کورونا اور چکھنے اور سونگھنے کی حس میں کمی

اس وائرس کے ہمارے اعصاب اور دماغ پر اثرانداز ہونے کے شواہد سامنے آرہے ہیں

فوٹو : فائل

ABU DHABI:
کورونا ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ طبی ماہرین کو چکرا رہا ہے، ویسے کہا تو یہ جاتا ہے کہ یہ بیماری پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے مگر یہ جسم کے کسی بھی حصے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ کبھی تو ایسا نظر آتا ہے کہ مریض ٹھیک سے بات کر رہا ہے، چل پھر رہا ہے، کھا پی بھی رہا ہے، مگر اس کے خون میں آکسیجن کی سطح اتنی کم ہو چکی ہوتی ہے کہ اگر عام فرد کو اس کا سامنا ہو تو اس کے لیے چلنا، بولنا، یا کھانا کچھ بھی ممکن نہ ہو، بلکہ وہ کومے میں چلا جائے یا جان سے گزر جائے۔ یعنی اتنی کمی جو موت کے قریب پہنچا دے۔

اس کا بظاہر کورونا کے مریضوں پر اثر نہیں ہوتا، مگر کچھ دن کے بعد یہ مسئلہ ضرور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ ایسے مریض اکثر وینٹی لیٹر پر جاتے ہیں۔ یہ وائرس دل پر حملہ کر کے، پٹھوں کو کمزور کر کے دھڑکنوںکو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ گردوں کو اس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے 'ڈائیلاسز کی ضرورت بڑھ سکتی ہے، تبھی امریکا کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹر کے ساتھ ساتھ ڈائیلاسز مشینوں کی بھی شدید کمی ہو گئی تھی۔ یہ اعصابی نظام میں پہنچ کر سونگھنے اور چکھنے کی حِس کو تباہ کرتا ہے۔ ابتدائی تحقیقی رپورٹوں سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ کورونا وائرس جِلد پر اثرات مرتب کرتا ہے۔

اس کا سب سے جان لیوا پہلو جسم کے متعدد مقامات میں خون کے لوتھڑے یا کلاٹس بنانا، اور شریانوں کو سوجن کا شکار کر دینا ہے۔ اب مزید معلومات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس دماغی صحت پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ امریکا کی یونیورسٹی اور اٹلی کے چار اداروں کے سائنس دانوں نے کورونا کے مریضوں کے دماغوں کا تجزیہ کیا کہ مرکزی اعصابی نظام پر وائرس کے اثرات پر روشنی ڈالی جا سکے۔ جریدے جرنل ریڈیولوجی میں شایع تحقیق میں بتایا گیا کہا اس وائرس کے نتیجے میں دماغی صحت پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور فالج کورونا کے مریضوں میں سب سے عام دماغی علامت ہے۔

محققین نے بتایا کہ تحقیقی رپورٹوں میں کورونا کے مریضوں کے سینے پر مرتب اثرات کی وضاحت زیادہ کی جا رہی ہے، مگر بہت کم رپورٹوں میں اس وائرس کے دماغی اثرات کے بارے میں بتایا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اب تک سب سے بڑی اور پہلی تحقیق ہے جس میں دما غی علامات کی شناخت سے ساتھ کورونا کے نیورو امیجنگ فیچرز (Neuroimaging Features) کے بارے میں بتایا گیا ہے۔




اس تحقیق میں اٹلی کے تین بڑے اسپتالوں کے مریضوں میں دماغی علامات اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا۔ جس میں بریسیا یونیورسٹی (Brescia University)، ایسٹرن پائیڈمونٹ یونیورسٹی (Eastern Piedmont University) اور ساسساری یونیورسٹی ( sas'sary university) کے طبی مراکز شامل تھے۔

تحقیق میں اسپتال میں زیرِ علاج 725مریضوں کا ڈیٹا لیا گیا۔ جن میں 105 مریضوں میں سنگین دماغی علامات نظر آئیں اور دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کی امیجنگ ہوئی۔ 99 فی صد مریضوں کے 'سی ٹی اسکین' ہوئے، جب کہ 16فی صد کے سر اور گلے کے سی ٹی اسکین ہوئے اور 18 فی صد کے برین 'ایم آرآئی' ہوئے۔ محققین نے دریافت کیا کہ 59 فی صد مریضوں کی دماغی صحت میں تبدیلیاں آئیں، جب کہ 31 فی صد کو فالج کا سامنا ہوا۔ جسے سب سے عام دماغی علامت قرارد یا گیا۔ اس کے علاوہ 12 فی صد مریضوں کو سر میں درد، 9 فی صد کو سیزر (seizure) اور 4 فی صد مریضوں کو سر چکرانے جیسی علامات کا سامنا ہوا۔ 108 مریضوں کی کسی قسم کی طبی تاریخ نہیں تھی اور ان کی عمریں 16 سے 62 سال کے درمیان تھیں۔ 10 کو فالج اور دو کو دماغ میں خون کے مسائل کا سامنا ہوا۔ معمر مریضوں کی دماغی صحت متاثر ہونے کی شرح زیادہ تھی۔ اس سے قبل اپریل میں چین میں ہونے والی تحقیق میں پتا چلا تھا کہ کورونا میں فالج اور دماغی مسائل زیادہ عام ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے دوران 214 سنگین کیسدیکھے گئے، جن کا علاج وبا کے آغاز میں چین کے شہر ووہان میں ہواتھا اور ڈاکٹروں نے 36 فی صد سے زائد یا ہر تین میں سے ایک مریض میں دماغی علامات کو دریافت کیا۔ ووہان کے یونین ہاسپٹل کی اس تحقیق میں شامل ڈاکٹر بو ہو کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسوں میں طبی ماہرین کو دماغی علامات کو کورونا وائرس کی ممکنہ نشانیاں سمجھنا چاہیے، تا کہ تشخیص میں تاخیر نہ ہو سکے یا غلط تشخیص نہ ہو سکے۔

ان دماغی یا مرکزی اعصابی نظام کے متاثر ہونے کی علامات پر توجہ دینے سے تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ یہ مسائل اُس وقت زیادہ عام ہوتے ہیں جب بیماری کی شدت بڑھتی ہے۔ کچھ کیسز میں دماغی علامت کی وجہ سے موت واقعہ ہوئی اور چھے کیسوں میں فالج اور برین ہیمبرج دیکھا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر دماغی مسائل بھی کردار ادا کرتے رہے۔ اسپتال آنے والوں میں ذہنی الجھن، سر چکرانے یا سر درد کی شکایتیںبھی دیکھی گئی ہیں، اس لیے دوسری احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ ذہنی الجھنوں سے بھی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ۔
Load Next Story