حضرت ہزارویؒ کا سانحہ ارتحال کورونا کی صورتحال حصہ اول
حضرت ہزاروی رحمۃ اللہ جہاں بھی جلسے جلوسوں میں جاتے تھے عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کے حوالے سے لوگوں سے حلف لیتے تھے
گزشتہ کئی روز سے ذہن بنا رکھاتھا کہ آیندہ کالم کورونا کی صورتحال اور اس نازک صورتحال کا فائدہ اٹھانے والے مافیا کے بارے میں لکھا جائے گا۔ اپنے ذہن میں موجود خاکے کو ابھی کاغذ پر اتارنے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ فون پر نظر پڑی تو حضرت مولانا پیر عزیز الرحمٰن ہزارویؒ کے صاحبزادے شیخ ابوبکرہزاروی کی مس کال تھی جس کا شاید مصروفیت یا خرابی طبیعت کی وجہ سے پتا نہ چل سکا۔
میں نے انھیں کال کی، میری حضرت اقدس کے دونوں صاحبزادوں مفتی اویس ہزاروی اور شیخ ابوبکر ہزاروی سے بات ہوئی، انھوں نے بتایا مشفق و مہربان، یادگارِ اسلاف، اہل حق کے رہبر و رہنما، عظیم مجاہد، پیرِطریقت، رہبرِشریعت حضرت مولانا پیر عزیز الرحمان ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ دار فانی سے دار بقا کی جانب رحلت فرماگئے ہیں۔
(انا للہ وانا الیہ راجعون)دل ودماغ اس خبر کو قبول کرنے کے لیے ایک لمحے کو بھی تیار نہ تھے۔ ان کی ناگہانی موت نے اس قدر بے چین کیا کہ میں شروع میں بیان کیے گئے موضوع کو کالم کے آخر میں بیان کرنے پر مجبور ہوگیا کیونکہ حضرت اقدس سے جڑی کچھ قیمتی یادیں پہلے قارئین کے ساتھ شئیر کررہا ہوں۔ حضرت ہزارویؒ کی موت سے جڑی یہ خبر اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کہ حضرت پیر صاحب کا انتقال کورونا کے باعث ہوا، وہ گزشتہ کچھ دنوں سے الشفاء اسپتال اسلام آباد میں زیر علاج تھے،حضرت ہزاروی رحمۃ اﷲ جو امت میں شفیق الامت کے لقب سے معروف تھے آج امت ان کی شفقتوں سے محروم ہوچکی ہے۔
آپ عرب و عجم کے عظیم روحانی و علمی شخصیت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی نور اﷲ مرقدہ کے خلیفہ اجل تھے، ترنول اسلام آباد میں ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی جس کا نام اپنے مرشد کے نام پر جامعہ دارالعلوم زکریارکھا۔ آپ کے ہزاروں شاگرد اور مریدین پاکستان اور دنیا کے کونے کونے میں علم و معرفت کے موتی بانٹ رہے ہیں اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ حق کی جانب لارہے ہیں۔ آپ نے امام سیاست حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اﷲ کی 14سال تک خدمت کی، اسی خدمت کا فیض تھا کہ جو سادگی، عاجزی اورانکساری مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اﷲ میں تھیں، وہی آپ کی سیرت وکردار میں بھی جھلکتا تھا۔
ناموس رسالت، عظمت صحابہؓ و اہل بیتؓ، عقیدہ ختم نبوت کے لیے ہمیشہ سربکف رہے۔ آپ کی تمام زندگی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، تزکیہ نفس، اصلاح معاشرہ، مساجد و مدارس اور خانقاہوں کے قیام و دفاع، دینی ومذہبی جماعتوں کی سرپرستی میں گزری۔ آپ ملک میں نظام مصطفیٰؐ کے عملی نفاذ اور ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ کے تحفظ کے لیے عملی طور پر سرگرم رہے۔ پاکستان بھر کی دینی جماعتیں،قائدین، علماء و مشائخ سبھی آپ کا بے حد احترام کرتے تھے بلکہ آپ پر مکمل اعتماد بھی تھا۔کورونا کے اس کہرام میں جید علماء کرام ایک ایک کرکے کوچ کررہے ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے قیامت سے پہلے قیامت آچکی ہے۔
ابھی تک جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے غم سے باہر نہیں نکل پائے تھے کہ حضرت مولانا پیر عزیز الرحمان ہزاروی رحمۃ اللہ کے سانحہ ارتحال نے پورے عالم اسلام کو نمناک کرکے رکھ دیاہے۔ حضرت پیر ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ اور میرے والد محترم شیخ القرآن الحدیث حضرت مولانا حمد للہ جان ڈاگئی بابا رحمۃ اللہ کے درمیان بڑا گہرا روحانی و قلبی تعلق تھا،کیونکہ میرے والد مرحوم رحمۃ اللہ حضرت زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد تھے۔
ہمارے دارالعلوم مظہر العلوم ڈاگئی کا کوئی ایسا پروگرام نہیں ہوتا تھا جس میں حضرت ہزاروی رحمۃ اللہ تشریف نہیں لاتے تھے۔ والد صاحب کے سانحہ ارتحال کے بعد آپ کی شفقت پہلے سے بھی بڑھ چکی تھی، وہ اکثر دارالعلوم تشریف لاتے اور ہماری سرپرستی فرماتے۔ چند برس قبل میں نے اپنے بڑے بیٹے ابوبکرکے ولیمہ کی دعوت کا اہتمام لاہور میں کیا، حضرت ہزارویؒ صاحب کو بھی مدعو کیا، انھوں نے کہا کہ میرا شیڈول تو بہت مصروف ہے لیکن میں ایک شرط پر آسکتا ہوں، میں نے استفسار کیا تو بولے میں کھانا سنت طریقے کے مطابق زمین پر بیٹھ کرکھاوں گا۔
میں نے حضرت کی شرط مان لی اور وہ حسب وعدہ تشریف لے آئے، وہ کیا حسین منظر تھا جب اسٹیج پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید میرے والد محترم شیخ القرآن و الحدیث مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی، حضرت جی کے خلفاء مولانا عبدالحفیظ مکی اور مولانا عزیز الرحمان ہزارویؒ جلوہ افروز تھے اور ہال میں موجود علماء ومشائخ ، سیاسی، سماجی و صحافتی شخصیات ان اولیاء اللہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے چین تھے، میں نے پچاس افراد کے لیے زمین پر دسترخوان لگایا جہاں اللہ کے ان ولیوں نے بیٹھ کرسنت طریقے سے کھانا کھایا۔تینوں اکابرین کاعقیدہ ختم نبوت سے جذباتی لگاو تھا،مرتے دم تک انھوں نے عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کی۔
حضرت ہزاروی رحمۃ اللہ جہاں بھی جلسے جلوسوں میں جاتے تھے عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کے حوالے سے لوگوں سے حلف لیتے تھے، جب میرے انتخابی جلسے میں تشریف لائے مجھ سے بھی انھوں نے حلف لیا۔ یہ ان کی عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کمٹمنٹ تھی۔ حضرت ہزارویؒ نے مرتے دم تک جمعیت علماء اسلام کی سرپرستی فرمائی، آزادی مارچ میں جس جوش و جذبے سے انھوں نے شرکت کی تھی وہ دیدنی تھی۔ انھیں کے ذکر و درود کی محافل سے اسلام آباد کی فضاوں میں نور برسنے لگا اور ہر سو نورانیت محسوس ہورہی تھی۔
