجز و وفا بن جائیں ۔
شاید زمین پر اکڑ کے نہ چلیں اور شاید اُس سرگوشی کو سن لیں جو اس محفلِ ہست و بود میں ازل سے موجود ہے کہ ''اے لوگو!جس پہ سینہ پھلائے اور نظریں اُٹھائے چل رہے ہواِسی زمین کی آغوش میں تمہیں ایک دن سما جانا ہے۔کفن میں لپٹ کرقبر کے سوا اور کہاں جانا ہے''۔ ہمارے ہونے کا احساس اگر یہ مٹی ہے تو پھرہمارے نہ ہونے کا احساس بھی یہی مٹی ہے ۔پھر بھی نہ جانے کس دل سے دل کی جگہ ہم پتھر رکھ لیتے ہیں گو کہ جانتے ہیںکہ پتھر میں عمل کی سلاخ کبھی نہیں دھنستی۔
جان بوجھ کر ہم اُن سے وابستہ ہوجاتے ہیں جو ہم سے کبھی وابستہ نہ تھے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ مطلبی اور خودغرضی نہ تو خون ہے اور نہ خویش لہذا اِس کی چمک دمک سے روشنی کا حصول کیسا؟یہ تو اندھیروں میں اندھیروںکوفروغ دینے والے اور وصل و فراق کی کشمکش میں مبتلا، سراب کے ایسے پُرفریب کنارے ہیںجن کے دامن میں مکر کے سنگریزوں کے سوا اور کچھ نہیں۔اور ہم برانگیختہ اِن ہی کے درمیان جی رہے ہیں۔یہ بڑاکٹھن دورہے۔
زبان،نگہداشت کی متقاضی ہے اورعلم رکھنے والے جانتے ہیں کہ زبان ہی وہ بنیاد ہے جو اچھائی اور برائی کے تاثر کی تعمیر کرتی ہے۔ میں اپنے گردوپیش ایسے بہت سے نفوس روز دیکھتا ہوںجنھیں حالات اور مصائب نے توڑ کراورزیست کے پراسرار نشیب و فراز نے جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے،اور اب وہ کسی نئی تکلیف کو جھیلنے کے لیے قطعاًتیار نہیں۔ مصائب ان کے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں۔ ایک ایسا خوف جو کسی اجگر کی طرح منہ کھولے انھیں نگلنے کے لیے تیار ہے جب کہ حالت سفرمیںہر نیامقام پچھلے سے زیادہ مصائب کو جنم دیتا ہے۔
زندگی کی رہ گذر میں جتنا آگے بڑھیں گے مصائب سے اتنا ہی قریب سے ملیں گے تو پھر اِن مصائب سے گھبرانا کیسا،ستارے تو اندھیرے ہی میں چمکتے ہیں۔توبس موت کو پیشِ نظراور مصائب کو ہمیشہ سہل خیال کرتے ہوئے لوگوں کی جفائیں برداشت کرنا ہوں گی اور نادانوں اور جاہلوں کی صحبت سے گریزکے فاقے کرنے ہوں گے۔
عاقلوں نے تو تکالیف برداشت کر کے سونا اور چاندی زمین سے نکالا تاکہ لوگ فائدہ اٹھائیں لیکن جاہل، بخیل اور تکالیف سے بھاگنے والے انھیں پھر مٹی اور پتھر میں دفن کردیتے ہیں،بالکل اپنے شعور کی طرح جس کی نعش وہ مدتوں اٹھائے پھرتے ہیں اور جب وہ گل سڑ کر تعفن زدہ ہوجاتی ہے تو اسے دفن کر کے ''مشوروں کی سیج''پر بیٹھ جاتے ہیں۔حالانکہ شعور کی تدفین کے بعد دیے جانے والے مشورے''عقل کے اعلانِ موت''کے سوا اورکچھ نہیں ہوتے۔
ایسے لوگ عمر بھر اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ ''ہم جو کچھ کررہے ہیں،جو حرف کہہ رہے ہیں بس وہ درست ہے''۔ہم نے کبھی غلط نہیں کیا۔ہم پر خدائی طاقتوں کا سایہ ہے ۔ہم سے بہتر ''اللہ اکبر'' کہنے والا اور کون ہے،ہم تو کامل ہیں۔مگر اب یہ جان لینا چاہیے کہ روح کے لیے اس سے زیادہ مہلک کوئی اورمرض نہیںکہ وہ اپنے آپ کو کامل سمجھنے لگے کیونکہ مکمل کبھی منتقل نہیں ہوتا۔جو شخص اپنی خطاؤں کو معلوم کر کے ان کا اعتراف کرتا ہے وہ کمال کی جانب بہ سرعت ہوتا ہے۔
