کھانسی نزلے کا مطلب کورونا نہیں
ہر ملک میں ایک محکمہ صحت ہوتا ہے جس کا کام عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ہوتا ہے۔
ہر ملک میں ایک محکمہ صحت ہوتا ہے جس کا کام عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک محکمہ صحت ہے جس کا کام عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ہے، پچھلے تین چار ماہ سے ملک ایک جان لیوا بیماری کورونا میں گھرا ہوا ہے، اس بیماری نے اب تک دنیا میں لاکھوں انسانوں کی جانیں لے لی ہیں، بدقسمتی سے سخت ترین کوششوں کے باوجود اب تک کورونا کی کوئی دوا یعنی ویکسین تیار نہ ہوسکی۔ اس کمزوری کی وجہ سے اناڑی یا فراڈ حکیموں کی بھرمار ہوگئی ہے اور یہ اناڑی حکیم ضرورت مند عوام کو مہنگے داموں کورونا کی جعلی دوائیں بیچ کر خوب مال کما رہے ہیں۔
اس حوالے سے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عام طور پر عوام کی ایک بھاری اکثریت کھانسی اور گلے کی خرابی میں مبتلا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کھانسی اور گلے کی بیماری کا کورونا سے کوئی تعلق نہیں، یہ سیزنل بیماری ہے، ہمارے اندھے بہرے اور مفلوج محکمہ صحت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے کہ بغیر بخار کے یہ جو کھانسی اور گلے کی خرابی ہے کیا کورونا سے اس کا کوئی تعلق ہے؟
کراچی ڈھائی کروڑ آبادی کا ایک بڑا اور دور دور تک پھیلا ہوا شہر ہے، جہاں مجبور عوام ضرورت کے وقت مٹی کو بھی سونے کے بھاؤ بیچ دیتے ہیں، کورونا ہو یا نہ ہو صرف کھانسی اور گلے کی خرابی کو کورونا سمجھ کر ہاتھ پاؤں چھوڑ دیتے ہیں اور کاروباری فراڈ حکیم عوام کو کورونا سے ڈرا کر انٹ شنٹ دوائیں عوام کو بیچ رہے ہیں جس کا عوام کو فائدہ نہیں نقصان ہو رہا ہے ۔محکمہ صحت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان جعلی ڈاکٹروں کی دواؤں کی تحقیق کرے اور جعلی حکیموں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
کورونا کی جو علامتیں بتائی گئی ہیں، ان میں تیز بخار لازمی کہا جاتا ہے لیکن ایسے سیکڑوں مریض ہیں جنھیں صرف کھانسی ہے اور گلا خراب ہے، ایسے بھی لوگ ہیں جنھیں برسوں سے کھانسی ہے اور وہ اس شک میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ انھیں کورونا ہو گیا ہے اور نیم حکیموں سے کورونا کی دوائی مہنگے داموں خرید رہے ہیں اور استعمال کرکے نئی نئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
میرے گھر میں خود دو بچے مستند ڈاکٹر سے کھانسی اور گلے کی خرابی کی دوا استعمال کر رہے ہیں جس سے بچوں کو فائدہ ہو رہا ہے، بہت سارے کھانسی کے مریض جنھیں بخار نہیں ہے وہ کورونا کے خوف میں مبتلا ہیں۔ ایسے کھانسی کے مریضوں کے لیے جگہ جگہ یا یونین لیول پر ایلوپیتھک ڈاکٹروں کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں متعین کیا جائے جو کورونا کے خوف میں مبتلا ہو کر سخت پریشان ہو رہے ہیں۔ اگر یونین لیول پر چیسٹ اسپیشلسٹوں خاص طور پر کھانسی کے اسپیشلسٹوں کو متعین کیا جائے تو ہزاروں کورونا کے خوف میں مبتلا لوگ صحت مند ہو جائیں گے۔
مجھے حیرت ہے کہ ہمارا محکمہ صحت عوام سے ہونے والے اتنے بڑے فراڈ سے آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔ پورا شہر آج کورونا کے خوف میں مبتلا ہے اور گھبراہٹ کا شکار ہوکر نیم حکیموں کے چنگل میں پھنس رہا ہے۔ یونانی طریقہ علاج میں بھی موثر علاج ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے کم سے کم مستند حکیموں کو علاج کی اجازت دی جائے اور عوام کی صحت سے کھیلنے والے فراڈ حکیموں کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ کھانسی اور صرف گلے کی خرابی کا علاج ہو سکے۔
ہمارے نااہل محکمہ صحت کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ کورونا کی دوا کے نام پر جعلی حکیم کیا کیا الا بلا بیچ رہے ہیں اور ضرورت مند مریض ان دواؤں کو استعمال کرکے نت نئی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ جعلی حکیم اپنے کارندوں کے ذریعے عوام میں یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ فلاں حکیم کی فلاں دوا کورونا کے لیے اکسیر ہے، یوں سیدھے سادے عوام ان کے دام میں آکر جعلی علاجوں میں پھنس جاتے ہیں۔ کھانسی کا بڑا تعلق چیسٹ سے ہے، ہمارے ملک میں چیسٹ کے کوالیفائیڈ ڈاکٹر سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔
یہاں میں خود اپنے دو بچوں کی بیماری کا ذکر کروں گا ۔ رافع عمر 11 سال، شایان عمر 8 سال ان دونوں کو کھانسی، نزلہ ہو گیا، سارا گھر پریشان، انھیں اسپتال لے جایا گیا، ڈاکٹروں نے دونوں کے ٹیسٹ کیے اور انھیں آئسولیشن میں رکھنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ہم نے ایک اٹیچڈ بیڈ روم میں دو بیڈ ڈال کر دے دیے، ان کا بخار تو ختم ہو گیا لیکن معمولی کھانسی ختم نہیں ہو رہی۔ عام ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی کھانسی کا علاج کرتے ہیں لیکن ہمارے نااہل محکمہ صحت کی ذمے داری ہے کہ وہ نزلہ کھانسی کے مریضوں کے لیے ہر علاقے میں ماہر ڈاکٹر تعینات کرکے عوام کو خوف سے بچائے۔