حضرت ہزاروی رحمۃ اللہ کو سنت سے بڑی محبت تھی اور اپنے متعلقین کو سنت طریقے سے زندگی گزارنے کی ترغیب دیا کرتے تھے، آپ سے میری جب بھی ملاقات ہوتی تو کوئی ایک سنت بتاتے اور اسے اپنانے کی تلقین فرماتے۔ آج عالم اسلام کی یہ تینوں عظیم شخصیات اپنے استاد و مرشد حضرت زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ چکی ہیں،ان بزرگوں کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ جانا کسی قیامت سے کم نہیں، لوگ مٹی سے سونا نکالتے ہیں اور ہم اپنے ہاتھوں سے سونے جیسی شخصیات مٹی میں دفن کر آئے ہیں۔
یہی حکم خدا وندی تھا، اسی کی رضا میں ہمیں راضی رہنا ہے، ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اﷲ پاک نے اپنے ان نیک بندوں کو ان کے شایان شان زندگی عطا کی ہوگی، وہ زندگی جو دائمی ہے، ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اس دائمی زندگی کی جانب بڑھنا ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ دائمی زندگی ہی ایک حقیقت ہے۔ ہم جس زندگی کو زندگی سمجھ کر اسے سنوارنے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں، یہ سب سے بڑا دھوکہ ہے۔
دوسرے موضوع کو شروع کرنے سے قبل میں اپنے تمام قارئین اور خاص طور پر دینی حلقوں سے وابستہ احباب سے گزارش کروں گا کہ کورونا ایک حقیقت ہے، جو انسانوں کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، ہم نے اس وباء کے باعث بہت سے علم و معرفت کے ستارے گرتے دیکھ لیے ہیں لیکن اب مزیدصدمے برداشت کرنے کی ہمت نہیں لہٰذا رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کیجیے۔
مریدین کچھ عرصہ کے لیے اپنے مشائخ سے ہاتھ ملانے اور ہاتھ چومنے کا سلسلہ ترک کردیں۔ کیونکہ ایسی وباء ہے جو کسی تندرست جسم کو بھی لاحق ہوسکتی ہے لیکن اس جسم کواس بات کا علم بھی نہ ہو اور وہ جسم جب دوسروں سے ملے گا تو کورونا بانٹتا رہے گا۔ ہم نے کورونا کے اس پھیلاو کی چین کو توڑنا ہے، یہ تبھی ممکن ہے جب ہم احتیاط کریں گے، عقیدت اپنی جگہ درست لیکن مرشد کو اس وباء سے بچانا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، اس لیے خدارا احتیاط کیجیے۔
(جاری ہے)
میں نے انھیں کال کی، میری حضرت اقدس کے دونوں صاحبزادوں مفتی اویس ہزاروی اور شیخ ابوبکر ہزاروی سے بات ہوئی، انھوں نے بتایا مشفق و مہربان، یادگارِ اسلاف، اہل حق کے رہبر و رہنما، عظیم مجاہد، پیرِطریقت، رہبرِشریعت حضرت مولانا پیر عزیز الرحمان ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ دار فانی سے دار بقا کی جانب رحلت فرماگئے ہیں۔
(انا للہ وانا الیہ راجعون)دل ودماغ اس خبر کو قبول کرنے کے لیے ایک لمحے کو بھی تیار نہ تھے۔ ان کی ناگہانی موت نے اس قدر بے چین کیا کہ میں شروع میں بیان کیے گئے موضوع کو کالم کے آخر میں بیان کرنے پر مجبور ہوگیا کیونکہ حضرت اقدس سے جڑی کچھ قیمتی یادیں پہلے قارئین کے ساتھ شئیر کررہا ہوں۔ حضرت ہزارویؒ کی موت سے جڑی یہ خبر اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کہ حضرت پیر صاحب کا انتقال کورونا کے باعث ہوا، وہ گزشتہ کچھ دنوں سے الشفاء اسپتال اسلام آباد میں زیر علاج تھے،حضرت ہزاروی رحمۃ اﷲ جو امت میں شفیق الامت کے لقب سے معروف تھے آج امت ان کی شفقتوں سے محروم ہوچکی ہے۔
