طارق عزیز اور نیلام گھر

طارق عزیز کے نیلام گھر میں جو انعامات ملتے تھے، اس وقت کی خوشی پوری قوم کی ’مشترکہ‘ ہوتی تھی


منصور ریاض June 25, 2020
طارق عزیز ایک عہد اور شخصیت سے زیادہ ایک جذبے کا نام ہے۔ (فوٹو: فائل)

آج بڑے بڑے نابغۂ روزگار بغیر کسی حیل و حجت، حتیٰ کہ اداکارائیں بھی، اپنے بچپن کی یادوں کو پاکستان کے بلاشبہ سب سے مایہ ناز کمپیئر طارق عزیز صاحب سے جوڑ رہے ہیں۔ چونکہ طارق عزیز گزشتہ چھ دہائیوں سے پاکستانی ناظرین کے دِلوں پر چھائے ہوئے تھے، تو 60 کے دور کے 'بچپن شدہ' اور اکیسویں صدی کے بچے بلا 'خوف و خطر'طارق عزیز کی یاد کو اپنے بچپن کی یاد سے ملانے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہے۔

طارق عزیز شخصیت سے زیادہ ایک جذبے ہے۔ اپنی موت تک بغیر کسی ماندگی اور شکستگی کے والہانہ انداز میں کام کرنا صرف اپنی شخصیت کو پس پشت ڈال کر ہی ممکن ہے۔ طارق عزیز کو ایک شخصیت کے طور پر یاد کیا جارہا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ طارق عزیز ایک عہد اور شخصیت سے زیادہ ایک جذبے کا نام تھا، ہے اور رہے گا۔

ساٹھ کی دہائی میں پی ٹی وی کو طارق عزیز نے ایسا شروع کیا کہ کچھ ہی عرصے میں سرکاری ٹی وی لوگوں کی زندگی کا لازمی جزو بن گیا۔ 80 کی دہائی میں اپنی پہلی ہی فلم انسانیت میں طارق عزیز نے وحید مراد، زیبا، فردوس جیسے ستاروں کی موجودگی کے باوجود ایسی جاندار اور میچور اداکاری کی کہ فلمی دنیا کو 'ہیرو' کی جو ضرورت تھی، وہ پُر ہوتی محسوس ہوئی۔ لیکن اس 'ہیرو' کی جگہ کو پُر محمدعلی نے کیا، کیونکہ طارق عزیز کو فلم کی دیومالائی دنیا کے بجائے دستک دینی تھی پاکستان کے گھر گھر میں۔ اور پھر کیسی لازوال دستک، دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں سے یہ واٹر کولر آپ کا ہوا اور پاکستان زندہ باد تک۔

حیرت انگیز طور پر عمر بڑھنے کے ساتھ طارق عزیز کے ولولے میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان کا پروگرام نیلام گھر شروع اور مقبول تو بہت پہلے ہوچکا تھا، لیکن اس کو جلا صحیح معنوں میں 80 کی دہائی میں ملی، جب گھروں میں ٹی وی سیٹ قدرے عام ہوچلے تھے۔ جہاں ناظرین کو پی ٹی وی کے شاہکار ڈراموں کا انتظار ہوتا تھا، وہیں نیلام گھر ہر گھر کا 'حصہ' بن چکا تھا۔ کراچی میں تو ایک وقت ایسا بھی تھا، جب لڑکے لڑکیوں اور بچوں نے باقاعدہ گھروں اور محلوں کی سطح پر 'نیلام گھر' کی طرز پر پروگرام کرنے شروع کردیے۔ کوئی دن ہی ایسا جاتا تھا، جب ہر گلی اور محلے میں یہ پروگرام نہ ہورہا ہو۔

