ڈبلیو ایچ او کیا بیچتا ہے
عالمی ادارہ صحت کی تشویش کے باوجود اسے اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیا جارہا ہے
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو کسی واضح حکمت عملی کے بغیر کورونا وائرس کو بھگانے میں مصروف ہے۔ ہم محض ایک اسمارٹ اور 'ہینڈسم' لاک ڈاؤن سے اس وبائی گھوڑے کو قابو کرنے کے چکر میں ہیں۔ حالانکہ تقریباً سبھی ممالک جان گئے ہیں کہ چاہے مختصر ہی سہی، مکمل لاک ڈاؤن اور لازمی قرنطینہ جیسے سخت اقدامات سے ہی اس وبا کو محدود کیا جاسکتا ہے۔
کورونا کی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے میں ہر جگہ مرکزی حکومتوں کا کردار اہم رہا ہے، جنہوں نے قومی سطح پر ماہرین کی مشاورت سے ایک جامع پالیسی تشکیل دی اور ریاستی یا صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ذریعے اسے سختی سے نافذ کیا۔ یورپ سے تقابل چاہے نہ بھی کریں، پڑوس میں ہی ویتنام اور جنوبی کوریا کی مثالیں موجود ہیں، جہاں اس مہلک وبا سے بچنے کےلیے جارحانہ حکمت عملی اپنائی گئی اور عوام کو ہر ممکن حد تک وائرس سے محفوظ رکھا گیا۔
ویتنام دس کروڑ آبادی کا ملک ہے جس کی چین کے ساتھ سرحد 1450 کلومیٹر طویل ہے۔ جس دن چین میں کورونا سے پہلی ہلاکت ہوئی، اسی دن ویتنام حکومت نے چین کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرکے آمدورفت ختم کردی تھی۔ ملک کے سارے تعلیمی اداروں کو قرنطینہ بنادیا، غلط معلومات پھیلانے پر سزا مقرر کی اور پورا زور عوام میں درست معلومات اور آگاہی پھیلانے پر صرف کردیا۔ معاشی دباؤ سے نکلنے کےلیے ساری انڈسٹری کو ٹیسٹنگ کٹس بنانے پر لگایا اور ایسی کٹس تیار کرلی گئیں جو صرف ایک گھنٹے میں درست نتائج دے سکتی تھیں۔ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد انہیں باقی دنیا کو برآمد کرنا شروع کردیا گیا۔ آج یورپ، امریکا اور انڈیا میں ویتنام کی ٹیسٹنگ کٹس استعمال ہورہی ہیں۔ دلچسپ بات کہ وائرس کے خلاف عوامی شعور بڑھانے کی خاطر حکومت نے ایک ویڈیو سونگ بھی بنایا جو وائرل ہوچکا ہے۔ حکومت نے طے کرلیا تھا کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد کسی صورت میں ایک ہزار سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے۔ نتیجتاً ویتنام میں اب تک مریضوں کی کل تعداد ساڑھے تین سو سے اوپر نہیں جا پائی، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد صفر ہے۔ مئی کے آغاز سے وہاں دوبارہ زندگی رواں دواں ہے۔
جہاں بھی کورونا کو شکست ہوئی وہاں ماہرین کی ایسی کمیٹی یا ٹاسک فورس ضرور قائم کی گئی جس نے بدلتی عالمی صورتحال کے پیش نظر فوری فیصلے کیے اور اپنے ملکوں میں ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔ پاکستان میں ایسی کوئی ٹیم کاغذوں میں تو شاید موجود ہو، منظر عام پر دکھائی نہیں دی۔ کووڈ 19 کی حکومتی ویب سائٹ پر صرف بنیادی معلومات اور سرکاری ٹویٹس پڑے ہیں۔ وزارتِ صحت کا قلمدان بھی خود وزیراعظم صاحب کے پاس ہے جو بارہا کورونا کے بارے میں اپنے ''اقوال زریں'' سے قوم کو محظوظ کرچکے ہیں۔ جبکہ مشیر صحت جو گزشتہ 23 سال سے عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ہیں لیکن اب اپنے ہی ادارے کی سفارشات کو پاکستان کےلیے مفید نہیں سمجھتے۔
پنجاب کی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد عوام کو جہالت کے طعنے دینے سے فارغ ہوں تو انہیں ہمسایہ ملک بھارت کے بارے میں بتانا چاہيے، جہاں ریاست کیرالہ کی خاتون وزیر صحت 'کےکے شیلجا' نے اپنی ''جاہل'' عوام کےلیے ریاستی انتظامیہ کی مدد سے ایک موثر حکمت عملی ترتیب دی اور طبی عملے کی مدد سے ریاست میں کورونا کی روک تھام میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ کیرالہ میں ہی بھارت کا پہلا کورونا کیس رپورٹ ہوا تھا اور اب وہاں سخت جدوجہد کے بعد نہ صرف نئے کیسز آنا ختم ہوگئے ہیں بلکہ نوے فیصد مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے اب پورے بھارت میں کیرالہ ماڈل کو اپنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔
یہ کہانی سمجھنے کےلیے 2019 میں ریلیز ہونے والی بھارتی ملیالم فلم ''وائرس'' دیکھیں جس میں 2018 کے دوران کیرالہ میں پھیلنے والے 'نپاہ' نامی وائرس کے خلاف اس خاتون وزیر اور ان کی ٹیم کی زبردست کارکردگی کے حقیقی واقعات کو فلمایا گیا ہے کہ کس طرح ایک وزیر نے اپنی ٹیم سے مل کر ایک ہلاکت خیز وائرس کو شکست دی۔ بالکل اسی طرز پر اس دفعہ کورونا کی مہلک وبا کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔
لیکن یہ مثالیں تو سیکھنے والوں کےلیے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے خبردار کرنے کے باوجود کہ پاکستان میں حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں، اسے اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ ہیلتھ ایمرجنسی کے باوجود ملک کا نیا دفاعی بجٹ، صحت کے بجٹ کا منہ چڑا رہا ہے۔ رہی پاکستانی قوم، تو وہ ہمیشہ سے ہی زندگی سے زیادہ اپنی معیشت بچانے کےلیے فکرمند رہتی ہے۔
بحران میں قیادت کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، مگر جہاں حکمران 'رعایا' سے زیادہ 'ارطغرل' میں دلچسپی لیتے ہوں، ٹیکنالوجی کے وزیر کی کل کارکردگی سیاسی چاند چڑھانے تک محدود ہو اور مذہبی رہنما انسانی زندگی کی قیمت پر آخرت فروخت کررہے ہوں، وہاں عالمی ادارہ صحت بیچارہ کیا بیچتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کورونا کی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے میں ہر جگہ مرکزی حکومتوں کا کردار اہم رہا ہے، جنہوں نے قومی سطح پر ماہرین کی مشاورت سے ایک جامع پالیسی تشکیل دی اور ریاستی یا صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ذریعے اسے سختی سے نافذ کیا۔ یورپ سے تقابل چاہے نہ بھی کریں، پڑوس میں ہی ویتنام اور جنوبی کوریا کی مثالیں موجود ہیں، جہاں اس مہلک وبا سے بچنے کےلیے جارحانہ حکمت عملی اپنائی گئی اور عوام کو ہر ممکن حد تک وائرس سے محفوظ رکھا گیا۔
ویتنام دس کروڑ آبادی کا ملک ہے جس کی چین کے ساتھ سرحد 1450 کلومیٹر طویل ہے۔ جس دن چین میں کورونا سے پہلی ہلاکت ہوئی، اسی دن ویتنام حکومت نے چین کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرکے آمدورفت ختم کردی تھی۔ ملک کے سارے تعلیمی اداروں کو قرنطینہ بنادیا، غلط معلومات پھیلانے پر سزا مقرر کی اور پورا زور عوام میں درست معلومات اور آگاہی پھیلانے پر صرف کردیا۔ معاشی دباؤ سے نکلنے کےلیے ساری انڈسٹری کو ٹیسٹنگ کٹس بنانے پر لگایا اور ایسی کٹس تیار کرلی گئیں جو صرف ایک گھنٹے میں درست نتائج دے سکتی تھیں۔ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد انہیں باقی دنیا کو برآمد کرنا شروع کردیا گیا۔ آج یورپ، امریکا اور انڈیا میں ویتنام کی ٹیسٹنگ کٹس استعمال ہورہی ہیں۔ دلچسپ بات کہ وائرس کے خلاف عوامی شعور بڑھانے کی خاطر حکومت نے ایک ویڈیو سونگ بھی بنایا جو وائرل ہوچکا ہے۔ حکومت نے طے کرلیا تھا کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد کسی صورت میں ایک ہزار سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے۔ نتیجتاً ویتنام میں اب تک مریضوں کی کل تعداد ساڑھے تین سو سے اوپر نہیں جا پائی، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد صفر ہے۔ مئی کے آغاز سے وہاں دوبارہ زندگی رواں دواں ہے۔
جہاں بھی کورونا کو شکست ہوئی وہاں ماہرین کی ایسی کمیٹی یا ٹاسک فورس ضرور قائم کی گئی جس نے بدلتی عالمی صورتحال کے پیش نظر فوری فیصلے کیے اور اپنے ملکوں میں ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔ پاکستان میں ایسی کوئی ٹیم کاغذوں میں تو شاید موجود ہو، منظر عام پر دکھائی نہیں دی۔ کووڈ 19 کی حکومتی ویب سائٹ پر صرف بنیادی معلومات اور سرکاری ٹویٹس پڑے ہیں۔ وزارتِ صحت کا قلمدان بھی خود وزیراعظم صاحب کے پاس ہے جو بارہا کورونا کے بارے میں اپنے ''اقوال زریں'' سے قوم کو محظوظ کرچکے ہیں۔ جبکہ مشیر صحت جو گزشتہ 23 سال سے عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ہیں لیکن اب اپنے ہی ادارے کی سفارشات کو پاکستان کےلیے مفید نہیں سمجھتے۔
پنجاب کی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد عوام کو جہالت کے طعنے دینے سے فارغ ہوں تو انہیں ہمسایہ ملک بھارت کے بارے میں بتانا چاہيے، جہاں ریاست کیرالہ کی خاتون وزیر صحت 'کےکے شیلجا' نے اپنی ''جاہل'' عوام کےلیے ریاستی انتظامیہ کی مدد سے ایک موثر حکمت عملی ترتیب دی اور طبی عملے کی مدد سے ریاست میں کورونا کی روک تھام میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ کیرالہ میں ہی بھارت کا پہلا کورونا کیس رپورٹ ہوا تھا اور اب وہاں سخت جدوجہد کے بعد نہ صرف نئے کیسز آنا ختم ہوگئے ہیں بلکہ نوے فیصد مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے اب پورے بھارت میں کیرالہ ماڈل کو اپنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔
یہ کہانی سمجھنے کےلیے 2019 میں ریلیز ہونے والی بھارتی ملیالم فلم ''وائرس'' دیکھیں جس میں 2018 کے دوران کیرالہ میں پھیلنے والے 'نپاہ' نامی وائرس کے خلاف اس خاتون وزیر اور ان کی ٹیم کی زبردست کارکردگی کے حقیقی واقعات کو فلمایا گیا ہے کہ کس طرح ایک وزیر نے اپنی ٹیم سے مل کر ایک ہلاکت خیز وائرس کو شکست دی۔ بالکل اسی طرز پر اس دفعہ کورونا کی مہلک وبا کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔
لیکن یہ مثالیں تو سیکھنے والوں کےلیے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے خبردار کرنے کے باوجود کہ پاکستان میں حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں، اسے اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ ہیلتھ ایمرجنسی کے باوجود ملک کا نیا دفاعی بجٹ، صحت کے بجٹ کا منہ چڑا رہا ہے۔ رہی پاکستانی قوم، تو وہ ہمیشہ سے ہی زندگی سے زیادہ اپنی معیشت بچانے کےلیے فکرمند رہتی ہے۔
بحران میں قیادت کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، مگر جہاں حکمران 'رعایا' سے زیادہ 'ارطغرل' میں دلچسپی لیتے ہوں، ٹیکنالوجی کے وزیر کی کل کارکردگی سیاسی چاند چڑھانے تک محدود ہو اور مذہبی رہنما انسانی زندگی کی قیمت پر آخرت فروخت کررہے ہوں، وہاں عالمی ادارہ صحت بیچارہ کیا بیچتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