باخبر صحافت کے بے خبر صحافی

خرم شہزاد  ہفتہ 27 جون 2020
کیا صحافی واقعی اتنے باخبر ہوتے ہیں جتنا یہ اپنے آپ کو سمجھتے اور ظاہر کرتے ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا صحافی واقعی اتنے باخبر ہوتے ہیں جتنا یہ اپنے آپ کو سمجھتے اور ظاہر کرتے ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ارضِ پاکستان کا یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں یا تو ہر شخص باخبر ہے یا پھر باخبر ہونا چاہتا ہے۔ آپ ایک حجام کے پاس بال بنوانے بیٹھے ہوں تو وہاں موجود اکثر افراد دکان میں لگے ٹی وی پر چلتی خبروں پر رواں تبصرے کررہے ہوں گے۔ اگر ٹی وی نہیں موجود تو ایک آدھ کے ہاتھ میں اخبار ہوگا اور سامنے آنے والی ہر خبر پر دھواں دھار تبصرے کیے جارہا ہوگا اور باقی لوگ حسب توفیق حصہ ڈال رہے ہوں گے۔

صورت حال میں ایکسکلوزیو موڑ تب آتا ہے جب دکان کے باہر بیٹھا موچی جوتے کی سلائی چھوڑ کر گردن دکان کے اندر کرتا ہے اور سارے لوگوں کی بے خبری پر افسوس کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ نہیں جناب ایسا نہیں ہے، کل رات ہی نواز شریف نے فلاں فلاں کے ہاتھ فلاں فلاں جج کو پیسے بھیج دیے تھے، تبھی تو آج رہائی ممکن ہوئی ہے۔ آپ سوال کریں کہ یہ خبر تو نہ کسی اخبار میں آئی نہ کسی چینل پر؟ تب وہ ایک خاص مسکراہٹ سے آپ کو نوازتے ہوئے دیکھے گا جیسے کہہ رہا ہوں کہ ہے ناں جاہل۔ بھلا یہ خبر بھی کہیں آسکتی تھی۔ یہ خبر چھپانے کےلیے الگ سے دو پیٹیاں خرچ کرنی پڑی تھیں۔ اس موچی کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے ہر جگہ پیسے دینے وہ خود گیا ہو۔ آپ اس کی خبر سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور وہ ایک تاسف سے دوبارہ جوتے کی سلائی شروع کردیتا ہے کہ اس بے خبر قوم کا کچھ نہیں بن سکتا۔

یہ باخبریت کا فخر اور دوسروں کی بے خبری پر تاسف اور افسوس ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ وہ شخص جو کسی پریس یا چینل پر بھلے ڈرائیور ہی کیوں نہ ہو، اندر کی خبریں رکھنے کا دعویدار ہوتا ہے، تو سوچیں اس پریس یا چینل پر کام کرتے صحافی کس ہوا میں ہوں گے۔ چینل پر پروگرام اور پیکیج کرتے ہوئے کچھ صحافیوں کا ’’اوتاؤلا پن’‘‘ اس قدر نمایاں ہوتا ہے کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اس بندے کا بس نہیں چل رہا ورنہ یہ بھی بتادے فلاں صاحب نے آج صبح کتنے گرام فضلہ لیٹرین میں خارج کیا تھا۔

لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی صحافی اتنے باخبر ہوتے ہیں جتنا یہ اپنے آپ کو سمجھتے اور ظاہر کرتے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب ہے، نہیں۔ پاکستان کے تقریباً ستانوے فیصد صحافی باخبریت کی ب تک بھی نہیں پہنچ پاتے، باخبر ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ اس ستانوے فیصد میں بہت سے بڑے اور مشہور صحافی اور اینکرز بھی شامل ہیں۔ آئیے باخبر صحافت کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔

ایک مل اونر سے لے کر چپڑاسی تک اور دکاندار سے لے کے فقیر تک، سبھی کے کام کا کوئی نہ کوئی وقت ہوتا ہے۔ یہ وقت اوپر نیچے آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے۔ لیکن بہرحال وقت ہوتا ہے سوائے صحافیوں کے۔ صحافی کا کوئی وقت نہیں ہوتا، یہ چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہوتا ہے۔ صدر پاکستان سے لے کر ایک گورکن تک جس جس سے ممکن ہو سلام دعا اور دوستی رکھتا ہے اور ان سب کے لیے وقت بھی نکالتا ہے۔ پتہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ابھی فلاں سیاست دان کے ساتھ ہے، پھر فلاں بیورو کریٹ کے گھر مدعو ہے، پھر فلاں فوجی کے ساتھ فلاں جگہ وزٹ ہے، پھر چھپ چھپا کر میونسپلٹی کے فلاں درجہ چہارم کے ملازم سے ملنے جانا ہے، پھر فلاں پھر فلاں اور پھر فلاں۔ لیکن وقت نہیں تو گھر اور سسرال کےلیے۔ پوچھیں تو ہنستے ہوئے بتائے گا کہ کیا کریں ہمارا کام ہی ایسا ہے۔ لوگوں سے ملنا جلنا پڑتا ہے اور خبریں بھی یہیں سے نکالنی ہوتی ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ دوسرا کیا اتنا ہی بے وقوف ہے کہ گھر پر بلائے، کھانا بھی کھلائے اور مفت میں اپنی کمزوریاں اور خبریں بھی دے۔ اللہ اللہ ایسے سادے میرے ملک کے لوگ ہیں، کیا آپ یقین کرتے ہیں؟ سوچیے کہ پھر سارا گورکھ دھندا کیا ہے؟ ممکنہ جواب ایک ہی ہے کہ یہ سارے صحافی صرف پلانٹڈ صحافت کررہے ہیں۔ دوسرے ان تک خبر پہنچاتے ہیں، خود سامنے نہیں آنا چاہتے تو انہیں استعمال کیا جاتا ہے اور یہ خوش کہ ہم بڑے باخبر صحافی ہیں۔ یہ جو اندر کی خبر حاصل کرکے ثبوت لہرا لہرا کر دکھا رہے ہوتے ہیں، وہ کیا انہوں نے خود چوری کیے ہوتے ہیں؟ اگر کسی دفتر سے متعلقین اور حاسدین نہ چاہیں تو کوئی بھی شخص بھلے وہ کوئی بھی ہو، ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی حاصل کر کے دکھائے ذرا۔ دفاتر میں سرکاری اور غیر سرکاری کاغذات کی حفاظت کا نظام اتنا بھی برا اور ناقص نہیں ہوتا کہ ہر دہی بھلے اور چاٹ فروش ایسے کاغذات حاصل کرتا رہے۔

یہ جو کچھ صحافیوں کے پاس ایکسکلوزیو وڈیوز موجود ہوتی ہیں، آپ انہیں دیکھ کر ہی سر دھنتے ہیں اور ان کی پہنچ کی واہ واہ کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر سوچتے نہیں کہ مذکورہ شخص کیا اتنا ہی گدھا ہے کہ کیمرہ آن کروائے اور سامنے بیٹھ کر رام کہانی شروع کردے۔ یقیناً یہ اس کے متعلقین اور حاسدین ہی ہیں جو اسے اعتماد کی مار مارتے ہوئے واقعی مارنا چاہتے ہیں۔ جبھی خفیہ کیمرے اور موبائلز کی ریکارڈنگ بنائی جاتی ہیں اور اپنے مفاد کےلیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس میں صحافی کی باخبریت کہاں سے آئی؟

پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بدنام کچھ صحافی بہت باخبر گردانے جاتے ہیں۔ کہیں کچھ ہونے سے پہلے ہی انہیں پتہ ہوتا ہے کہ فلاں جگہ بم دھماکہ ہونا ہے، فلاں شخص کے ساتھ یہ ہونا ہے، وہ ہونا ہے۔ ایک مسکراہٹ کے ساتھ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے سورس اور دوست ہمیں پہلے ہی بتا دیتے ہیں۔ لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ پلانٹڈ لوگ ہیں جنہیں دوسرے اپنے کاموں کی پبلسٹی کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ میڈیا کے اندر خبر چلانے، معاشرے کو ہیجان میں مبتلا رکھنے کےلیے کوئی تو سوٹڈ بوٹڈ چاہیے ہوتا ہے کیونکہ داڑھی اور ٹوپی والوں کی بات اشرافیہ اور سول سوسائٹی کی موم بتی مافیاز کےلیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، لیکن ایک سوٹڈ بوٹڈ کی بات تو محفلوں میں بے دھڑک ’کوٹ‘ بھی کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح صحافیوں کی سیاست دانوں، بیوروکریٹس، حکومت اور اپوزیشن والوں سے دوستیوں پر بھی نظر ڈالی جائے تو باخبریت کے ماخذوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ یہ تو ابھی پرسوں کی بات ہے کہ جب زرداری صاحب کے خلاف ذوالفقار مرزا قرآن پاک سر پر رکھے کرپشن کے ثبوت صحافیوں میں بانٹ رہے تھے اور شام کو ہر شخص اپنے پروگرام میں باخبر صحافی بنا ہوا تھا۔ ایسے ہی ہر سیاست دان کے ساتھ جڑے صحافی کی باخبریت بس اتنی ہی ہوتی ہے جتنا اسے بتادیا جاتا ہے۔ اب اس میں کون فرق کرے گا کہ جو کچھ اسکرین پر ایک صحافی کہہ رہا ہے وہ واقعی کوئی خبر ہے یا کسی ’’’دوست سیاست دان‘‘ کا بتایا ہوا راز ہے۔ یہ عوام کے سوچنے کی بات ہے کہ ان تک خبر پہنچائی جارہی ہے یا کسی کا ایجنڈا پورا کیا جارہا ہے؟

مختصر بات یہی ہے کہ ہم صحافی کے جملوں کو خبر کہتے ہیں لیکن یہ خبر واقعی وقوع پذیر ہوئی ہے کہ بنائی گئی ہے یا بنوائی گئی ہے، اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے۔ آج کا دور میڈیا وار کا ہے۔ اب جنگ میدانوں کے بجائے ذہنوں اور دماغ کے تاریک کمروں میں لڑی جائے گی اور اس تاریکی میں کون آپ کا اپنا ہے اورکون دشمن کا آلہ کار ہے، یہ پہچان بہت مشکل ہے۔ لیکن کون سا واقعی باخبر صحافی ہے اور کون سا دوسروں کا آلہ کار اور پلانٹڈ صحافی ہے، یہ سمجھنا اور کھوجنا بہت ضروری ہے۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد موجود باخبر صحافیوں کا پوسٹ مارٹم کریں۔ ان سے خبر کی اصلیت کے بارے میں اور ان کی اپنی اہلیت کے بارے میں سوال کریں، تاکہ اصلی خبر تک ہماری رسائی ہوسکے اور گھڑی ہوئی اور پلانٹڈ خبروں اور صحافیوں سے چھٹکارا ممکن ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