کورونا اور اس کے 19 نکات

صدف ایوب  جمعـء 26 جون 2020
زرتاج گل نے کووڈ 19 کا مطلب کورونا کے انیس نکات بتایا، جس کا خوب مذاق بن رہا ہے۔ (فوتو: فائل)

زرتاج گل نے کووڈ 19 کا مطلب کورونا کے انیس نکات بتایا، جس کا خوب مذاق بن رہا ہے۔ (فوتو: فائل)

کورونا کی وبا کو پاکستان کا رخ کیے تقریباً چار ماہ مکمل ہونے والے ہیں۔ ان چار مہینوں میں جہاں احتیاط، بچاؤ، تدابیر جیسے الفاظ کانوں میں پڑتے رہے، وہیں سازش، کورونا ورونا کچھ نہیں، زہر کا ٹیکہ جیسی مضحکہ خیز باتیں سن کر ہر ذی شعور انسان اپنا سر بھی ضرور پیٹ چکا ہے۔

سادہ لوح عوام کے ساتھ وطن عزیز کی باگ ڈور سنبھالے افراد نے بھی اس عالمی وبا پر اپنے فاضل بیانات سے عوام کو محظوظ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جیسے گزشتہ چند روز سے کورونا یا کووڈ 19 کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل کے بیان پر چرچے زبان زدِ عام ہیں۔ اور آخر کیوں نہ ہوں، انہوں نے تو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے وائرس کو دیے جانے والے نام کا مطلب ہی بدل ڈالا۔

پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پر ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 میں 19 کا مطلب اس کے انیس پوائنٹس (نکات) ہیں، جو کسی بھی ملک پر کسی بھی طرح سے اپلائی ہوسکتے ہیں۔

بالفرض اگر کوئی تاحال کووڈ 19 کی تعریف سے لاعلم ہے تو واضح کردوں کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس وائرس کو دیے جانے والے نام میں ’کو‘ کا مطلب کورونا، ’وی‘ کا مطلب وائرس، اور ’ڈی‘ سے مراد ڈیزیز یا بیماری کے ہیں، جبکہ 19 اس وائرس کے پہلی بار منظرعام پر آنے کا سال یعنی 2019 ہے۔

وزیر صاحبہ اس بیان پر کھلنے والے محاذ کے جواب میں وضاحتی ٹویٹ کرکے اپنے تئیں تنقید سے بچنے کی کوشش کرچکی ہیں، لیکن جو تیر ایک بار کمان سے نکل گیا، وہ تو گیا۔

ویسے ان کا کہا ایسا کوئی غلط بھی نہیں۔ کورونا کے منظرعام پر آنے کے بعد سے جو عوامی اور حکمرانی ردعمل دیکھنے کو ملا ہے، اسے 19 چیدہ چیدہ نکات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایسے کہ فروری کے اواخر میں جب کورونا پاکستان پہنچا تو موسم نسبتاً خوشگوار تھا، لہٰذا مارچ اپریل تو پاکستان کے معصوم عوام نے یہ دلاسے کہہ سن کر گزار دیے کہ گرم ممالک میں کورونا نہیں پھیلتا اور گرمی بڑھتے ہی کورونا کا زور ٹوٹ جائے گا۔ جون کی کڑاکے دار گرمی اور کورونا کا جوبن اب سب کے سامنے ہے.

پھر جب چین، اٹلی اور اسپین میں وائرس دھڑادھڑ لوگوں کو متاثر کرنے میں مصروف تھا اس وقت اکثریت یہ کہتی نظر آئی کہ وائرس کافروں کی پھینٹی لگانے آیا ہے اور اس سے مسلمانوں پر اثر نہیں پڑنے والا کیونکہ مسلمان تو پانچ وقت وضو کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ ماشاءاللہ!

تیسرا نکتہ یوں کہ رفتہ رفتہ جب کورونا عوام کی بداحتیاطی کے باعث دلیر ہونے لگا تو عورت مارچ کو اس کی وجہ ٹھہرادیا گیا۔

کورونا کی من مانیوں کے باعث جب لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا اور سماجی فاصلے کا اہتمام یقینی بنانے کےلیے مساجد میں ادائیگی نماز کو محدود کیا گیا تو کورونا غیر مسلموں کی مسلمانوں کو مساجد سے دور رکھنے اور باجماعت ادائیگی نماز روکنے کی سازش بن گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ کورونا کی خودسری بڑھتی گئی تو ملبے کے نیچے آئے مسیحا۔ اور پھر سب نے سنا کہ ڈاکٹر زہر کا ٹیکہ لگا کر اچھے بھلے مریضوں کو مار رہے ہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ وہ کورونا سے مرے۔ الامان والحفیظ۔

اور تو اور کورونا وائرس کی آڑ میں انسانوں میں کمپیوٹر چپ لگانے کا بل گیٹس کا بھیانک، مکروہ منصوبہ بھی پاکستانی عوام نے بےنقاب کیا۔

مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے، لیکن اس وبا کے دوران کورونا سے وفات پانے والے پاکستانیوں کی لاشیں اس سے بھی مہنگی رہیں کیونکہ کئی سیانوں کے بقول امریکا ان لاشوں کو 3500 ڈالرز میں خریدتا رہا۔

اور پھر وہ عالم فاضل بھی جابجا نظر آئے جن کے مطابق ہم نے تو کوئی کورونا کا مریض نہیں دیکھا، حکومت صرف بین الاقوامی اداروں سے امداد اور چندہ اکھٹا کرنے کےلیے کورونا متاثرین کی تعداد زیادہ ظاہر کررہی ہے۔

یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ ’بہت سے گھرانے صرف عید پر نئے کپڑے پہنتے ہیں‘۔ پھر آگے کیا ہوا آپ سب کو پتہ ہے۔ بہرحال۔

اس عالمی وبا کے دوران پاکستان میں مقبول ہونے والا دسواں نکتہ یہ تھا کہ ’’کورونا عام فلو جیسا ہے‘‘ اور اس نکتے کو بھی عوام نے من و عن تسلیم کیا اور بالکل نہ ’’گھبرائے‘‘۔

اس سب کے بعد جب کورونا دل کھول کر پھیل چکا تو رہی سہی کسر ’’ہینڈسم‘‘ لاک ڈاؤن نے پوری کردی. معاف کیجیے گا ’’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘‘۔ اس سب کے دوران فردوس عاشق اعوان نے لاعلم عوام کے علم میں مزید اضافہ کچھ یوں کیا کہ ’’صرف ماسک نہ پہنیں، کورونا ٹانگوں سے بھی لگ سکتا ہے‘‘۔ (اس بات پر مسکرانا بھی سختی سے منع ہے۔)

دوسری جانب کچے پکے لاک ڈاؤن میں سامنے آنے والا ایک اور اہم نکتہ ہمارے عوام کے دیسے ٹوٹکے بھی تھے، جن کی بدولت سنامکی کے پتے جس کا اکثریت نے نام بھی نہ سنا تھا، گرم مصالحوں کی قیمت بکنے لگے۔ ساتھ ہی چند نیم حکیموں نے یہ بھی بتادیا کہ وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد چار گھنٹے حلق میں رہائش اختیار کرتا ہے، اس لیے نمک کے غراروں سے اسے فلش کرتے رہیں۔

سنا مکی کے قہوے کا کرشمہ کہیے یا وائرس کا لائف سائیکل مکمل ہونے کا نتیجہ، ہمارے عوام نے روبصحت ہونے کے بعد پلازمہ کی فروخت کا کاروبار بالکل ویسے ہی چمکایا جیسے ماسک اور سینیٹائزر کو بلیک کیا تھا۔

19 میں سے وائرس کا سترہواں نکتہ تب سب کے علم میں آیا جب وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا کہ ’’لہوریے اللہ کی کوئی علیحدہ مخلوق ہیں‘‘۔

ملکی تاریخ گواہ ہے کہ موقع محل کوئی بھی ہو، مرغیاں ’بد اچھا بدنام برا‘ کے مصداق ہر دفعہ سولی پر چڑھتی ہیں۔ تو کورونا میں بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آیا اور برائلر مرغیاں موردِ الزام ٹھہرائی گئیں۔

انیسواں نکتہ تو آپ سب کو پتہ ہے ہی کہ کووڈ 19 میں انیس سے مراد یہ ہے کہ وائرس ہر ملک پر انیس مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوسکتا ہے۔

مجھے تو صرف یہ ڈر ہے کہ اگر پاکستان میں وائرس کا زور ٹوٹنے تک مزید نکات سامنے آگئے تو کہیں عالمی ادارہ صحت کو وائرس کا نام کووڈ 50 یا 60 نہ کرنا پڑجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