طارق عزیز کے نیلام گھر میں جو انعامات ملتے تھے، گویا لوگوں کو خود مل رہے ہوں اور انعام کسی کو بھی ملیں، اس وقت خوشی 'مشترکہ' ہوتی تھی۔ نیلام گھر میں کبھی کبھار مقابلہ جیتنے پر 'گاڑی' تک مل جاتی تھی۔ اس زمانے میں گاڑی ملنا وہ بھی نیلام گھر میں، دنیا ملنے کے مترادف تھا۔ آج کل گاڑیاں تو کھلونوں کی طرح گیم شوز میں بٹ رہی ہوتی ہیں۔ جب گاڑی ایک کو نہیں، گویا پورے پاکستان کو ملتی تھی۔ اور قریب قریب 'قومی خوشی' کا درجہ رکھتی تھی۔ طارق عزیز اور نیلام گھر کو ایسے پروگرامز اور گیم شوز کا باپ گردانا جاتا ہے۔ بلاشبہ اس میں کوئی شک بھی نہیں کیونکہ بہت عرصے تک پاکستان میں صرف سرکاری چینل ہی رہا اور دوسرے پرائیویٹ چینلز بہت دیر میں آئے۔ دوسرے طارق عزیز کے سامنے نئے آنے والوں کو کوئی موقع نہ ملا۔ اور طارق عزیز اپنے پروگرام کے ذریعے ریکارڈ پر ریکارڈ بناتے چلے گئے۔

یہ درست ہے کہ طارق عزیز جیسی ہمہ جہت شخصیت اور خاص طور پر کمپیئر اور اناؤنسر نہ ملے گا۔ جتنی پیروڈیز طارق عزیز کی گئی ہیں، اس کا عشرِعشیر بھی کسی کی نہیں کی گئی ہوں گی۔ جو کہ بجائے خود ایک اعزاز ہے۔ لیکن دوسری طرف 'بے پناہ' طوالت کی بھی قیمت ہوتی ہے۔ نیلام گھر جب اکیسویں صدی کے شروع ہونے کے قریب طارق عزیز شو میں نام کی حد تک تبدیل ہوا، تب اس پر زوال آتا گیا۔ لیکن وقفے وقفے سے طارق عزیز کا پروگرام ٹی وی پر برقرار رہا۔ اور دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں اور 'اپنے' کانپتے ہاتھوں کے ساتھ طارق عزیز نے انعامات دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

طارق عزیز کی ہر بات، ہر انداز اور اطوار میں حب الوطنی جھلکتی تھی اور اسی کے باوصف سیاست میں دلچسپی ایک قدرتی عنصر تھا۔ پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو انہوں نے ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھا اور ساتھ دیا۔ پھر ضیاالحق کی 'مجاہدانہ' پالیسیوں نے ان کو رام کیا اور پھر نواز شریف کے' حبِ وطن' میں بہائے گئے آنسوؤں نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ بطور ممبر قومی اسمبلی انہوں نے اپنے قائد کی محبت میں سپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا۔ حتیٰ کہ حکومت بدلنے کے بعد'سجناں نوں قید بول گئی'۔ ان کے سپریم کورٹ حملے کے 'فارورڈ' ساتھی اور سابق ہاکی پلیئر اختر رسول تو سیاست پر پھر بھی کمند ڈالتے رہے، لیکن طارق عزیز نے قریب قریب ایکٹیو سیاست سے لاتعلقی اختیار کرلی۔

2020 ایک غم کا سال لگ رہا ہے۔ جہاں وبا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے وہاں نابغۂ روزگار شخصیات خاص کر طارق عزیز کے جانے نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ طارق عزیز لوگوں کے درمیان ذہنی آزمائش کے مقابلے خوب کراتے تھے۔ مگر ان کی پوری زندگی کا سفر، ان کے ہر کلام اور گفتگو سے لے کر آخری ٹویٹ تک یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سفر خود شدید ذہنی آزمائش سے نبردآزما تھا۔

طارق عزیز کی آزمائش اپنے اختتام کو پہنچی اور پی ٹی وی کے پہلے دور کا بھی ساتھ ہی اختتام ہوگیا۔ اب کوئی دوسرا دور ہے تو وہ اب شروع ہوگا، طارق عزیز اور نیلام گھر کے بغیر۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں