کمیں گاہ تیر اور اپنے دوست
فواد چوہدری ڈیلیوری نہ ہونے کا سارا قصور ٹیم سلیکٹ کرنے والے وزیرِاعظم عمران خان کا قرار دے رہے ہیں
تحریکِ انصاف کی حکومت میں یوں تو روزانہ ہی طرح طرح کے شاہکار دیکھنے کو ملتے ہیں، مگر شاید ہی کبھی چشمِ فلک نے یہ نظارہ دیکھا ہو کہ کسی حکومت کا اپنا وزیر کھلے عام یہ کہتا پھرے کہ مقتدر حلقے تو ہماری حکومت کے ساتھ صرف اس لیے ہیں کہ اس وقت اور کوئی سیاسی آپشن نہیں ہے۔ اگر کوئی اور سیاسی آپشن ہوتا تو ہمیں کب کا کھڈے لائن لگایا جاچکا ہوتا۔
چشمِ فلک کی حیرت ابھی ختم نہ ہوئی ہوگی کہ وزیرِ موصوف نے یہ بھی فرما دیا کہ ہمارا لیڈر اتنا اہل ضرور ہے کہ مغربی دنیا اور اسلامی دنیا کو ایک پیج پر لا سکے، مگر اس میں اتنی اہلیت اور سکت نہیں کہ اپنی پارٹی کے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور اسد عمر کی لڑائی سلجھا سکے۔
اس دن گھر کے بھیدی وزیر نے گویا لنکا ڈھانے کی سوچ رکھی تھی تو لگے ہاتھوں یہ بھی فرما دیا کہ ہماری حکومت کمزور لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی ان لوگوں کو اہم ترین عہدوں پر لگایا گیا ہے کہ جو ڈکٹیشن لے سکیں مگر سیاسی و انتظامی حالات کسی صورت قابو میں نہیں آرہے۔ یعنی وفاقی وزیر نے دبے الفاظ میں اپنی ہی پارٹی کے سربراہ پر تنقیدی نشتر آزمائے اور کہا کہ ٹیم کے ناکارہ ہونے کا گلہ کیا جاتا ہے، مگر ٹیم تو ڈکٹیشن لینے والی رکھی ہوئی ہے۔ یعنی ڈیلیوری نہ ہونے کا سارا قصور ٹیم سلیکٹ کرنے والے وزیرِاعظم عمران خان کا ہے۔
سچ پوچھیے تو مجھے یہ بیان فواد چوہدری کا نہیں لگا، مجھے یہ جملے ان سے زیادہ کسی وزارتِ اطلاعات سے دھتکارے ہوئے شخص کے لگے یا پھر کسی ایسی شخصیت کے جس کو ملک میں ایک عید کروانے پر وزیرِاعظم سے امید کے مطابق داد نہ ملی ہو۔ یہ جملے کسی ایسی شخصیت کے لگے جس کا پی پی 17 سے وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے کا خواب چکنا چور ہوا ہو۔ یہ کسی ایسے شخص کا بیان لگا جس کو وزیرِاعظم کے آس پاس بیٹھنے کو حالیہ دنوں میں کرسی نہ مل رہی ہو یا پھر جس کو اس بات کا بھی زخم لگا ہو کہ وزیرِاعظم نے وقتِ ضرورت بھلا یہ کیوں کہا کہ عید تو وہ مفتی منیب والی ہی منائیں گے۔ وہ تو بھلا ہو رویت ہلال کمیٹی کا کہ اس نے عید فواد چوہدری والی کردی، نہیں تو فواد چوہدری کے ساتھ اس دن 'مفتی منیب' والی ہوجاتی۔
بہرحال فواد چوہدری نے جو کہا، نہ تو وہ مکمل سچ ہے اور نہ ہی مکمل طور پر غلط بیانی۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جسے کسی ایک زاویے سے پرکھا نہیں جاسکتا۔ جہاں اس بیان کو سمجھنے کےلیے حالیہ سیاست کے خم و پیچ کا علم ہونا ضروری ہے، وہیں بیان دینے والے کی دکھتی رگ کا ادراک ہونا بھی اہم ہے۔