آپ عرب و عجم کے عظیم روحانی و علمی شخصیت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی نور اﷲ مرقدہ کے خلیفہ اجل تھے، ترنول اسلام آباد میں ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی جس کا نام اپنے مرشد کے نام پر جامعہ دارالعلوم زکریارکھا۔ آپ کے ہزاروں شاگرد اور مریدین پاکستان اور دنیا کے کونے کونے میں علم و معرفت کے موتی بانٹ رہے ہیں اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ حق کی جانب لارہے ہیں۔ آپ نے امام سیاست حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اﷲ کی 14سال تک خدمت کی، اسی خدمت کا فیض تھا کہ جو سادگی، عاجزی اورانکساری مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اﷲ میں تھیں، وہی آپ کی سیرت وکردار میں بھی جھلکتا تھا۔
ناموس رسالت، عظمت صحابہؓ و اہل بیتؓ، عقیدہ ختم نبوت کے لیے ہمیشہ سربکف رہے۔ آپ کی تمام زندگی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، تزکیہ نفس، اصلاح معاشرہ، مساجد و مدارس اور خانقاہوں کے قیام و دفاع، دینی ومذہبی جماعتوں کی سرپرستی میں گزری۔ آپ ملک میں نظام مصطفیٰؐ کے عملی نفاذ اور ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ کے تحفظ کے لیے عملی طور پر سرگرم رہے۔ پاکستان بھر کی دینی جماعتیں،قائدین، علماء و مشائخ سبھی آپ کا بے حد احترام کرتے تھے بلکہ آپ پر مکمل اعتماد بھی تھا۔کورونا کے اس کہرام میں جید علماء کرام ایک ایک کرکے کوچ کررہے ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے قیامت سے پہلے قیامت آچکی ہے۔
ابھی تک جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے غم سے باہر نہیں نکل پائے تھے کہ حضرت مولانا پیر عزیز الرحمان ہزاروی رحمۃ اللہ کے سانحہ ارتحال نے پورے عالم اسلام کو نمناک کرکے رکھ دیاہے۔ حضرت پیر ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ اور میرے والد محترم شیخ القرآن الحدیث حضرت مولانا حمد للہ جان ڈاگئی بابا رحمۃ اللہ کے درمیان بڑا گہرا روحانی و قلبی تعلق تھا،کیونکہ میرے والد مرحوم رحمۃ اللہ حضرت زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد تھے۔
ہمارے دارالعلوم مظہر العلوم ڈاگئی کا کوئی ایسا پروگرام نہیں ہوتا تھا جس میں حضرت ہزاروی رحمۃ اللہ تشریف نہیں لاتے تھے۔ والد صاحب کے سانحہ ارتحال کے بعد آپ کی شفقت پہلے سے بھی بڑھ چکی تھی، وہ اکثر دارالعلوم تشریف لاتے اور ہماری سرپرستی فرماتے۔ چند برس قبل میں نے اپنے بڑے بیٹے ابوبکرکے ولیمہ کی دعوت کا اہتمام لاہور میں کیا، حضرت ہزارویؒ صاحب کو بھی مدعو کیا، انھوں نے کہا کہ میرا شیڈول تو بہت مصروف ہے لیکن میں ایک شرط پر آسکتا ہوں، میں نے استفسار کیا تو بولے میں کھانا سنت طریقے کے مطابق زمین پر بیٹھ کرکھاوں گا۔
میں نے حضرت کی شرط مان لی اور وہ حسب وعدہ تشریف لے آئے، وہ کیا حسین منظر تھا جب اسٹیج پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید میرے والد محترم شیخ القرآن و الحدیث مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی، حضرت جی کے خلفاء مولانا عبدالحفیظ مکی اور مولانا عزیز الرحمان ہزارویؒ جلوہ افروز تھے اور ہال میں موجود علماء ومشائخ ، سیاسی، سماجی و صحافتی شخصیات ان اولیاء اللہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے چین تھے، میں نے پچاس افراد کے لیے زمین پر دسترخوان لگایا جہاں اللہ کے ان ولیوں نے بیٹھ کرسنت طریقے سے کھانا کھایا۔تینوں اکابرین کاعقیدہ ختم نبوت سے جذباتی لگاو تھا،مرتے دم تک انھوں نے عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کی۔
