’کوویڈ 19‘ ایک امید ہے جو باقی ہے۔۔۔

قوت مدافعت ہمارے لیے قدرت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے۔

فوٹو : فائل

قوت مدافعت ہمارے لیے قدرت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے۔ غریب ہو یا امیر، کالا ہو یا گورا۔ کرب ناک الجھن سے پوری دنیا نبرد آزما ہے۔ مختلف قسم کی پریشانیاں، تکالیف اور اذیتیں جھیل رہی ہے۔ پیاروں کی اموات اور ناقابل تلافی نقصانات سے برسرپیکار افراد، قوم اور ممالک اپنی استعداد کے مطابق استثنیٰ اور دائمی تحفظ کا 'مہنگا سبق' حاصل کر رہے ہیں۔

کیا ہمیں نہیں معلوم اور کیوں نہیں معلوم، دراصل ہماری قومی بقا کے بنیادی سوالات ہیں۔ کیا ہمیں معلوم ہے اور کیسے ہمیں معلوم ہے، انسانی بقا کے لیے ان سوالات کے جوابات سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر دسترس رکھنا لازمی ہے، جب کہ راہ نمائی کے لیے مشاہدات کا حقیقی اور مکمل ہونا ناگزیر ہے۔

جغرافیہ، نسل، عمر اور بیماریوں سے گویا 'تعصب' برتتا ہوا یہ وائرس 'کوویڈ 19' اپنے جارحانہ رویے اور سرد انداز میں خدوخال واضح کر رہا ہے۔ جس کا نقشہ کھینچنا اب کوئی بہت مشکل موضوع نہیں ہے۔ مشرق میں نظر دوڑائیے تو جاپان میں لاک ڈاؤن کے بغیر اس کی شدت بہت کم رہی۔۔۔ امریکا میں ایشیائی یا افریقی باشندوں کے لیے یہ زیادہ تباہ کن ثابت ہوا، لیکن ان کے آبائی وطنوں میں اس کی شدت امریکا سے کافی کم پائی گئی۔۔۔ ایشیائی یا افریقی جغرافیے میں اس مرض نے اعلیٰ ترین اداروں کی پیش گوئیاں یک سر غلط ثابت کر دیں۔ گاؤں اور شہروں کے اعداد و شمار میں زمین آسمان کا فرق سوالیہ نشان ہے۔ بچوں اور بزرگوں میں اس کے نقصانات ناقابل موازنہ رہے۔۔۔ امراض قلب کے مریضوں پر یہ وائرس بہت مہلک ثابت ہوا ہے۔ شوگر کے مریضوں کو عام انسانوں سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ 'ایڈز' کی وائرس کش دوا کھانے والوں کو اس وبا نے کوئی رعایت نہیں دی، بلکہ عملی طور پر زیادہ نقصان پہنچایا۔


لوگوں میں خوف وہراس پھیلا، سنسنی عروج پر پہنچ گئی، اوسان خطا ہوئے، گھبراہٹ اور زندگی اپنے نقطہ جوش کے قریب پہنچی۔ اضطراب اور بے چینی اپنی معراج کو چھو گیا اور افواہوں کے شکار معصوم شہریوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ لوگ اپنوں ہی کی میتوں سے ڈرنے لگے۔۔۔ گھروں میں قید سہمے رفقا اپنے اپنے کونوں اور کمروں میں سمٹ کے رہ گئے۔ اس موضوع پر مجموعی قومی تعلیم کا بیش تر حصہ نہ قابل بھروسا تجزیوں کے گرد ہی گھومتا رہا۔ کچھ سائنس کے ٹھیکے داروں، صحت عامہ کے دکان داروں اور شہرت کے پیروکاروں نے پوری قوم کو بے بنیاد تبصروں اور اپنے بے پرواہ بحث و مباحثوں میں جکڑے رکھا۔

''چہرے پر ماسک لگانے کی ضرورت نہیں، چہرے پر ماسک لگانے کی ضرورت ہے۔'' اور ''انسان سے انسان میں وائرس کے پھیلنے کے شواہد نہیں ہیں، انسان سے انسان میں یہ وائرس پھیلتا ہے۔''سے لے کر کرفیو لگائیے اور لاک ڈاون کیجیے کے نعرے وہ لگاتے رہے جو مسیحا تھے۔ یہ اپنی صلاحیت پر عدم اطمینان تھا یا شہرت کے لیے اظہار خوف۔ واللہ اعلم۔ جس نے جو کہا جو سنا اس کے پیچھے بھاگنے والوں میں اعلیٰ ترین قومی سائنس دان بھی تھے اور پودوں کو پانی دینے والے مالی بھی، کوئی فرق نہ تھا۔ ہر طرف اعتماد اور بھروسے کی شکست تھی۔ پیشہ ورانہ سچائی و دیانت داری کی قلت تھی اور سماج دم بخود تھا۔۔۔

خوش قسمتی سے ہم ہمت نہ ہارنے والی دنیا کے باسی ہیں۔ اگرچہ وائرس کے پھیلاؤ اس کے زہر سے مکمل آگاہی نہیں۔ یہ انسانی جسم کا مکین وائرس بغیر علامات والے انسانوں سے پھیل سکتا ہے یا نہیں، اعداد و شمار کے لیے مشاہدات اور سراغ رسانی جاری ہے۔ تشخیص، علاج اور تحفظ کے لیے علیحدہ علیحدہ کاوشیں جاری ہیں۔ ویکسین کی تیاری میں دوڑ دھوپ کی مربوط عالمی سرگرمی کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

عزیزو! 'کوویڈ 19' بہت سارے پیغامات کے ساتھ رخصت ہونے کو ہے۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کسی آفت کو جانچنے کے قابل بھی نہیں۔ ہمارے اعدادو شمار سالمیت کی خاصیت سے باہر ہیں۔ ہمارے اِبلاغ عامہ موضوع کے ماہروں سے محروم ہیں۔ ہماری تجربہ گاہیں بانجھ ہیں۔ دوسری طرف ایک ہمارا فخر یا غرور ہے جو کم ہی نہیں ہوتا۔ تاریخ کے اس باب میں ہماری کوئی جگہ نہیں۔ آج کے امیدوں کا انہدام تکلیف دہ سہی مگر ان شااللہ کل کے خوابوں اور ان کی تعمیر کی ضمانت ہے۔
Load Next Story