تحریکِ انصاف کی حکومت میں جہاں اور بہت ساری کمی اور کوتاہیاں ہیں، وہیں ایک بہت بڑا خلا اس بات کا بھی ہے کہ کپتان اپنے کھلاڑیوں کی زبانوں کو من مرضی کے بیانات دینے سے نہ روک پایا۔ یہاں عمران خان تو ایک ہے لیکن اپنی ذات اور تخیلاتی دنیا میں وزیرِاعظم اور بہت سارے۔ یہ واحد پارٹی ہے کہ جہاں جس کا جب، جو جی میں آئے کہہ ڈالتا ہے، یعنی چوک چوبارہ نہیں دیکھتا بس گھر کے گندے کپڑے دھونے نکل پڑتا ہے۔ ابھی عظمیٰ کاردار کا دیا ہوا گھاؤ بھرا نہیں تھا کہ فواد چوہدری کو سچ بولنے کا نیا شوق ہوگیا۔ یہیں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ عظمیٰ کاردار نے خاتون اول پر الزامات لگائے، کپتان کی نجی زندگی کے اوپر لغو جملے بازی کی، تحریکِ انصاف کی اندرونی سیاسی لڑائیوں کو میڈیا کے سامنے لانے کی مرتکب ہوئیں، مگر آج کے دن تک جیسے پی آئی اے کے جہاز کا ملبہ کراچی کی گلیوں سے نہیں اٹھایا جاسکا، یونہی عظمیٰ کاردار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔
حیرت تو یہ ہے کہ تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے کا گلہ کرنے والے فواد چوہدری خود مانتے ہیں کہ عوام نے عمران خان کو مینڈیٹ کوئی نٹ بولٹ ٹھیک کرنے نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کو ٹھیک کرنے کےلیے دیا تھا جس کے بگاڑ کی نوعیت کو سمجھنے میں ہی منتخب حکومت کو کئی مہینے لگ گئے۔ وہ خود مانتے ہیں کہ پولیس اسٹرکچر کا بیڑا غرق تھا، عدالتی نظام میں اصلاحات درکار تھیں، ملک کے ٹیکس کا نظام تباہ حال تھا، تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کرنی تھیں، نیز ایسا کوئی بھی ادارہ نہیں تھا کہ جو منافع دے رہا ہو، یعنی ملکی معیشت کا شیرازہ بکھرا پڑا تھا۔ جو شخص یہ مانتا ہو، اس کی طرف سے یہ گلہ آنا کہ خان صاحب کوئی پانسہ نہ پلٹ سکے، دودھ شہد کی نہریں نہ بہا سکے، سمجھ سے باہر ہے۔ یہ باتیں تو تبدیلی کے نظریے کے دشمن کرتے ہیں۔ یہ تو ان کی جانب سے سننے کو ملتی ہیں کہ جنہوں نے آج تک عمران خان کو وزیرِاعظم مانا ہی نہیں، یا محض تنقید برائے تنقید کرنی ہے۔ مگراپنے ہی وزیرِ محترم کی جانب سے ایسی جملے بازی ہر طرح کے شک کو دعوت دیتی ہے۔
فواد چوہدری یاد رکھیں کہ ان کو اس مقام تک پہنچانا صرف تحریکِ انصاف کے ان سپورٹرز کے ہی بس کی بات تھی جنہوں نے خان صاحب کی قیادت میں ارض پاکستان پر ایک بہتر، ایک روشن سویرے کا خواب دیکھا۔ اس وقت پر جب ہر پرانے پاکستان کا حامی نئے پاکستان کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ جب چینی اور پٹرول مافیا کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے، جب انڈیپنڈنٹ بجلی گھروں کا بدمعاشیہ ایک سر کٹے اژدہا کی صورت اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے، جب تباہ حال معیشت بالآخر رینگتے رینگتے آگے بڑھنا شروع ہوئی تھی تو کووڈ-19 ہمارے تین ہزار ارب ہڑپ چکا، جب دہشت گردی کے ناسور نے دوبارہ سے جسم میں زہر بھرنا شروع کردیا، جب خطے میں نئی صف بندی کا آغاز ہے اور دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ تو ایسے وقت میں یہاں ''رجیم چینج'' کا راگ الاپنے والے کو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
خان صاحب سے یہ التماس ہے کہ آئے روز کی اس بیان بازی کو ایک ہی بار سخت ایکشن لے کر پس دیوار چنوا دیں۔ آج کے بیان در بیان پر خاموشی در خاموشی، کل کے کسی بڑے طوفان کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ آخر جس کے شر سے بچنے کی تلقین کی گئی، وہ وہی تو ہیں جن پر ہمارا احسان ہو۔ یا جنہیں ہمارے کمزور پوائنٹ کا ادراک ہو، ہمارے دوست ہی تو ہوتے ہیں۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چشمِ فلک کی حیرت ابھی ختم نہ ہوئی ہوگی کہ وزیرِ موصوف نے یہ بھی فرما دیا کہ ہمارا لیڈر اتنا اہل ضرور ہے کہ مغربی دنیا اور اسلامی دنیا کو ایک پیج پر لا سکے، مگر اس میں اتنی اہلیت اور سکت نہیں کہ اپنی پارٹی کے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور اسد عمر کی لڑائی سلجھا سکے۔
اس دن گھر کے بھیدی وزیر نے گویا لنکا ڈھانے کی سوچ رکھی تھی تو لگے ہاتھوں یہ بھی فرما دیا کہ ہماری حکومت کمزور لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی ان لوگوں کو اہم ترین عہدوں پر لگایا گیا ہے کہ جو ڈکٹیشن لے سکیں مگر سیاسی و انتظامی حالات کسی صورت قابو میں نہیں آرہے۔ یعنی وفاقی وزیر نے دبے الفاظ میں اپنی ہی پارٹی کے سربراہ پر تنقیدی نشتر آزمائے اور کہا کہ ٹیم کے ناکارہ ہونے کا گلہ کیا جاتا ہے، مگر ٹیم تو ڈکٹیشن لینے والی رکھی ہوئی ہے۔ یعنی ڈیلیوری نہ ہونے کا سارا قصور ٹیم سلیکٹ کرنے والے وزیرِاعظم عمران خان کا ہے۔
سچ پوچھیے تو مجھے یہ بیان فواد چوہدری کا نہیں لگا، مجھے یہ جملے ان سے زیادہ کسی وزارتِ اطلاعات سے دھتکارے ہوئے شخص کے لگے یا پھر کسی ایسی شخصیت کے جس کو ملک میں ایک عید کروانے پر وزیرِاعظم سے امید کے مطابق داد نہ ملی ہو۔ یہ جملے کسی ایسی شخصیت کے لگے جس کا پی پی 17 سے وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے کا خواب چکنا چور ہوا ہو۔ یہ کسی ایسے شخص کا بیان لگا جس کو وزیرِاعظم کے آس پاس بیٹھنے کو حالیہ دنوں میں کرسی نہ مل رہی ہو یا پھر جس کو اس بات کا بھی زخم لگا ہو کہ وزیرِاعظم نے وقتِ ضرورت بھلا یہ کیوں کہا کہ عید تو وہ مفتی منیب والی ہی منائیں گے۔ وہ تو بھلا ہو رویت ہلال کمیٹی کا کہ اس نے عید فواد چوہدری والی کردی، نہیں تو فواد چوہدری کے ساتھ اس دن 'مفتی منیب' والی ہوجاتی۔
بہرحال فواد چوہدری نے جو کہا، نہ تو وہ مکمل سچ ہے اور نہ ہی مکمل طور پر غلط بیانی۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جسے کسی ایک زاویے سے پرکھا نہیں جاسکتا۔ جہاں اس بیان کو سمجھنے کےلیے حالیہ سیاست کے خم و پیچ کا علم ہونا ضروری ہے، وہیں بیان دینے والے کی دکھتی رگ کا ادراک ہونا بھی اہم ہے۔
تحریکِ انصاف کی حکومت میں جہاں اور بہت ساری کمی اور کوتاہیاں ہیں، وہیں ایک بہت بڑا خلا اس بات کا بھی ہے کہ کپتان اپنے کھلاڑیوں کی زبانوں کو من مرضی کے بیانات دینے سے نہ روک پایا۔ یہاں عمران خان تو ایک ہے لیکن اپنی ذات اور تخیلاتی دنیا میں وزیرِاعظم اور بہت سارے۔ یہ واحد پارٹی ہے کہ جہاں جس کا جب، جو جی میں آئے کہہ ڈالتا ہے، یعنی چوک چوبارہ نہیں دیکھتا بس گھر کے گندے کپڑے دھونے نکل پڑتا ہے۔ ابھی عظمیٰ کاردار کا دیا ہوا گھاؤ بھرا نہیں تھا کہ فواد چوہدری کو سچ بولنے کا نیا شوق ہوگیا۔ یہیں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ عظمیٰ کاردار نے خاتون اول پر الزامات لگائے، کپتان کی نجی زندگی کے اوپر لغو جملے بازی کی، تحریکِ انصاف کی اندرونی سیاسی لڑائیوں کو میڈیا کے سامنے لانے کی مرتکب ہوئیں، مگر آج کے دن تک جیسے پی آئی اے کے جہاز کا ملبہ کراچی کی گلیوں سے نہیں اٹھایا جاسکا، یونہی عظمیٰ کاردار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔
حیرت تو یہ ہے کہ تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے کا گلہ کرنے والے فواد چوہدری خود مانتے ہیں کہ عوام نے عمران خان کو مینڈیٹ کوئی نٹ بولٹ ٹھیک کرنے نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کو ٹھیک کرنے کےلیے دیا تھا جس کے بگاڑ کی نوعیت کو سمجھنے میں ہی منتخب حکومت کو کئی مہینے لگ گئے۔ وہ خود مانتے ہیں کہ پولیس اسٹرکچر کا بیڑا غرق تھا، عدالتی نظام میں اصلاحات درکار تھیں، ملک کے ٹیکس کا نظام تباہ حال تھا، تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کرنی تھیں، نیز ایسا کوئی بھی ادارہ نہیں تھا کہ جو منافع دے رہا ہو، یعنی ملکی معیشت کا شیرازہ بکھرا پڑا تھا۔ جو شخص یہ مانتا ہو، اس کی طرف سے یہ گلہ آنا کہ خان صاحب کوئی پانسہ نہ پلٹ سکے، دودھ شہد کی نہریں نہ بہا سکے، سمجھ سے باہر ہے۔ یہ باتیں تو تبدیلی کے نظریے کے دشمن کرتے ہیں۔ یہ تو ان کی جانب سے سننے کو ملتی ہیں کہ جنہوں نے آج تک عمران خان کو وزیرِاعظم مانا ہی نہیں، یا محض تنقید برائے تنقید کرنی ہے۔ مگراپنے ہی وزیرِ محترم کی جانب سے ایسی جملے بازی ہر طرح کے شک کو دعوت دیتی ہے۔
فواد چوہدری یاد رکھیں کہ ان کو اس مقام تک پہنچانا صرف تحریکِ انصاف کے ان سپورٹرز کے ہی بس کی بات تھی جنہوں نے خان صاحب کی قیادت میں ارض پاکستان پر ایک بہتر، ایک روشن سویرے کا خواب دیکھا۔ اس وقت پر جب ہر پرانے پاکستان کا حامی نئے پاکستان کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ جب چینی اور پٹرول مافیا کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے، جب انڈیپنڈنٹ بجلی گھروں کا بدمعاشیہ ایک سر کٹے اژدہا کی صورت اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے، جب تباہ حال معیشت بالآخر رینگتے رینگتے آگے بڑھنا شروع ہوئی تھی تو کووڈ-19 ہمارے تین ہزار ارب ہڑپ چکا، جب دہشت گردی کے ناسور نے دوبارہ سے جسم میں زہر بھرنا شروع کردیا، جب خطے میں نئی صف بندی کا آغاز ہے اور دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ تو ایسے وقت میں یہاں ''رجیم چینج'' کا راگ الاپنے والے کو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
خان صاحب سے یہ التماس ہے کہ آئے روز کی اس بیان بازی کو ایک ہی بار سخت ایکشن لے کر پس دیوار چنوا دیں۔ آج کے بیان در بیان پر خاموشی در خاموشی، کل کے کسی بڑے طوفان کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ آخر جس کے شر سے بچنے کی تلقین کی گئی، وہ وہی تو ہیں جن پر ہمارا احسان ہو۔ یا جنہیں ہمارے کمزور پوائنٹ کا ادراک ہو، ہمارے دوست ہی تو ہوتے ہیں۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