مشکل حالات میں جینے کا ہنر

احمد نواز اسحاق  ہفتہ 2 مارچ 2024
اپنے اعصاب پر کنٹرول اور ذہنی دباؤ کو برداشت کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اپنے اعصاب پر کنٹرول اور ذہنی دباؤ کو برداشت کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج کی دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور منظرنامے نے کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ ہر جگہ ہر کوئی اپنے اور اپنے خاندان کے سروائیول کے بارے میں فکرمند اور پریشان نظر آتا ہے۔ ایک نظر نہ آنے والے وائرس نے انسانی زندگی اور دنیا کی معیشت کو طرح طرح کی مصیبتوں میں ڈال رکھا ہے۔ ایک طرف لوگ کورونا وائرس کے ہاتھوں اپنی صحت اور زندگی کے بارے میں بے حد فکرمند اور پریشان ہیں تو دوسری طرف لاک ڈاؤن کے باعث پیدا ہونے والی مادی اور مالی مشکلات نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بے شمار لوگ صرف اپنی زندگیوں سے ہی نہیں بلکہ تیزی سے روزگار کے مواقعوں سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔ بیماری کے ساتھ ساتھ زندگی اور روزگار چھن جانے کا خوف تیزی سے ہمارے دماغوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

آج ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے لیے اپنے اعصاب پر کنٹرول رکھنا اور ذہنی دباؤ کو برداشت کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسی پیچیدہ صورت حال میں ہم سب کی بقا اور سلامتی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اپنے وجود کو درپیش خطرات اور اپنے روزگار کے معاملات کو لاحق چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کےلیے کتنے تیار ہیں؟ اللہ تعالیٰ پر ہمارے پختہ یقین اور بھروسے کے بعد ہماری بقا اور سلامتی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم دل اور دماغ کو منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کےلیے کتنے کارگر ہنر اور کتنے موثر طریقہ ہائے کار اپنا رہے ہیں۔

آج ہماری ذہنی اور جسمانی صحت مندی کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ہم اپنے اردگرد پائے جانے والی گمراہ کن خبروں، پریشان کن خیالات، تشویش ناک افواہوں اور من گھڑت کہانیوں سے خود کو اور اپنے لاشعور کو کیسے بچارہے ہیں۔ کیونکہ مشکل حالات میں پریشان کن خبروں اور مایوس کن باتوں سے بہتر بچاؤ میں ہی ہماری بقا کا ذمے دار ہے۔

آج ہم ایک دنیا کے باسی ہیں جہاں ہمارے دماغوں پر ہر وقت ہر طرف سے نت نئے واقعات اور طرح طرح کی معلومات اور خبروں کی بمباری ہوتی رہتی ہے۔ اشتہاری ایجنسیاں، پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا، ہمارے سیاسی لیڈران اور بے شمار دوسرے گروپس صبح و شام براہِ راست ہمارے ذہنوں میں اپنی مرضی کا مواد ٹھونسے میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ ہمارے ذہنوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور ان سے اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کےلیے آج برین واشنگ کے ہتھیار کو کامیابی سے استعمال میں لا رہے ہیں اور اس طریقہ ہائے کار سے خاطر خواہ فوائد بھی حاصل کر پا رہے ہیں۔ برین واشرز بہت بڑے بڑے بجٹ کے ساتھ تخلیقی ذہانت اور بہترین مہارت کو استعمال میں لاتے ہوئے ہمارے دماغوں پر قابو پارہے ہیں۔ یوں وہ کامیابی سے ہمارے دماغوں میں اپنا اپنا مواد ڈال کر انہیں اپنے اپنے حق میں استعمال کررہے ہیں۔

آج بھی ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا ریموٹ کنڑول دوسروں کے ہاتھ میں ہے جو ہمارے ذہنوں کو ہماری مرضی کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ آج میڈیا کو کنٹرول کرنے والے ہمارے ذہنوں کو بھی کنٹرول کررہے ہیں۔

ہمارا ذہن چونکہ ہمارے جسم کےلیے ڈرائیور کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اپنی بقا کی جدوجہد اور کوشش میں جتنا ممکن ہوسکے اس کا کنٹرول ہمارے اپنے ہی ہاتھ میں رہے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ جب دوسرے ہمارے ذہنوں کو استعمال کرتے ہوئے ہم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو ہم خود اپنے ذہن کو جو سراسر ہماری ذاتی چیز ہے، اس کو اپنی تعمیر اور ترقی کےلیے استعمال کیوں نہیں کرسکتے؟ جی ہاں اگر آپ اپنی خداداد دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند، مضبوط اور توانا رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو بھی پیشہ ورانہ برین واشرز کی طرح اپنے دماغ تک رسائی پانے اور اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کا ہنر ہر حال میں سیکھنا ہوگا۔ کیونکہ یاد رکھیں اگر آپ خود اپنے ذہن کو استعمال نہیں کررہے اور کوئی دوسرا آپ کے دماغ کو استعمال کررہا ہے تو پھر آپ خطرے میں ہیں۔ لہٰذا آج ہی پہلی فرصت میں اپنے ذہن کو منفی برین واشنگ اور پریشان کن خیالات کے اثرات سے بچانے کےلیے تمام ضروری اقدامات پر غور وفکر کیجیے۔ اس کے ساتھ آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ آپ فوری طور پر اپنی برین واشنگ خود کرنے کا ایک شاندار منصوبہ اور پلان تشکیل دیجیے۔

یاد رکھئے! آپ کا ذہن آپ کےلیے اللہ تعالیٰ کا شاندار تحفہ اور بہترین انعام ہے، لہٰذا اسے ہر طرح کی غلامی سے آزادی اور رہائی دلا کر ایک بہترین اور تعمیری طرز حیات کی شاہراہ پر گامزن کرنا بھی آپ کا ہی کام ہے۔ اللہ ہمیں اپنے لیے اور اپنے اردگرد بسنے والے دوسروں انسانوں کےلیے مفید اور کارآمد انسان بننے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