حضرت ہزاروی رحمۃ اللہ جہاں بھی جلسے جلوسوں میں جاتے تھے عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کے حوالے سے لوگوں سے حلف لیتے تھے، جب میرے انتخابی جلسے میں تشریف لائے مجھ سے بھی انھوں نے حلف لیا۔ یہ ان کی عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کمٹمنٹ تھی۔ حضرت ہزارویؒ نے مرتے دم تک جمعیت علماء اسلام کی سرپرستی فرمائی، آزادی مارچ میں جس جوش و جذبے سے انھوں نے شرکت کی تھی وہ دیدنی تھی۔ انھیں کے ذکر و درود کی محافل سے اسلام آباد کی فضاوں میں نور برسنے لگا اور ہر سو نورانیت محسوس ہورہی تھی۔
حضرت ہزاروی رحمۃ اللہ کو سنت سے بڑی محبت تھی اور اپنے متعلقین کو سنت طریقے سے زندگی گزارنے کی ترغیب دیا کرتے تھے، آپ سے میری جب بھی ملاقات ہوتی تو کوئی ایک سنت بتاتے اور اسے اپنانے کی تلقین فرماتے۔ آج عالم اسلام کی یہ تینوں عظیم شخصیات اپنے استاد و مرشد حضرت زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ چکی ہیں،ان بزرگوں کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ جانا کسی قیامت سے کم نہیں، لوگ مٹی سے سونا نکالتے ہیں اور ہم اپنے ہاتھوں سے سونے جیسی شخصیات مٹی میں دفن کر آئے ہیں۔
یہی حکم خدا وندی تھا، اسی کی رضا میں ہمیں راضی رہنا ہے، ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اﷲ پاک نے اپنے ان نیک بندوں کو ان کے شایان شان زندگی عطا کی ہوگی، وہ زندگی جو دائمی ہے، ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اس دائمی زندگی کی جانب بڑھنا ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ دائمی زندگی ہی ایک حقیقت ہے۔ ہم جس زندگی کو زندگی سمجھ کر اسے سنوارنے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں، یہ سب سے بڑا دھوکہ ہے۔
دوسرے موضوع کو شروع کرنے سے قبل میں اپنے تمام قارئین اور خاص طور پر دینی حلقوں سے وابستہ احباب سے گزارش کروں گا کہ کورونا ایک حقیقت ہے، جو انسانوں کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، ہم نے اس وباء کے باعث بہت سے علم و معرفت کے ستارے گرتے دیکھ لیے ہیں لیکن اب مزیدصدمے برداشت کرنے کی ہمت نہیں لہٰذا رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کیجیے۔
مریدین کچھ عرصہ کے لیے اپنے مشائخ سے ہاتھ ملانے اور ہاتھ چومنے کا سلسلہ ترک کردیں۔ کیونکہ ایسی وباء ہے جو کسی تندرست جسم کو بھی لاحق ہوسکتی ہے لیکن اس جسم کواس بات کا علم بھی نہ ہو اور وہ جسم جب دوسروں سے ملے گا تو کورونا بانٹتا رہے گا۔ ہم نے کورونا کے اس پھیلاو کی چین کو توڑنا ہے، یہ تبھی ممکن ہے جب ہم احتیاط کریں گے، عقیدت اپنی جگہ درست لیکن مرشد کو اس وباء سے بچانا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، اس لیے خدارا احتیاط کیجیے۔
(جاری ہے)