امانت دیانت اور ایمان
آج معاشرے کا ہر فرد یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک اچھا اور نیک سیرت انسان گردانا جائے۔
اسلام ہر اچّھے کام کا حکم دیتا اور ہر بُرے کام سے روکتا ہے۔ اچھے کاموں میں ایک امانت داری ہے، جس کا اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور بُرے کاموں میں ایک خیانت ہے، جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے امانت داری کا صرف حکم ہی نہیں دیا، بل کہ اس پر ایسا عمل کرکے دکھایا کہ آپؐ کے مالی و جانیں دشمن مشرکین ِ مکہ بھی آپؐ کے امانت دار ہونے کی گواہی دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس صرف صحابہ کرامؓ ہی نہیں، بل کہ کفار مکہ بھی اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اس ذمے داری کو بہ حسن خوبی انجام دیا کرتے تھے۔ چناں چہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امانت داری کو دیکھ کر اعلان نبوت سے قبل ہی آپؐ کو امین و صادق کے القابات سے نوازا گیا۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہجرت سے قبل حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو امانتیں لوگوں تک پہنچانے کی ذمے داری عطا فرمائی اور پھر مدینہ منورہ کے لیے ہجرت فرما گئے۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بستر پر ہی سوئے تاکہ صبح حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نیابت میں ساری امانتیں لوگو ں کو واپس کردیں ا ور کسی شخص کو یہ شبہ بھی نہ ہو کہ نعوذ باﷲ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم امانتیں لے کر چلے گئے۔
امانت ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے آپس میں میل جول بڑھتا ہے، محبتیں جنم لیتی ہیں اور ایک دوسرے پر بھروسا پیدا ہوتا ہے، جو ایک اچھے اور بہترین معاشرہ کے وجود کا سبب بنتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا امانت داری کی تاکید وارد ہوئی ہے۔ اﷲ تعالی فرماتے ہیں، مفہوم: ''جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اور چاہیے کہ اپنے پروردگار اﷲ سے ڈرے۔'' (البقرۃ)
ایک اور جگہ فرمایا، مفہوم: ''یقیناً اﷲ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ۔'' (النساء) ایک اور جگہ فرمایا، مفہوم: ''ہاں اگر تم ایک دوسرے پر بھروسا کرو تو جس پر بھروسا کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ٹھیک ٹھیک ادا کردے۔'' (البقرۃ) اسی طرح خیانت سے روکتے ہوئے کھلے الفاظ میں فرمایا، مفہوم: ''اے ایمان والو! اﷲ اور رسول سے بے وفائی نہ کرنا اور نہ جانتے بوجھتے اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا۔'' (الانفال)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کا جزو اور حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پاس داری نہیں اس میں دین نہیں۔'' (سنن بیہقی)
اﷲ تعالی نے امانت داروں کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھنے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو جنّتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔'' (المعارج) اسی طرح حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''امانت کے طور پر رکھی شے کو واپس کرنا چاہیے۔'' (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) قرآن و حدیث کی روشنی میں امّت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کسی کا مال یا سامان بہ طور امانت اپنے پاس رکھنا باعث اجر و ثواب ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔'' (سورۃ المائدۃ ) نیز حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔'' (صحیح مسلم)
فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کی کنجی جب عثمان بن طلحہ بن عبدالدار شیبی کو دینے اور ان کی امانت ان کو واپس کر نے کی تاکید کی گئی تو امانت کو جمع کے صیغے کے ساتھ استعمال کیا گیا، ارشاد باری کا مفہوم ہے: ''اﷲ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچا دیا کرو۔'' (النساء) یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کنجی کوئی اہم مال نہیں، بل کہ یہ خانۂ کعبہ کی خدمت کی نشانی ہے، جس کا تعلق مال سے نہیں عہد ے سے ہے، پھر بھی اس کو امانت سے تعبیر کیا گیا اور پھر جمع کا صیغہ استعمال کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن کی ادائی تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ چند امانتیں ایسی ہیں جن کا آج معاشرے میں خیال نہیں رکھا جاتا اور خیانت کا بے دریغ ارتکاب کیا جاتا ہے۔ جیسے: نااہلوں کو عہدے اور مناصب سپرد کر دینا، مزدور اور ملازمین کی اجرت میں ہیر پھیر، خاص مجالس کی بات کو عام کر نا، غلط مشورہ دینا، کسی کا راز ظاہر کرنا، حق تلفی کر نا، ناانصافی کرنا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان امانتوں کا بھی خاص طور پر خیال کریں۔
آج معاشرے کا ہر فرد یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک اچھا اور نیک سیرت انسان گردانا جائے۔ ہر کوئی اسے اچھا سمجھے اور اس کی تعریف کرے۔ اس کے لیے ہم ظاہری شکل و صورت سنوارتے ہیں۔ اچھے کپڑے، اچھے جوتے غرض ہر چیز اچھی اور خوب صورت چیز پہننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جب کہ حقیقی اچھائی اور خوب صورتی باطنی اچھائی اور خوب صورتی ہے۔ ہمارے اخلاق و اطوار اور ہماری عادات و صفات اچھی ہوں تو باوجود ظاہری سادگی کے ہم اچھے اور بااخلاق لگیں گے۔ اچھی صفات اور اچھے اخلاق میں بنیادی صفت امانت داری ہے، جو تمام اچھی صفات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ لہذا ہم اگر اچھا اور نیک سیرت انسان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں امانت داری کی صفت کو اپنانا چاہیے۔ یہی انسانیت کا تقاضا ہے اور شریعت کا حکم بھی۔