میرے خیال میں ''شمع بننے کے دعوے'' سے پتنگا بن جانا زیادہ بہتر ہے مگر اپنے آپ کو بہتر سمجھ لینا جہالت ہے بلکہ ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھنا چاہیے اورپھرویسے بھی جہل کے ہاتھ اگر تلوار لگ جائے تو چہار جانب فساد پھیلتا ہے مگر علم کے ہاتھوں اسی تلوارسے فکرو شعور و نظر کا جہاد پھلتا ہے ۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ہر ایک چیز کا انجام زوال ہے اور اس کا ہمیشہ کسی کے پاس رہنا محال ہے بلکہ کسی کی کیا مجال ہے۔
موت ہر ایک کے سر پہ قائم ہے اور اس کا ذائقہ چکھنا سب پر لازم ہے ۔اتنا جان لیجیے کہ دنیا میں ہر شے فانی ہے۔ ہم جس سے پیار کرتے ہیں اور جس کے ساتھ رہتے ہیںوہ بھی فانی ہے، جس کی خواہش کرتے ہیں اوراپنی اور اپنے گھر کی آرائش کرتے ہیں وہ بھی فانی ہے یہاں تک کہ ہماری آنکھ ہمیں جو منظر دکھاتی ہے وہ فانی ہے اور شعور جسے محسوس کراتا ہے وہ احساس فانی ہے۔ نعمتوں میں غرق اور زندگی کی شادابیوں میں مزے اڑانے والے بھول جاتے ہیں کہ پہاڑ بھی ایک دن روئی کے گالوں کی طرح اُڑیں گے پھر فانی کی خاطر ہم کیوں فنا ہونے کے لیے تیار ہیں؟
کیسے فراموش کردیتے ہیں کہ زندگی کے دن بس صرف چار ہیں جن میں سے دواسی سوچ میں گذرجاتے ہیں کہ بقیہ دو کیسے گذاریں گے ۔آئیے کہ ''لافانی'' سے پیار کرنا سیکھیںکہ گر ہم ایسا کرگذرے تو ہر منزل سے با آسانی گذر جائیں گے ۔اس دنیا کے تمام تر لوازمات عارضی ہیںاور مومن کی شان نہیں کہ وہ اسی پر اکتفا کر کے بیٹھا رہے ۔خدا کی نعمتیں بے انتہا ہیں اور اس کا شکر ادا کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔اگرہم چاہتے ہیں کہ آسمانوں میں پہچانیں جائیں تو ریا کو اپنے اندر داخل نہ ہونے دیجیے۔
جب کوئی فیصلہ کیجیے،خلعت پہنائیے یاکسی کے سر سے ''تاجِ اختیار''اُتاریے تو یاد رکھیے کہ اللہ دیکھتا ہے۔جب بات کیجیے تو یاد رکھیے کہ اللہ سنتا ہے۔اور جب خاموش رہیے تو یاد رکھیے کہ وہ جانتا ہے کہ آپ کیوں چپ ہیں؟۔اور اسی یقین کے ساتھ ہم ایک دن منزل پالیں گے۔بس مایوس،دل گرفتہ اور افسردہ نہ ہوں اور ثابت قدمی سے میدان عمل میں کود جائیے۔میرے خیال میںہر انسان کے لیے بس یہی ''ریفرنس'' شافی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کے لیے کافی ہے باقی ہر ریفرنس اضافی اور دنیاوی ہے۔
ہم تومحبت کی کیاریوں میں اُگنے والے وہ تروتازہ عشاق ہیں جن کی خوشبو سے چمن نکہت افروز ہے،سو آنے والا وقت ہمارا ہے اور اس کے لیے ہمارا یقین ہی واحد سہارا ہے ۔کیونکہ ''آہستہ آہستہ لیکن مسلسل چلنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔''