عوام کا اعتماد
پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اپوزیشن اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی مراعات حاصل کرتی ہے۔
پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اپوزیشن اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی مراعات حاصل کرتی ہے۔ قانون اور انصاف اب بھی انھیں ایسی رعایتیں دیتا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ اپوزیشن ہے۔
کرپشن کے الزامات کی زد میں گھری اپوزیشن جماعتیں حکومت پر خوب برس رہی ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لوٹ مار کلچر نے عوام کو تمام سیاستدانوں سے اس قدر بدظن کردیا ہے کہ اب یہ ایلیٹ کلاس عوام کا سامنا کرنے سے بھی خائف ہے اور اپنا اور اپنی جماعت کا نام زندہ رکھنے کے لیے اخباری بیانات اور ٹی وی انٹرویوز کا سہارا لے رہے ہیں۔ لیکن عوام کی ایک بھاری تعداد آج بھی ان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عوام ان کی کسی کال پر دھیان دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ایک ایسی مایوس کن صورتحال ہے کہ سیاسی جماعتوں کا مستقبل تباہ ہوگیا ہے۔
دنیا کے جمہوری ملکوں میں حکومت کو اپنی حدود کے اندر رکھنے اور جمہوری راستے پر چلانے کے لیے اپوزیشن کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے۔ پاکستان بھی ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں بھی اپوزیشن حکومت کے ساتھ حکومت کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے موجود ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت میں چونکہ کرپشن اور لوٹ مار کا کلچر بہت مضبوط ہوتا ہے کیا حکمران ،کیا اپوزیشن ہر دو طاقتوں کا اصل کام کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ مال بنانا ہوتا ہے۔ ہماری موجودہ اپوزیشن نے اپنے دور اقتدار میں ایسا ہی کیااور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سیاستدانوں کو پاکستان میں یہ آزادی اس لیے حاصل ہے کہ پاکستان کے عوام جمہوریت کا مطلب پانچ سالوں میں ایک بار پولنگ اسٹیشن پر جاکر ووٹ ڈالنا سمجھتے ہیں اس طرز فکر کے ساتھ ہمارے عوام 72 سال سے جمہوریت کا کریا کرم کرتے آ رہے ہیں۔
پاکستان کی یا پاکستانی عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست کی ابتدا جاگیرداروں کے اقتدار سے ہوئی اور جاگیردار اور وڈیروں کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کو اپنے اختیارات میں دخل اندازی نہیں کرنے دیتے۔ چنانچہ پاکستان میں بھی یہی ہوا، جاگیردار طبقے نے اقتدارپربلاشرکت غیرے قبضہ جمالیا اور جمہوریت منہ دیکھتی رہ گئی، جاگیرداروں کے اقتدار کے دوران جاگیرداروں نے عوام کو کمی یا کم ذات بنا کر رکھ دیا اور اب تک یہی صورتحال ہے۔
جب تک جاگیردار طبقہ برسر اقتدار رہا ملک میں زرعی اصلاحات نہیں ہونے دی گئیں۔ ایوب خان نے جب زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تو اس کے مشیروں نے اسے یہ مشورہ دیا کہ اگر کوئی آپ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تو وہ ہے جاگیردار طبقہ۔ جب تک اس کا زور نہیں توڑا جائے گا یہ طبقہ آپ کے اقتدار کے لیے خطرہ بنا رہے گا۔
سو ایوب خان نے زرعی اصلاحات کرکے اس طبقے کی کمر توڑ دی جن جاگیرداروں نے ایوب خان کے اقتدار کو تسلیم کرکے اس کے سامنے اپنا سر نگوں کرلیا، ایوب خان نے ان کی زمینیں بڑی حد تک واپس کردیں اور ایوب خان کو خوش کرنے کے لیے مسلم لیگ کے دو ٹکڑے کرکے ایک کا نام کنونشن لیگ رکھ دیا گیا اور کنونشن لیگ کو ایوب خان کے قدموں میں ڈال دیا۔
یوں ایوب خان نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرلیا اور ایک فوجی ڈکٹیٹر کی حیثیت سے حکومت چلاتا رہا۔ اس دوران ایوب خان نے اپنے اقتدار کو جمہوری بنانے کے لیے ملک میں الیکشن کرا دیے۔ ایوب خان کے مدمقابل محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا،فاطمہ جناح عوام میں بہت مقبول تھیں لیکن دھاندلی سے الیکشن جیت کر ایوب خان ملک کا ''جمہوری صدر'' بن گیا۔ یوں 10 سال تک ملک میں ایوب خان کی حکومت رہی اور جاگیردار طبقہ دوبارہ طاقتور ہوگیا۔
کہا جاتا ہے کہ صنعتکار جاگیردار کا دشمن ہوتا ہے لیکن ایوب خان نے جاگیرداروں اور صنعتکاروں کو ایک گھاٹ پر پانی پلایا اور طبقاتی اختلافات کو دبا دیا گیا۔ عوام دس سال تک ایوب حکومت کو برداشت کرتے رہے اور 1968 میں عوام کا وہ لاوا جسے طاقت اور مکاری سے پھٹنے سے روکا جاتا رہا اچانک پھٹ پڑا اور ایوب خان کی حکومت کا تختہ ہو گیا۔
ماضی خاص طور پر ڈکٹیٹر ایوب خان کا مختصر ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ ملکی دولت کی لوٹ مار کا جائزہ لیں، آمریت کے علاوہ ہماری جمہوری حکومتیں بھی برسوں چلتی رہیں۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کسی نہ کسی حوالے سے اتحادی رہے اور آج بھی ہیں۔ ان کے ادوار میں کرپشن کے الزامات عائد ہوتے رہے لیکن ایوب خان فوجی ڈکٹیٹر تھا، یحییٰ خان اور ضیا الحق بھی فوجی ڈکٹیٹر تھے لیکن ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے۔
کرپشن کے الزامات کی زد میں گھری اپوزیشن جماعتیں حکومت پر خوب برس رہی ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لوٹ مار کلچر نے عوام کو تمام سیاستدانوں سے اس قدر بدظن کردیا ہے کہ اب یہ ایلیٹ کلاس عوام کا سامنا کرنے سے بھی خائف ہے اور اپنا اور اپنی جماعت کا نام زندہ رکھنے کے لیے اخباری بیانات اور ٹی وی انٹرویوز کا سہارا لے رہے ہیں۔ لیکن عوام کی ایک بھاری تعداد آج بھی ان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عوام ان کی کسی کال پر دھیان دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ایک ایسی مایوس کن صورتحال ہے کہ سیاسی جماعتوں کا مستقبل تباہ ہوگیا ہے۔
دنیا کے جمہوری ملکوں میں حکومت کو اپنی حدود کے اندر رکھنے اور جمہوری راستے پر چلانے کے لیے اپوزیشن کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے۔ پاکستان بھی ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں بھی اپوزیشن حکومت کے ساتھ حکومت کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے موجود ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت میں چونکہ کرپشن اور لوٹ مار کا کلچر بہت مضبوط ہوتا ہے کیا حکمران ،کیا اپوزیشن ہر دو طاقتوں کا اصل کام کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ مال بنانا ہوتا ہے۔ ہماری موجودہ اپوزیشن نے اپنے دور اقتدار میں ایسا ہی کیااور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سیاستدانوں کو پاکستان میں یہ آزادی اس لیے حاصل ہے کہ پاکستان کے عوام جمہوریت کا مطلب پانچ سالوں میں ایک بار پولنگ اسٹیشن پر جاکر ووٹ ڈالنا سمجھتے ہیں اس طرز فکر کے ساتھ ہمارے عوام 72 سال سے جمہوریت کا کریا کرم کرتے آ رہے ہیں۔
پاکستان کی یا پاکستانی عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست کی ابتدا جاگیرداروں کے اقتدار سے ہوئی اور جاگیردار اور وڈیروں کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کو اپنے اختیارات میں دخل اندازی نہیں کرنے دیتے۔ چنانچہ پاکستان میں بھی یہی ہوا، جاگیردار طبقے نے اقتدارپربلاشرکت غیرے قبضہ جمالیا اور جمہوریت منہ دیکھتی رہ گئی، جاگیرداروں کے اقتدار کے دوران جاگیرداروں نے عوام کو کمی یا کم ذات بنا کر رکھ دیا اور اب تک یہی صورتحال ہے۔
جب تک جاگیردار طبقہ برسر اقتدار رہا ملک میں زرعی اصلاحات نہیں ہونے دی گئیں۔ ایوب خان نے جب زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تو اس کے مشیروں نے اسے یہ مشورہ دیا کہ اگر کوئی آپ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تو وہ ہے جاگیردار طبقہ۔ جب تک اس کا زور نہیں توڑا جائے گا یہ طبقہ آپ کے اقتدار کے لیے خطرہ بنا رہے گا۔
سو ایوب خان نے زرعی اصلاحات کرکے اس طبقے کی کمر توڑ دی جن جاگیرداروں نے ایوب خان کے اقتدار کو تسلیم کرکے اس کے سامنے اپنا سر نگوں کرلیا، ایوب خان نے ان کی زمینیں بڑی حد تک واپس کردیں اور ایوب خان کو خوش کرنے کے لیے مسلم لیگ کے دو ٹکڑے کرکے ایک کا نام کنونشن لیگ رکھ دیا گیا اور کنونشن لیگ کو ایوب خان کے قدموں میں ڈال دیا۔
یوں ایوب خان نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرلیا اور ایک فوجی ڈکٹیٹر کی حیثیت سے حکومت چلاتا رہا۔ اس دوران ایوب خان نے اپنے اقتدار کو جمہوری بنانے کے لیے ملک میں الیکشن کرا دیے۔ ایوب خان کے مدمقابل محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا،فاطمہ جناح عوام میں بہت مقبول تھیں لیکن دھاندلی سے الیکشن جیت کر ایوب خان ملک کا ''جمہوری صدر'' بن گیا۔ یوں 10 سال تک ملک میں ایوب خان کی حکومت رہی اور جاگیردار طبقہ دوبارہ طاقتور ہوگیا۔
کہا جاتا ہے کہ صنعتکار جاگیردار کا دشمن ہوتا ہے لیکن ایوب خان نے جاگیرداروں اور صنعتکاروں کو ایک گھاٹ پر پانی پلایا اور طبقاتی اختلافات کو دبا دیا گیا۔ عوام دس سال تک ایوب حکومت کو برداشت کرتے رہے اور 1968 میں عوام کا وہ لاوا جسے طاقت اور مکاری سے پھٹنے سے روکا جاتا رہا اچانک پھٹ پڑا اور ایوب خان کی حکومت کا تختہ ہو گیا۔
ماضی خاص طور پر ڈکٹیٹر ایوب خان کا مختصر ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ ملکی دولت کی لوٹ مار کا جائزہ لیں، آمریت کے علاوہ ہماری جمہوری حکومتیں بھی برسوں چلتی رہیں۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کسی نہ کسی حوالے سے اتحادی رہے اور آج بھی ہیں۔ ان کے ادوار میں کرپشن کے الزامات عائد ہوتے رہے لیکن ایوب خان فوجی ڈکٹیٹر تھا، یحییٰ خان اور ضیا الحق بھی فوجی ڈکٹیٹر تھے لیکن ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے۔