اﷲ تعالی ہمیں ہر نیکی کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے امانت داری کا صرف حکم ہی نہیں دیا، بل کہ اس پر ایسا عمل کرکے دکھایا کہ آپؐ کے مالی و جانیں دشمن مشرکین ِ مکہ بھی آپؐ کے امانت دار ہونے کی گواہی دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس صرف صحابہ کرامؓ ہی نہیں، بل کہ کفار مکہ بھی اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اس ذمے داری کو بہ حسن خوبی انجام دیا کرتے تھے۔ چناں چہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امانت داری کو دیکھ کر اعلان نبوت سے قبل ہی آپؐ کو امین و صادق کے القابات سے نوازا گیا۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہجرت سے قبل حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو امانتیں لوگوں تک پہنچانے کی ذمے داری عطا فرمائی اور پھر مدینہ منورہ کے لیے ہجرت فرما گئے۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بستر پر ہی سوئے تاکہ صبح حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نیابت میں ساری امانتیں لوگو ں کو واپس کردیں ا ور کسی شخص کو یہ شبہ بھی نہ ہو کہ نعوذ باﷲ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم امانتیں لے کر چلے گئے۔
امانت ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے آپس میں میل جول بڑھتا ہے، محبتیں جنم لیتی ہیں اور ایک دوسرے پر بھروسا پیدا ہوتا ہے، جو ایک اچھے اور بہترین معاشرہ کے وجود کا سبب بنتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا امانت داری کی تاکید وارد ہوئی ہے۔ اﷲ تعالی فرماتے ہیں، مفہوم: ''جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اور چاہیے کہ اپنے پروردگار اﷲ سے ڈرے۔'' (البقرۃ)
ایک اور جگہ فرمایا، مفہوم: ''یقیناً اﷲ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ۔'' (النساء) ایک اور جگہ فرمایا، مفہوم: ''ہاں اگر تم ایک دوسرے پر بھروسا کرو تو جس پر بھروسا کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ٹھیک ٹھیک ادا کردے۔'' (البقرۃ) اسی طرح خیانت سے روکتے ہوئے کھلے الفاظ میں فرمایا، مفہوم: ''اے ایمان والو! اﷲ اور رسول سے بے وفائی نہ کرنا اور نہ جانتے بوجھتے اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا۔'' (الانفال)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کا جزو اور حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پاس داری نہیں اس میں دین نہیں۔'' (سنن بیہقی)
اﷲ تعالی نے امانت داروں کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھنے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو جنّتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔'' (المعارج) اسی طرح حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''امانت کے طور پر رکھی شے کو واپس کرنا چاہیے۔'' (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) قرآن و حدیث کی روشنی میں امّت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کسی کا مال یا سامان بہ طور امانت اپنے پاس رکھنا باعث اجر و ثواب ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔'' (سورۃ المائدۃ ) نیز حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔'' (صحیح مسلم)
فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کی کنجی جب عثمان بن طلحہ بن عبدالدار شیبی کو دینے اور ان کی امانت ان کو واپس کر نے کی تاکید کی گئی تو امانت کو جمع کے صیغے کے ساتھ استعمال کیا گیا، ارشاد باری کا مفہوم ہے: ''اﷲ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچا دیا کرو۔'' (النساء) یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کنجی کوئی اہم مال نہیں، بل کہ یہ خانۂ کعبہ کی خدمت کی نشانی ہے، جس کا تعلق مال سے نہیں عہد ے سے ہے، پھر بھی اس کو امانت سے تعبیر کیا گیا اور پھر جمع کا صیغہ استعمال کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن کی ادائی تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ چند امانتیں ایسی ہیں جن کا آج معاشرے میں خیال نہیں رکھا جاتا اور خیانت کا بے دریغ ارتکاب کیا جاتا ہے۔ جیسے: نااہلوں کو عہدے اور مناصب سپرد کر دینا، مزدور اور ملازمین کی اجرت میں ہیر پھیر، خاص مجالس کی بات کو عام کر نا، غلط مشورہ دینا، کسی کا راز ظاہر کرنا، حق تلفی کر نا، ناانصافی کرنا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان امانتوں کا بھی خاص طور پر خیال کریں۔
آج معاشرے کا ہر فرد یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک اچھا اور نیک سیرت انسان گردانا جائے۔ ہر کوئی اسے اچھا سمجھے اور اس کی تعریف کرے۔ اس کے لیے ہم ظاہری شکل و صورت سنوارتے ہیں۔ اچھے کپڑے، اچھے جوتے غرض ہر چیز اچھی اور خوب صورت چیز پہننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جب کہ حقیقی اچھائی اور خوب صورتی باطنی اچھائی اور خوب صورتی ہے۔ ہمارے اخلاق و اطوار اور ہماری عادات و صفات اچھی ہوں تو باوجود ظاہری سادگی کے ہم اچھے اور بااخلاق لگیں گے۔ اچھی صفات اور اچھے اخلاق میں بنیادی صفت امانت داری ہے، جو تمام اچھی صفات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ لہذا ہم اگر اچھا اور نیک سیرت انسان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں امانت داری کی صفت کو اپنانا چاہیے۔ یہی انسانیت کا تقاضا ہے اور شریعت کا حکم بھی۔
اﷲ تعالی ہمیں ہر نیکی کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین